Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 50
اُنْظُرْ كَیْفَ یَفْتَرُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ١ؕ وَ كَفٰى بِهٖۤ اِثْمًا مُّبِیْنًا۠   ۧ
اُنْظُرْ : دیکھو كَيْفَ : کیسا يَفْتَرُوْنَ : باندھتے ہیں عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر الْكَذِبَ : جھوٹ وَكَفٰى : اور کافی ہے بِهٖٓ : یہی اِثْمًا : گناہ مُّبِيْنًا : صریح
دیکھو ! یہ لوگ اللہ پر کس طرح صریح بہتان باندھ رہے ہیں ؟ ان کی آشکارا گنہگاری کیلئے یہی ایک بات بس کرتی ہے
اپنی بڑائی کی ڈینگیں مارنے والے اس طرح اللہ پر گویا بہتان باندھ رہے ہیں : 102: اپنی پاکیزگی اور بڑائی کی بات دوسروں سے سن کر آدمی اس گناہ میں مبتلا ہو سکتا ہے جس کا ایک سرا شرک کے اندر پھنسا ہوتا ہے اور جو شخص اس حد سے تجاوز کر کے اپنے آپ کو پاک اور برگزیدہ کہنا شروع کر دے اس کے مرض میں جو اضافہ ہوا ہے اس سے کون انکار کرسکتا ہے۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ یہ لوگ اللہ پر کس طرح صریح بہتان باندھ رہے ہیں اسلام نے ایک دوسرے کی تعریف اس کے منہ پر کرنے کو اس لئے منع فرمایا تھا کہ اس کے غلط نتائج برآمد ہونے کا خطرہ تھا۔ چنانشہ صحیح مسلم میں مقداد بن الاسود سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو دوسرے کی بڑی تعریف کرتے ہوئے سنا تو آپ ﷺ نے فرمایا ویحک قطعت عنق صاحبک ” تجھ پر افسوس ہے تو نے اپنے دوست کی گردن کاٹ دی۔ “ پھر فرمایا اگر اپنے دوست کی تعریف کرنی ہو تو یوں کہا کرو کہ میں اسے ایسا سمجھتا ہوں۔ کسی شخص کے گناہگار ہونے کے لئے یہ بات ہی کافی ہے کہ وہ اپنے آپ کو پاک اور برگزیدہ سمجھے کیونکہ یہ بات بذاتہ اپنے اندر تکبر و غرور کے انبار رکھتی ہے اور اگر کوئی فی الواقعہ نیک یا برگزیدہ انسان ہے تو آخر وہ ایسا دعویٰ کیوں کرے گا جو خلاف تقویٰ و پرہیزگاری ہے۔ اس لئے ارشاد فرمایا کہ کَفٰی باِہِ اِثْماً مُّبِیْنا ! یہ اس بات کے لئے کافی ہے کہ یہ گناہ گار ہے جو اپنی پاکیزدگی کا خود ہی اعلان کرتا ہے۔
Top