Mutaliya-e-Quran - Yaseen : 55
اِنَّ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ الْیَوْمَ فِیْ شُغُلٍ فٰكِهُوْنَۚ
اِنَّ : بیشک اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ : اہل جنت الْيَوْمَ : آج فِيْ شُغُلٍ : ایک شغل میں فٰكِهُوْنَ : باتیں (خوش طبعی کرتے)
آج جنتی لوگ مزے کرنے میں مشغول ہیں
اِنَّ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ [بیشک جنت والے ] الْيَوْمَ فِيْ شُغُلٍ [آج کے دن کسی مشغلہ میں ] [فٰكِــهُوْنَ : ہنسنے ہنسانے والے ہوں گے ] ش غ ل (ف) شغلا کام میں لگانا۔ مصروف رکھنا ۔ شَغَلَتْنَآ اَمْوَالُنَا وَاَهْلُوْنَا (ہمیں مصروف رکھا ہمارے اموال نے اور ہمارے گھر والوں نے) 48/11 شغل مصروفیت۔ شغل، زیر مطالعہ آیت۔ 55 نوٹ۔ 1: آیت 55 کو سمجھنے کے لئے یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ صالح اہل ایمان میدان حشر میں روک کر نہیں رکھے جائیں گے بلکہ ابتدا ہی میں ان کو بلا حساب، یا ہلکی حساب فہمی کے بعد جنت میں بھیج دیا جائے گا کیونکہ ان کا ریکارڈ صاف ہوگا۔ انہیں دوران عدالت انتظار کی تکلیف دینے کی ضرورت نہ ہوگی۔ اس لئے اللہ تعالیٰ میدان حشر میں جواب دہی کرنے والوں کو بتائے گا کہ جن لوگوں کو تم دنیا میں بیوقوف سمجھ کر ان کا مذاق اڑاتے تھے وہ اپنی عقلمندی کی بدولت آج جنت کے مزے لوٹ رہے ہیں اور تم یہاں کھڑے جوابدہی کر رہے ہو۔ (تفہیم القرآن) یہاں اصحاب جنت کا حال ذکر فرمایا ہے کہ وہ اپنی تفریحات میں مشغول ہوں گے۔ ممکن ہے اس جگہ فی شغل (کسی مصروفیت میں) کا لفظ اس خیال کو دفع کرنے کے لئے بڑھایا ہو کہ جنت میں جبکہ نہ کوئی عبادت ہوگی، نہ کوئی فرض وواجب اور نہ کسب معاش کا کوئی کام، تو کیا اس بیکاری میں آدمی کا جی نہ گھبرائے گا۔ اس لئے فرمایا کہ ان کو اپنی تفریحات کا ہی بڑا شغل ہوگا، جی گھبرانے کا کیا سوال ہے۔ (معارف القرآن)
Top