Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - At-Tawba : 25
لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ فِیْ مَوَاطِنَ كَثِیْرَةٍ١ۙ وَّ یَوْمَ حُنَیْنٍ١ۙ اِذْ اَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَیْئًا وَّ ضَاقَتْ عَلَیْكُمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّیْتُمْ مُّدْبِرِیْنَۚ
لَقَدْ
: البتہ
نَصَرَكُمُ
: تمہاری مدد کی
اللّٰهُ
: اللہ
فِيْ
: میں
مَوَاطِنَ
: میدان (جمع)
كَثِيْرَةٍ
: بہت سے
وَّ
: اور
يَوْمَ حُنَيْنٍ
: حنین کے دن
اِذْ
: جب
اَعْجَبَتْكُمْ
: تم خوش ہوئے (اترا گئے
كَثْرَتُكُمْ
: اپنی کثرت
فَلَمْ تُغْنِ
: تو نہ فائدہ دیا
عَنْكُمْ
: تمہیں
شَيْئًا
: کچھ
وَّضَاقَتْ
: اور تنگ ہوگئی
عَلَيْكُمُ
: تم پر
الْاَرْضُ
: زمین
بِمَا رَحُبَتْ
: فراخی کے باوجود
ثُمَّ
: پھر
وَلَّيْتُمْ
: تم پھرگئے
مُّدْبِرِيْنَ
: پیٹھ دے کر
مدد کرچکا ہے اللہ تمہاری بہت میدانوں میں اور حنین کے دن، جب خوش ہوئے تم اپنی کثرت پر پھر وہ کچھ کام نہ آئی تمہارے اور تنگ ہوگئی تم پر زمین باوجود اپنی فراخی کے پھر ہٹ گئے تم پیٹھ دے کر،
خلاصہ تفسیر
تم کو خدا تعالیٰ نے (لڑائی کے) بہت موقعوں میں (کفار پر) غلبہ دیا (جیسے بدر وغیرہ) اور حنین کے دن بھی (جس کا قصہ عجیب و غریب ہے تم کو غلبہ دیا) جبکہ (یہ واقعہ ہوا تھا کہ) تم کو اپنے مجمع کی کثرت سے غرہ ہوگیا تھا، پھر وہ کثرت تمہارے کچھ کارآمد نہ ہوئی اور (کفار کے تیر برسانے سے ایسی پریشانی ہوئی کہ) تم پر زمین باوجود اپنی (اس) فراخی کے تنگی کرنے لگی پھر (آخر) تم) بیٹھ دے کر بھاگ کھڑے ہوئے اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (کے قلب) پر اور دوسرے مومنین (کے قلوب) پر اپنی (طرف سے) تسلی نازل فرمائی، اور (مدد کے لئے) ایسے لشکر (آسمان سے) نازل فرمائے جن کو تم نے نہیں دیکھا (مراد فرشتے ہیں جس کے بعد تم پھر مستعد قتال ہوئے اور غالب آئے) اور (اللہ تعالیٰ نے) کافروں کو سزا دی (کہ ان پر ہزیمت اور قتل و قید واقع ہوئی) اور یہ کافروں کی (دنیا میں) سزا ہے، پھر اللہ تعالیٰ (ان کافروں میں سے) جسکو چاہیں توبہ نصیب کردیں (چنانچہ بہت سے مسلمان ہوگئے) اور اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت کرنے والے بڑی رحمت کرنیوالے ہیں، (کہ جو شخص ان میں مسلمان ہو اس کے سب پچھلے گناہ معاف کرکے مستحق جنت کا بنادیا)۔
معارف و مسائل
آیات مذکورہ میں غزوہ حنین کے واقعات شکست و فتح کا اور ان کے ضمن میں بہت سے اصولی اور فروعی مسائل اور فوائد کا بیان ہے، جیسا کہ اس سے پہلی سورت میں فتح مکہ اور اس کے متعلقات کا ذکر تھا، شروع آیت میں حق تعالیٰ نے اپنے اس انعام و احسان کا ذکر فرمایا ہے، جو مسلمانوں پر ہر موقع اور ہر حالت میں مبذول رہا ہے، ارشاد فرمایا
