Baseerat-e-Quran - At-Tawba : 25
لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ فِیْ مَوَاطِنَ كَثِیْرَةٍ١ۙ وَّ یَوْمَ حُنَیْنٍ١ۙ اِذْ اَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَیْئًا وَّ ضَاقَتْ عَلَیْكُمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّیْتُمْ مُّدْبِرِیْنَۚ
لَقَدْ : البتہ نَصَرَكُمُ : تمہاری مدد کی اللّٰهُ : اللہ فِيْ : میں مَوَاطِنَ : میدان (جمع) كَثِيْرَةٍ : بہت سے وَّ : اور يَوْمَ حُنَيْنٍ : حنین کے دن اِذْ : جب اَعْجَبَتْكُمْ : تم خوش ہوئے (اترا گئے كَثْرَتُكُمْ : اپنی کثرت فَلَمْ تُغْنِ : تو نہ فائدہ دیا عَنْكُمْ : تمہیں شَيْئًا : کچھ وَّضَاقَتْ : اور تنگ ہوگئی عَلَيْكُمُ : تم پر الْاَرْضُ : زمین بِمَا رَحُبَتْ : فراخی کے باوجود ثُمَّ : پھر وَلَّيْتُمْ : تم پھرگئے مُّدْبِرِيْنَ : پیٹھ دے کر
اللہ بہت سے میدانوں میں تمہاری مدد کرچکا ہے اور حنین کے دن بھی (اسی نے مدد کی) جب تم نے اپنی کثرت پر گھمنڈ کیا مگر وہ تمہارے کچھ کام نہ آیا اور زخمی فراخی کے باوجود تمہارے اوپر تنگ ہوگئی اور تم پیٹھ پھیر کر میدان چھوڑنے لگے تھے۔
لغات القرآن آیت نمبر 25 تا 27 مواطن (موطن) ، مقامات، موقعے اعجیب (پسند ہے) لم تغن (کام نہ آئی) ضافت (تنگ ہوگئی) رحبت (وسعت، پھیلائو، گنجائش) ولیم (تم نے منہ موڑا) مدبرین (پیٹھ پھیر کر بھاگنے والے) سکینۃ (سکون، اطمینان) جنود (جند) لشکر لم تروا (تم نے نہیں دیکھا) تشریح : آیت نمبر 25 تا 27 ان تین آیتوں میں جنگ حنین میں مسلمانوں کی شکست اور پھر فتح و نصرت کی نعمت کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ مکہ معظمہ سے پندرہ کلو میٹر دور طائف کے راستے میں ” حنین “ واقع ہے۔ فتح مکہ سے مشرکین کی کمر ٹوٹ چکی تھی لیکن ان کے ایک جنگ جو قبیلہ بنو ہوازن نے اسلام کے مقابلے میں ہزاروں کی فوج کو جمع کرل یا تھا۔ ان کے سردار قبیلہ مالک بن عوف نے (جنہوں نے بعد میں اسلام قبول کرلیا تھا) اپنی جنگی قوت پر خاص محنت کر کے اپنی پوری طاقت و قوت کو ” حنین “ کے مقام پر جمع کرلیا تھا۔ البتہ ان کی دو شاخیں بنو کعب اور بنو کلاب نے شامل ہونے سے انکار کردیا تھا۔ مالک بن عوف نے حکم دیتا تھا کہ ہر سپاہی اپنے بال بچوں اور اپنے تمام مال و متاع کے ساتھ میدان جنگ میں آئے تاکہ میدان جنگ سے بھاگنے کا تصور بھی نہ رہے۔ جب نبی کریم ﷺ کو ان حالات کا علم ہوا تو آپ نے بنو ہوازن کے حملے سے پہلے ہی چودہ ہزار کال شکر تیار کر کے ان پر حملے کی تیاری شروع کردی۔ غزوہ حنین سے پہلے اتنی بڑی تعداد میں مسلمانوں نے کبھی پیش قدمی نہیں کی تھی۔ اتنی بڑی تعداد اور اسلحہ کو دیکھ کر اہل ایمان میں یہ خیال پیدا ہوگیا کہ بنو ہوازن اتنے بڑے لشکر کا مقابلہ کر ہی نہیں سکتے ہم کامیاب ہو کر لوٹیں گے۔ اللہ کی ذات پر بھروسہ کرنے کے بجائے فوجوں اور اسلحہ پر ناز اور فخر اللہ کو پسند نہیں آیا۔ جب بنو ہوازن کو اتنے بڑے لشکر کی اچانک آمد کا علم ہوا تو وہ گھبرا گئے انہوں نے اس مقام سے جہاں سے مسلمانوں کی فوج کو گذرنا تھا پہاڑی کے دونوں ناکوں اور پہاڑوں پر اپنے بہترین تیر انداز مقرر کردیئے تھے۔ جیسے ہی مسلمان ان کے تیروں کی زد میں آئے بنو ہوازن نے ایک بھر پور حملہ کردیا۔ چاروں طرف سے تیروں کی بوچھاڑ ان کے لئے اتنی اچانک تھی کہ وہ اپنی صفوں کو برقرار نہ رکھ سکے اور صحابہ کرام ادھر ادھر بھاگنے لگے۔ یہی وہ موقع تھا جہاں نبی کریم ﷺ جن کے چاروں طرف جاں نثار اپنی پیٹھ پر تیر کھا رہے تھے مسلمانوں میں حوصلہ پیدا کرنے کیلئے فرمایا کہ ” میں سچا نبی ہوں، میں جھوٹا نبی نہیں ہوں اور میں عبدالمطلب کی اولاد ہوں حضور ﷺ نے ادھر ادھر بھاگنے والوں کو للکارا تو تمام صحابہ کرام آپ کے اردگرد جمع ہوگئے اللہ نے ان پر ” تسکین قلب “ کو نازل فرمایا اس کے بعد صحابہ کرام نیت مام حالات کا جائزہ لے کر نبی کریم ﷺ کے حکم سے اچانک اتنا زور دار حملہ کیا کہ دشمن اپنے قدم نہ جما سکا ۔ کفار کا پورا لشکر اور اس کے سردار مالک بن عوف کو نہ صرف بدترین شکست ہوئی بلکہ وہ اپنے بال بچوں اور مال و اسباب کو چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کفار کے چھ ہزار جنگی قیدی چوبیس ہزار اونٹ، چالیس ہزار بکریاں اور چارہزار اوقیہ چاندی مال غنیمت ہاتھ آیا اللہ تعالیٰ نے اسی واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے تم مسلمانوں کو کتنے ہی مقامات پر فتح و نصرت سے نوازا تھا لیکن جب تمہیں اپنی کثرت کا گھمنڈ ہوگیا تھا تو نہ صرف تمہیں شکستہ وئی بلکہ زمین اپنے پھیلائو اور فراخی کے باوجود تم پر ایسی تنگ ہوگئی تھی کہ اگر اللہ تمہارے اوپر ” سکینہ “ یعنی تسکین قلب نازل کر کے تمہاری فرشتوں سے مدد نہ کرتا تو تم اپنا وجود بھی سنبھال نہ سکتے۔ لیکن اللہ نے کافروں کو نہ صرف شکست سے دوچار کیا بلکہ ان کو ایسی سزا دی گئی جو تاریخ میں ایک یادگار ہے۔ پھر اس کے بعد اللہ نے کفر کی طاقت کو توڑ کر جس کو چاہا ہدایت کی توفیق عطا فرما دی وہ بڑا غفور رحیم ہے۔ اس واقعہ سے چند باتیں سامنے آتی ہیں جن سے سبق حاصل کیا جاسکتا ہے۔ (1) اہل ایمان کو اللہ پر بھروسہ کر کے زندگی کے ہر میدان میں فتح و کامرانی نصیب ہوگی لیکن جب بھی وہ اپنی طاقت و قوت پر بےجا فخر و غرور کریں گے اور اللہ کے بجائے اسباب پر بھروسہ کریں گے ان کو شکست سے کوئی بچا نہیں سکتا۔ (2) جب بھی اللہ کی ذات پر مکمل بھروسہ کر کے عاجزی و انکساری کا طریقہ اختیار کیا جائیگا تو اللہ اپنی مدد اور فرشتوں کو بھیج کر ان سے اہل ایمان کی حفاظت فرمائے گا۔ (3) کافروں کیلئے یہی بڑی سزا ہے کہ وہ میدان جنگ میں سخت ذلت و شکست کھائیں آخرت میں جو بھی عذاب ہے وہ تو بہت شدید ہے۔ (4) اگرچہ ان آیات میں اس کا ذکر نہیں ہے لیکن احادیث و روایات میں نقل کیا گیا ہے کہ آپ ﷺ نے بہت بڑی تعداد میں قیدیوں کو رہا کردیا تھا۔ بقیہ قیدی مجاہدین کے قبضے میں بطور مال غنیمت دیدیئے گئے تھے اور اب ان کی ملکیت تھی لیکن آپ نے مجاہدین سے خواہش ظاہر فرمائی تو مجاہدین نے انتہائی ایثار سے کام لیتے ہوئے خوش دلی سے یہ قیدی آپ کے حوالے کردیئے اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے اپنی مرضی زبردستی مسلط نہیں کی بلکہ خواہش کا اظہار فرمایا۔ صحابہ کرام کا یہ عظیم ایثار و قربانی کا جذبہ تھا کہ انہوں نے بغیر کسی لالچ کے اپنا سب کچھ نبی کریم ﷺ کے حوالے کردیا۔ دوسری بات جس کا ذکر ان آیات میں نہیں ہے وہ یہ ہے کہ اس جنگ کے لئے آپ نے مکہ والوں سے ہتھیار اور سامان ادھار لیا تھا۔ حالانکہ آپ زبردستی بھی لے سکتے تھے مگر آپ نے وہ مشرکین مکہ سے اسلحہ اور کچھ سامان بطور قرض لیا۔ فتح ہوجانے کے بعد آپ نے وہ ہتھیار اور سامان ان لوگوں کو واپس کردیئے اس سے آپ کی عظمت ، دیانت اور امانت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
Top