Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 118
لَّعَنَهُ اللّٰهُ١ۘ وَ قَالَ لَاَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبَادِكَ نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًاۙ
لَّعَنَهُ اللّٰهُ : اللہ نے اس پر لعنت کی وَقَالَ : اور اس نے کہا لَاَتَّخِذَنَّ : میں ضرور لوں گا مِنْ : سے عِبَادِكَ : تیرے بندے نَصِيْبًا : حصہ مَّفْرُوْضًا : مقررہ
اس پر اللہ لعنت کرچکا ہے اور اس نے کہا کہ میں تیرے بندوں سے ایک مقرر حصہ لے کر رہوں گا
شیطان ہی وہ جنس ہے جو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور کیا جاچکا ہے : 193: اللہ کی رحمت سے دور جہ جانے کا نام اللہ کی لعنت کا مستحق قرار پانا ہے۔ شیطان کیا ہے ؟ اس کے متعلق تفصیل عروۃ الوثقی جلد اول سورة بقرہ کی آیت 30 سے 39 گیارہ آیات میں ذکر ہوچکی ہے آدم فرشتہ اور ابلیس کی حقیقت تم پر واضح ہو ہوجائے گی وہاں سے ملاحظہ فرمائیں۔ شیطان لینت کیوں ہوا ؟ رب کریم کی نافرمانی کے باعث۔ نافرمانی کی اور پھر ڈٹ گیا کہ میں نے جو کچھ کیا وہ بالکل صحیح کیا۔ گویا نافرمانی کو اس نے حق سمجھا یہی وجہ تھی کہ وہ لعنت کا مستحق ٹھہراجس سے اس با کا ظاہر کرنا مقصود ہے کہ غلطی کا ہوجانا اتنا جرم نہیں جتنا کہ غلطی کو غلطی تسلیم نہ کرنے کا جرم ہے اور پھر جب وہ غلطی اللہ کریم کے متعلق ہو تو اس غلطی کو غلطی تسلیم نہ کرنا شرک کا مرتکب ہونا ہے اور مشرک کا شرک پر قائم رہنا اللہ کی رحمت سے دوری کا باعث ہے اور یہی کچھ شیطان نے کیا کہ وہ مستحق لعنت قرار پا گیا۔ چناچہ ایک جگہ ارشا الٰہی ہوا ” اور تیرے اوپر یوم الجزاء تک میری لعنت ہے۔ وہ بولا اے میرے رب ! یہ بات ہے تو پھر مجھے اس وقت تک مہلت دے دے جب یہ لوگ دوبارہ اٹھائے جائیں گے۔ فرمایا اچھا تجھے اس روز تک کی مہلت ہے جس کا وقت مجھے معلوم ہے۔ “ (ص 38 : 78 ‘ 79) معلوم ہوا کہ اللہ وہ بےنیاز طاقت ہے جو اپنے مخالفین کی صدائیں بھی اسی طرح سنتا ہے جس طرح اپنے فرمانبردار بندوں کی۔ کیوں ؟ اس لئے کہ اس دنیوی زندگی میں یہ اس کا وعدہ ہے اور وہ کبھی اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔ آپ خود غور فرمائیں کہ شیطان سے بڑھ۔ کر اللہ تعالیٰ کا کوئی نافرمان ؟ پھر اس نافرمانی نے اللہ سے مہلت طلب کی اور مہلت اس کو دے دیگئی لیکن مشروط۔ وہ شرط کیا تھی ؟ فرمایا ” تجھے اس روز تک مہلت ہے جس کا وقت مجھ معلوم ہے۔ “ یعنی اس دنیا کے قائم رہنے تک۔ اللہ کو چھوڑ کر غیروں کو پکارنے والوں کو اس سے درس عبرت حاصل کرنا چاہئے ۔ کیا وہ شاطنن سے بھی گئے گزرے ہیں ؟ 194: مہلت مل جانے کے بعد وہ اللہ کے مقابلے میں اتر آیا۔ کیوں ؟ اس لئے کہ اس کو یقین تھا کہ اللہ ایسا نہیں جو اپنا کیا ہوا وعدہ منسوخ کر دے اس لئے اس نے اللہ کی مخالفت کا اعلان کردیا اور بڑے دھڑلے سے کہا کہ ” تیرے بندوں سے ایک مقررہ حصہ لے کر رہوں گا۔ اس ایک فقرہ سے شیطان کے بندوں کو سمجھ لینا چاہئے کہ شیطان شیطان ہونے کے باوجودجو سارے بندوں کو اللہ ہی کے بندے قرار دیتا ہے۔ لیکن کچھ بندے ایسے ہیں جو باوجود اللہ کے بندہ ہونے پھر غیروں کے بندے بننے کا شوق رکھتے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جو صرف غیروں کا بندہ ہی نہیں بلکہ غیروں کے ” کتے “ بننا پسند کرتے ہیں اور اس طرح وہ شیطان سے بھی بہت آگے نکل چکے ہی یعنی گر وایک ” چھیل ہے تو چیلے ڈھائی چھیل ہیں “ غور کرو کہ شیطان کا عزم و ارادہ کیا تھا ؟ یہی کہ ” میں تیرے بندوں سے ایک مقررہ حصہ لے کر رہوں گا۔ “ قرآن کریم اللہ کی کتاب ہے اس نے اس بات کی تصدیق فرمائی کہ کتنے لوگ ہیں کہ ان کے مقابلے میں ابلیس نے اپنا گمان صحیح پایا اور انہوں نے اس کی یعنی شیطان کی پیروی کی ، بجز ایک تھو ڑے سے گروہ کے جو مومن تھا۔ “ (سبا 34 : 20) شیطان کے مقررہ حصہ کے بندوں کے اوصاف ، تاکہ تم پہچان کرسکو : پھر شیطان کے اس مقررہ حصے کے لوگوں کے اوصاف بھی قرآن کریم نے جگہ جگہ بیان فرمادیئے تاکہ رحمن کے بندوں اور شیطان کے حصہ کے بندوں کا سب کو پتہ چل جائے اور وہ دور سے پہچان لئے جائیں کہ یہ رحمن کے بندے ہیں اور یہ شیطان کے حصے کے بندے۔ چناچہ ارشادالٰہی ہوا : ” اور دیکھو جو کچھ اللہ نے کھیتی اور مویشی میں پیدا کیا ہے اس میں سے ایک حصہ یہ اپنے زعم باطل کے مطابق اللہ کے لئے ٹھہراتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے لئے ہے اور ایک حصہ ان کے لئے ٹھہراتے ہیں جنہیں انہوں نے اللہ کا ساجھی بنارکھا ہے۔ پس جو کچھ ان کے ٹھہرائے ہوئے ساجھیوں کے لئے ہے وہ تو کسی صورت میں بھی اللہ کی طرف نہیں جاسکتا لیکن جو کچھ اللہ کے لئے ہے وہ ان کے ٹھہرائے ہوئے ساجھیوں کی طرف جاسکتا ہے ۔ کیا ہی برا فیصلہ ہے جو یہ لوگ کرتے ہیں ؟ اور دیکھواسی طرح بہت سے مشرک ہیں کہ ان کے ٹھہرائے ہوئے ساجھیوں نے ان کی نظروں میں قتل اور لاد جیسے وحشیانہ فعل کو بھی خوشنما کر دکھایا ہے تاکہ انہیں ہلاکت میں ڈالیں اور ان کے دین کی راہ ان پر مشتبہ کردیں۔ اے پیغمبر السلام ! اگر اللہ چاہتا تو یہ کام وہ نہ کرتے یعنی ان کی طاقت وہ سلب کرلیتا لیکن اس کی حکمت کا فیصلہ ان کو مجبور کر کردینا نہ تھا اس لئے اس نے ایسانہ کیا۔ پس آپ ﷺ بھی نہیں اور انکی افترا پر دازیوں کو ان کے حال پر چھوڑدو ، اس لئے کہ وہ آپ ﷺ کا کہا ماننے ولاے نہیں اور کہتے ہیں کہ یہ کھیت اور چارپائے ممنوع ہیں انہیں اس آدمی کے سوا کوئی نہیں کھا سکتا جسے ہم اپنے خیال کے مطابق کھلانا چاہیں یعنی جس خانقاہ اور بزرگ کی وہ منت ہے وہ وہیں جائے گی ، دوسرے کے لئے جائز نہیں اور اس طرح کچھ جانور ایسے بھی ہیں کہ ان پر اللہ کا نام نہیں لیتے بلکہ وہ کسی خاص بزرگ و پیر کے نام سے منسوب ہیں حالانکہ اس طرح اللہ پر افترا کر کے انہوں نے یہ طریقہ نکال لیا ہے سو جیسی کچھ یہ افتراء پردازیاں کرتے ہیں ، قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اس کی سزادے۔ “ (الانعام 6 : ی 136 ‘ 138) اپنے زمانہ کے لوگوں کی اکثریت کے راہ ورسم کا مطالعہ کرتے جائو اور قرآن کریم کی اس دی ہوئی ہدایت پر رکھ کر دیکھتے چلے جائو تمہیں ایک ایک بات کی سمجھ آجائے گی کہ یہ بندے خالصۃ اللہ کے ہیں اور وہ اللہ ہی کا رہنا پسند کرتے ہیں لیکن یہ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے بندے ہونے کے باوجود غیر اللہ کے بندے بن کر رہ گئے ہیں اور یہ وہی جو شیطان کے ” حصے کے لئے مقرر ہیں ۔ “ اور ان کو اللہ کے بندے بن کر رہنا کسی حال میں بھی گوارا نہیں۔ قرآن کریم نے ان کے اوصاف کی بڑی وضاحت فرمائی اور جگہ جگہ ان کا ذکر کر کے پوری وضاحت کے ساتھ ان کے اوصاف کو بیان کردیا فرمایا ” یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کے انعامات سے فائدہ حاصل کرنے کے باوجود حلال و حرام میں تمیز نہیں کرتے بلکہ یہ جانوروں کی طرح کھاتے ہیں جن کو اپنے اور پر ائے کی کوئی تمیز نہیں ہوتی۔ “ (محمد 47 : 12) ” یہ انسان کا ہے کے ہیں بلکہ وہ تو چارپائے نہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے ہیں۔ “ (الفرقان 25 : 44) یہ تو چارپایوں کی مانند ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے ہیں۔ کیوں ؟ اس لئے کہ وہ بالکل غافل ہوچکے ہیں۔ “ (الاعراف : 179) ” دنیا میں ہو چلنے پھرنے والوں میں برے ہیں اللہ کے نزدیک۔ کیوں ؟ اس لئے کہ وہ بہرے اور گونگے ہو کر رہ گئے ہیں اور عقل سے کم نہیں لیتے۔ “ (الانفال 8 : 55) ان لوگوں کی مثال ایسی ہے جیسے گدھا کہ اس پر کتابیں لادی جائیں تو سوائے ایک بوجھ کے وہ کیا محسوس کرے گا اور کیا فرق ہوگا اس کے لئے کتابوں اور پتھر میں یہ مثال ہے ان لوگوں کی جو اللہ کی آیات پر صحیح معنوں میں ایمان نہیں لاتے حالانکہ وہ ان آیات کو پڑھتے بھی ہیں۔ “ (الجمعہ 26 : 5) اس بحیرہ ، سائبہ وصیلہ اور حام کو اللہ نے نہیں ٹھہرایا اور نہ ہی کوئی اس طرح کا حکم دیا کہ تم ان کی نام اس طرح رکھ لو بلکہ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا ہے اور پھر اس جھوٹ سے باز آنے والے بھی نہیں۔ کیوں ؟ اس لئے وہ اس جھوٹ جھوٹ نہیں سمجھتے بلکہ اللہ کے ذمہ لگاتے ہیں کہ انہیں اللہ نے ایسا کرنے کا حکم دیا ہے اور یہ ان کی بےوقوفی کی کھلی نشانی ہے۔ “ (المائدہ 5 : 103)
Top