(آیت) لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ فِيْ مَوَاطِنَ كَثِيْرَةٍ ، یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہاری مدد فرمائی بہت سے مقامات میں“ اور اس تمہید کے بعد خصوصیت کے ساتھ فرمایا وَّيَوْمَ حُنَيْنٍ ”یعنی غزوہ حنین کے دن بھی اللہ تعالیٰ کی مدد پہنچی“
غزوہ حنین کی خصوصیت اس وجہ سے فرمائی ہے کہ اس میں بہت سے واقعات اور حالات خلاف توقع عجیب انداز سے ظاہر ہوئے جن میں غور کرنے سے انسان کے ایمان میں قوت اور عمل میں ہمت پیدا ہوتی ہے، اس لئے آیات مذکورہ کی لفظی تفسیر سے پہلے اس غزوہ کے ضروری واقعات جو حدیث و تاریخ کی مستند کتابوں میں مذکورہ ہیں کسی قدر تفصیل سے بیان کردینا مناسب ہے تاکہ آیات مذکورہ کے سمجھنے میں آسانی ہو اور جن فوائد کے لئے یہ واقعات بیان فرمائے گئے ہیں وہ سامنے آجائیں، ان واقعات کا بیشتر حصہ تفسیر مظہری سے لیا گیا ہے، جس میں بحوالہ کتب حدیث و تاریخ واقعات کا ذکر ہے۔
حنین، مکہ مکرمہ اور طائف کے درمیان ایک مقام کا نام ہے، جو مکہ مکرمہ سے دس میل سے کچھ زیادہ فاصلہ پر واقع ہے، رمضان 8 ہجری میں جب مکہ مکرمہ فتح ہوا اور قریش مکہ نے رسول کریم ﷺ کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے، تو عرب کا ایک بہت بڑا مشہور بہادر جنگجو اور مالدار قبیلہ ہوازن جس کی ایک شاخ طائف کے رہنے والے بنو ثقیف بھی تھے، ان میں ہلچل مچ گئی، انہوں نے جمع ہو کر یہ کہنا شروع کیا کہ مکہ فتح ہوجانے کے بعد مسلمانوں کو کافی قوت حاصل ہوگئی ہے، اس سے فارغ ہونے کے بعد لازمی ہے کہ ان کا رخ ہماری طرف ہوگا، اس لئے دانشمندی کی بات یہ ہے کہ ان کے حملہ آور ہونے سے پہلے ہم خود ان پر حملہ کردیں، اس کام کے لئے قبیلہ ہوازن نے اپنی سب شاخوں کو جو مکہ سے طائف تک پھیلی ہوئی تھیں جمع کرلیا، اس قبیلہ کے سب بڑے چھوٹے بجز معدودے چند افراد کے جن کی تعداسو (100) سے بھی کم تھی، سب ہی جمع ہوگئے۔
اس تحریک کے لیڈر مالک بن عوف تھے جو بعد میں مسلمان ہوگئے اور اسلام کے بڑے علمبردار ثابت نے ان کی رائے سے اتفاق کر کے جنگ کی تیاریاں شروع کردیں، اس قبیلہ کی چھوٹی چھوٹی دو شاخیں بنو کعب اور بنو کلاب اس رائے سے متفق نہیں ہوئی، اللہ تعالیٰ نے ان کو کچھ بصیرت دے دیتھی، انہوں نے کہا کہ اگر مشرق سے مغرب تک ساری دنیا بھی محمد ﷺ کے خلاف جمع ہوجائے گی تو وہ ان سب پر بھی غالب آئیں گے، ہم خدائی طاقت کے ساتھ جنگ نہیں کرسکتے، باقی سب کے سب نے معاہدے کئے اور مالک بن عوف نے ان سب کو پوری قوت سے جنگ پر قائم رہنے کی ایک تدبیر یہ کی کہ ہر شخص کے تمام اہل و عیال بھی ساتھ چلیں اور اپنا اپنا پورا مال بھی ساتھ لے کر نکلیں، جس کا مقصد یہ تھا کہ وہ میدان سے بھاگنے لگیں تو بیوی بچوں اور مال کی محبت ان کے پاؤں کی زنجیر بن جائے، میدان سے گریز کا ان کے لئے کوئی موقع نہ رہے ان کی تعداد کے بارے میں اہل تاریخ کے مختلف اقوال ہیں۔ حافظ حدیث علامہ ابن حجر وغیرہ نے راجح اس کو قرار دیا ہے کہ چوبیس یا اٹھائیس ہزار کا مجمع تھا، اور بعض حضرات نے چار ہزار کی تعداد بیان کی ہے، یہ ممکن ہے کہ سب اہل و عیال عورتوں بچوں سمیت تعداد چوبیس یا اٹھائیس ہزار ہو اور لڑنے والے جوان ان میں چار ہزار ہوں۔
