Baseerat-e-Quran - Maryam : 33
هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖ١ۙ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ
هُوَ : وہ الَّذِيْٓ : وہ جس نے اَرْسَلَ : بھیجا رَسُوْلَهٗ : اپنا رسول بِالْهُدٰي : ہدایت کے ساتھ وَدِيْنِ الْحَقِّ : اور دین حق لِيُظْهِرَهٗ : تاکہ اسے غلبہ دے عَلَي : پر الدِّيْنِ : دین كُلِّهٖ : تمام۔ ہر وَلَوْ : خواہ كَرِهَ : پسند نہ کریں الْمُشْرِكُوْنَ : مشرک (جمع)
وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول ؐ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پوری جنسِ دین پر غالب کر دے۔32 خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو
سورة التَّوْبَة 32 متن میں ”الدین“ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا ترجمہ ہم نے ”جنس دین“ کیا ہے۔ دین کا لفظ، جیسا کہ ہم پہلے بھی بیان کرچکے ہیں، عربی زبان میں اس نظام زندگی یا طریق زندگی کے لیے استعمال ہوتا ہے جس کے قائم کرنے والے کو سند اور مطاع تسلیم کر کے اس کا اتباع کیا جائے۔ پس بعثت رسول کی غرض اس آیت میں یہ بتائی گئی ہے کہ جس ہدایت اور دین حق کو وہ خدا کیطرف سے لایا ہے اسے دین کی نوعیت رکھنے والے تمام طریقوں اور نظاموں پر غالب کر دے۔ دوسرے الفاظ میں رسول کی بعثت کبھی اس غرض کے لیے نہیں ہوئی کہ جو نظام زندگی لے کر وہ آیا ہے وہ کسی دوسرے نظام زندگی کا تابع اور اس سے مغلوب بن کر اور اس کی دی ہوئی رعایتوں اور گنجائشوں میں سمٹ کر رہے۔ بلکہ وہ بادشاہ ارض و سما کا نمائندہ بن کر آیا ہے اور اپنے بادشاہ کے نظام حق کو غالب دیکھنا چاہتا ہے۔ اگر کوئی دوسرا نظام زندگی دنیا میں رہے بھی تو اسے خدائی نظام کی بخشی ہوئی گنجائشوں میں سمٹ کر رہنا چاہیے جیسا کہ جزیہ ادا کرنے کی صورت میں ذمیوں کا نظام زندگی رہتا ہے۔ (ملاحظہ ہو الزمر، حاشیہ 3، المومن، حاشیہ 43۔ الشوریٰ حاشیہ 20)
Top