Tafseer-e-Haqqani - An-Nisaa : 50
اُنْظُرْ كَیْفَ یَفْتَرُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ١ؕ وَ كَفٰى بِهٖۤ اِثْمًا مُّبِیْنًا۠   ۧ
اُنْظُرْ : دیکھو كَيْفَ : کیسا يَفْتَرُوْنَ : باندھتے ہیں عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر الْكَذِبَ : جھوٹ وَكَفٰى : اور کافی ہے بِهٖٓ : یہی اِثْمًا : گناہ مُّبِيْنًا : صریح
دیکھو اللہ پر کیسے (کیسے) بہتان باندھ رہے ہیں اور صریح گنہگاری کے لئے تو یہی کافی ہے
ترکیب : کیف یفترون منصوب ہے یفترون کے سبب اور جملہ محلا منصوب ہے انظر کی وجہ سے ویقولون معطوف ہے یؤمنون پر للذین کفروا متعلق ہے یقولون سے ھولاء مبتداء اھدیٰ خبر جملہ مقولہ۔ تفسیر : پہلی آیات میں یہود پر ان کی بد افعالیوں کے سبب عتاب تھا جس کو وہ اپنے انبیائے خاندان کے سبب قابل التفات نہ سمجھتے تھے اور اس پر بھی تقدس کا دم بھرتے تھے کہ ہم فلاں بزرگ کی اولاد ہیں۔ تقدس ہمارا موروثی حق ہے اور ہم ابراہیم و اسحاق کی نسل ہیں جن پر آتش دوزخ ازخود حرام ہے اور ہم رات کو گناہ کرتے ہیں تو صبح تک خودبخود پاک ہوجاتے ہیں اور دن کو کرتے ہیں تو شام تک پاک ہوجاتے ہیں اور نصاریٰ میں بھی پولوس کا یہ قول کہ مسیح سب کے گناہ سر پر اٹھا کرلے گئے بہت ہی کچھ موثر تھا۔ اس لئے یہ لوگ اپنے آپ کو پاک اور جنتی سمجھتے تھے اور اسی طرح برہمنوں وغیرہ اور بہت سی اقوام میں ایسے ڈھکوسلے ہیں کہ جن پر وہ نازاں رہا کرتے ہیں۔ چناچہ ان کی تقلید سے اسلام کے جاہل فرقوں میں بھی آج کل یہ بات پائی جاتی ہے۔ کہیں یہ مشہور ہے کہ ہم فلاں پیغمبر فلاں بزرگ کی اولاد ہیں۔ ہمارے گناہ سب نیست ہوجاتے ہیں ہم خدا کے ایسے اور ایسے ہیں جس طرح کہ یہود اپنے تئیں خدا کے فرزند اور اس کے پیارے کہتے اوراقبال رفتہ کے پھر واپس آنے کی ان حرکات پر امید کرتے تھے۔ اس لئے ان کے رد میں فرمایا گیا کہ یہ کیوں ناحق اپنی تعریفیں کرتے اور پاکیزہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ پاکیزہ تو وہی ہے کہ جس کو اللہ نے توفیق پرہیزگاری کی دی ہے۔ اس کے بعد حکیمانہ طور پر ان کی خیانت ظاہر فرماتا ہے۔
Top