بہرحال رسول کریم ﷺ کو مکہ مکرمہ میں ان کے خطرناک عزائم کی اطلاع ملی تو آپ نے ان کے مقابلہ پر جانے کا عزم فرما لیا، مکہ مکرمہ پر حضرت عتاب بن اسید کو امیر بنایا، اور حضرت معاذ بن جبل کو ان کے ساتھ لوگوں کو اسلامی تعلیمات سکھانے کے لئے چھوڑا، اور قریش مکہ سے اسلحہ اور سامان جنگ عاریت کے طور پر مانگا، صفوان بن امیہ جو قریش کا سردار تھا بول اٹھا کہ کیا آپ یہ سامان جنگ ہم سے غصب کرکے لینا چاہتے ہیں، رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ عاریت کے طور پر لیتے ہیں، جس کی واپسی ہمارے ذمہ ہوگی، یہ سن کر اس نے سو زرہیں مستعار دیں اور نوفل بن حارث نے تین ہزار نیزے اسی طرح پیش کردیئے۔ امام زہری کی روایت کے مطابق آنحضرت ﷺ چودہ ہزار صحابہ کا لشکر لے کر اس جہاد کی طرف متوجہ ہوئے جن میں بارہ ہزار انصار مد ینہ تھے، جو فتح مکہ کے لئے آپ کے ساتھ آئے تھے اور دو ہزار وہ مسلمان تھے جو مکہ اور اطراف مکہ کے لوگوں میں سے بوقت فتح مسلمان ہوگئے تھے جن کو طلقاء کہا جاتا ہے، شوال کی چھٹی تاریخ ہفتہ کے دن آپ اس غزوہ کے لئے نکلے اور فرمایا کہ کل انشاء اللہ ہمارا قیام خیف بنی کنانہ کے اس مقام پر ہوگا جہاں جمع ہو کر قریش مکہ نے مسلمانوں کے خلاف مقاطعہ کے لئے عہد نامہ لکھا تھا۔
یہ چودہ ہزار مجاہدین کا لشکر تو جہاد کے لئے نکلا ان کے ساتھ مکہ کے بیشمار لوگ مرد و عورت تماشائی بن کر نکلے، جن کے دلوں میں عموماً یہ تھا کہ اگر اس موقع پر مسلمانوں کو شکست ہو تو ہمیں بھی اپنا انتقام لینے کا موقع ملے گا، اور یہ کامیاب ہوں تو بھی ہمارا کوئی نقصان نہیں۔
اسی قسم کے لوگوں میں ایک شیبہ بن عثمان بھی تھے، جنہوں نے بعد میں مسلمان ہو کر خود اپنا واقعہ بیان کیا کہ غزوہ بدر میں میرا باپ حضرت حمزہ کے ہاتھ سے اور چچا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ہاتھ سے مارا گیا تھا جس کا جوش انتقام اور انتہائی غیظ میرے دل میں تھا، میں اس موقع کو غنیمت جان کر مسلمانوں کے ساتھ ہولیا کہ جب کہیں موقع پاؤں رسول کریم ﷺ پر حملہ کردوں، میں ان کے ساتھ ہو کر ہر وقت موقع کی تلاش میں رہا، یہاں تک کہ اس جہاد کے ابتدائی وقت میں جب کچھ مسلمانوں کے پاؤں اکھڑے اور وہ بھاگنے لگے تو میں موقع پاکر حضور کے قریب پہو نچا، مگر دیکھا کہ داہنی طرف حضرت عباس آپ کی حفاظت کر رہے ہیں اور بائیں طرف ابو سفیان ابن حارث، اس لئے میں پیچھے کی طرف پہنچ کر ارادہ ہی کررہا تھا کہ یکبارگی تلوار سے آپ پر حملہ کردوں کہ یکایک آپ کی نظر مجھ پر پڑی اور آپ نے مجھے آواز دی کہ شیبہ یہاں آؤ، اپنے قریب بلا کر دست مبارک میرے سینہ پر رکھ دیا، اور دعا کی یا اللہ اس سے شیطان کو دور کردے، اب جو میں نظر اٹھاتا ہوں تو آنحضرت ﷺ میرے دل میں اپنے آنکھ کان اور جان سے بھی زیادہ محبوب ہوجاتے ہیں، آنحضرت ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ جاؤ کفار کا مقابلہ کرو، اب میرا یہ حال تھا کہ میں اپنی جان آپ پر قربان کر رہا تھا اور بڑی بےجگری کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کیا جب آنحضرت ﷺ اس جہاد سے واپس آئے تو میں خدمت میں حاضر ہوا، آپ نے میرے دل کے تمام خیالات کی نشاندی کردی کہ تم مکہ سے اس نیت پر چلے تھے اور میرے گرد میرے قتل کے لئے گھوم رہے تھے، مگر اللہ تعالیٰ کا ارادہ تم سے نیک کام لینے کا تھا جو ہو کر رہا۔
اسی طرح کا واقعہ نضر بن حارث کو پیش آیا کہ وہ بھی اسی نیت سے حنین گئے تھے، وہاں پہنچ کر اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں رسول کریم ﷺ کی معصومیت اور محبت ڈال دی اور ایک مرد مجاہد بن کر دشمنوں کی صفوں سے ٹکرا گئے۔
اس سفر میں ابو بردہ بن نیار کو یہ واقعہ پیش آیا کہ مقام اوطاس پر پہنچ کر دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ ایک درخت کے نیچے تشریف رکھتے ہیں اور ایک اور شخص آپ کے پاس بیٹھا ہے آپ نے ذکر فرمایا کہ میں سوگیا تھا، یہ شخص آیا اور میری تلوار اپنے قبضہ میں لے کر میرے سر پر کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا کہ اے محمد ! اب بتلاؤ تمہیں کون میرے ہاتھ سے بچا سکتا ہے ؟ میں نے جواب دیا کہ اللہ بچا سکتا ہے، یہ سن کر تلوار اس کے ہاتھ سے گرگئی، ابو بردہ نے عرض کیا یا رسول اللہ اجازت دیجئے کہ میں اس دشمن خدا کی گردن مار دوں، یہ دشمن قوم کا جاسوس معلوم ہوتا ہے، آنحضرت ﷺ نے فرمایا ابو بردہ خاموش رہو اللہ تعالیٰ میری حفاظت کرنے والا ہے جب تک کہ میرا دین سارے دینوں پر غالب نہ آجائے، اور آپ نے اس شخص کو کوئی ملامت بھی نہ فرمائی اور آزاد چھوڑ دیا۔
مقام حنین پر پہنچ کر مسلمانوں نے پڑاؤ ڈالا تو حضرت سہیل بن حنظلہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں یہ خبر لے کر حاضر ہوئے کہ گھوڑے سوار آدمی ابھی دشمن کی طرف سے آیا ہے وہ بتلا رہا ہے کہ قبیلہ ہوازن پورا کا پورا مع اپنے سب سامان کے مقابلہ پر آگیا ہے، آنحضرت ﷺ نے یہ سن کر تبسم فرمایا اور کہا کہ پروا نہ کر یہ سارا سامان مسلمانوں کے لئے مال غنیمت بن کر ہاتھ آئے گا۔
اس جگہ ٹھہر کر آنحضرت ﷺ نے حضرت عبداللہ بن حداد کو جاسوس بنا کر بھیجا کہ دشمن کے حالات کا پتہ چلائیں، وہ ان کی قوم میں جا کردو دن رہے، سب حالات دیکھتے سنتے رہے، ان کے لیڈر اور کمانڈر مالک بن عوف کو دیکھا کہ وہ اپنے لوگوں سے کہہ رہا ہے کہ محمد کو اب تک کسی بہادر تجربہ کار قوم سے سابقہ نہیں پڑا، مکہ کے بھولے بھالے قریشیوں کا مقابلہ کرکے انھیں اپنی طاقت کا زعم ہوگیا، اب ان کو پتہ لگے گا، تم سب لوگ صبح ہوتے ہی اس طرح صف بندی کرو کہ ہر ایک کے پیچھے اس کے بیوی بچے اور مال ہو اور اپنی تلواروں کی میانوں کو توڑ ڈالو اور سب مل کر یکبارگی ہلہ بولو، یہ لوگ جنگ کے بڑے تجربہ کار تھے، اپنی فوج کے چند دستوں کو مختلف گھاٹیوں میں چھپا دیا تھا۔
اس طرح کفار کے لشکر کی یہ تیاریاں تھیں، دوسری طرف مسلمانوں کا یہ پہلا جہاد تھا، جس میں چودہ ہزار سپاہی مقابلہ کے لئے نکلے تھے اور سامان جنگ بھی ہمیشہ سے زیادہ تھا اور یہ لوگ بدر و احد کے میدانوں میں یہ دیکھ چکے تھے کہ صرف تین سو تیرہ بےسامان لوگوں نے ایک ہزار کے لشکر جرار پر فتح پائی، تو آج اپنی کثرت اور تیاری پر نظر کرکے حاکم اور بزار کی روایت کے مطابق ان میں سے بعض کی زبان سے ایسے کلمات نکل گئے کہ آج تو یہ ممکن نہیں کہ ہم کسی سے مغلوب ہوجائیں آج تو مقابلہ کی دیر ہے کہ دشمن فورًا بھاگے گا۔
مالک الملک و الملکوت کو یہی چیز ناپسند تھی کہ اپنی طاقت پر کوئی بھروسہ کیا جائے، چناچہ مسلمانوں کو اس کا سبق اس طرح ملا کہ جب قبیلہ ہوازن نے قرارداد کے مطابق یکبارگی ہلہ بولا اور گھاٹیوں میں چھپے ہوئے دستوں نے چار طرف سے گھیرا ڈال دیا، گرد و غبار نے دن کو رات بنادیا تو صحابہ کرام کے پاؤں اکھڑ گئے اور بھاگنے لگے، صرف رسول کریم ﷺ اپنی سواری پر سوار پیچھے ہٹنے کے بجائے آگے بڑھ رہے تھے، اور بہت تھوڑے سے صحابہ کرام جن کی تعداد تین سو اور بعض نے ایک سو یا اس سے بھی کم بتلائی ہے آنحضرت ﷺ کے ساتھ جمے رہے، وہ بھی یہ چاہتے تھے کہ آپ آگے نہ بڑھیں۔
یہ حالت دیکھ کر آپ نے حضرت عباس کو حکم دیا کہ بلند آواز سے صحابہ کو پکارو کہ وہ لوگ کہاں ہیں جنہوں نے شجرہ کے نیچے جہاد کی بیعت کی تھی، اور سورة بقرہ والے حضرات کہاں ہیں، اور وہ انصار کہاں ہیں جنہوں نے جان کی بازی لگانے کا عہد کیا تھا، سب کو چاہئے کہ واپس آئیں، اور رسول اللہ ﷺ یہاں ہیں۔
حضرت عباس کی ایک آواز بجلی کی طرح دوڑ گئی، اور یکایک سب بھاگنے والوں کو پشیمانی ہوئی، اور بڑی دلیری کے ساتھ لوٹ کر دشمن کا پورا مقابلہ کیا، اسی حالت میں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی مدد بھیج دی، ان کا کمانڈر مالک بن عوف اپنے اہل و عیال اور سب مال کو چھوڑ کر بھاگا اور طائف کے قلعہ میں جا چھپا، اور پھر باقی پوری قوم بھاگ کھڑی ہوئی، ان کے ستر سردار مارے گئے، بعض مسلمانوں کے ہاتھ سے کچھ بچے زخمی ہوگئے تو رسول اللہ ﷺ نے سختی سے منع فرمایا، ان کا سب مال مسلمانوں کے قبضہ میں آیا، چھ ہزار جنگی قیدی چوبیس ہزار اونٹ، چالیس ہزار بکریاں چار ہزار اوقیہ چاندی ہاتھ آئی۔
پہلی اور دوسری آیت میں اسی مضمون کا بیان ہے، ارشاد فرمایا کہ جب تم کو اپنے مجمع کی کثرت سے غرہ ہوگیا تھا پھر وہ کثرت تمہارے کچھ کارآمد نہ ہوئی اور زمین باوجود فراخی کے تم پر تنگ ہوگئی، پھر تم پیٹھ دے کر بھاگ کھڑے ہوئے، پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی تسلی نازل فرمائی اپنے رسول پر اور مسلمانوں پر اور ایسے لشکر فرشتوں کے نازل کردیئے، جن کو تم نے نہیں دیکھا اور کافروں کو تمہارے ہاتھ سے سزا دلوا دی۔
Top