Maarif-ul-Quran - At-Tawba : 25
لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ فِیْ مَوَاطِنَ كَثِیْرَةٍ١ۙ وَّ یَوْمَ حُنَیْنٍ١ۙ اِذْ اَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَیْئًا وَّ ضَاقَتْ عَلَیْكُمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّیْتُمْ مُّدْبِرِیْنَۚ
لَقَدْ : البتہ نَصَرَكُمُ : تمہاری مدد کی اللّٰهُ : اللہ فِيْ : میں مَوَاطِنَ : میدان (جمع) كَثِيْرَةٍ : بہت سے وَّ : اور يَوْمَ حُنَيْنٍ : حنین کے دن اِذْ : جب اَعْجَبَتْكُمْ : تم خوش ہوئے (اترا گئے كَثْرَتُكُمْ : اپنی کثرت فَلَمْ تُغْنِ : تو نہ فائدہ دیا عَنْكُمْ : تمہیں شَيْئًا : کچھ وَّضَاقَتْ : اور تنگ ہوگئی عَلَيْكُمُ : تم پر الْاَرْضُ : زمین بِمَا رَحُبَتْ : فراخی کے باوجود ثُمَّ : پھر وَلَّيْتُمْ : تم پھرگئے مُّدْبِرِيْنَ : پیٹھ دے کر
مدد کرچکا ہے اللہ تمہاری بہت میدانوں میں اور حنین کے دن، جب خوش ہوئے تم اپنی کثرت پر پھر وہ کچھ کام نہ آئی تمہارے اور تنگ ہوگئی تم پر زمین باوجود اپنی فراخی کے پھر ہٹ گئے تم پیٹھ دے کر،
خلاصہ تفسیر
تم کو خدا تعالیٰ نے (لڑائی کے) بہت موقعوں میں (کفار پر) غلبہ دیا (جیسے بدر وغیرہ) اور حنین کے دن بھی (جس کا قصہ عجیب و غریب ہے تم کو غلبہ دیا) جبکہ (یہ واقعہ ہوا تھا کہ) تم کو اپنے مجمع کی کثرت سے غرہ ہوگیا تھا، پھر وہ کثرت تمہارے کچھ کارآمد نہ ہوئی اور (کفار کے تیر برسانے سے ایسی پریشانی ہوئی کہ) تم پر زمین باوجود اپنی (اس) فراخی کے تنگی کرنے لگی پھر (آخر) تم) بیٹھ دے کر بھاگ کھڑے ہوئے اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (کے قلب) پر اور دوسرے مومنین (کے قلوب) پر اپنی (طرف سے) تسلی نازل فرمائی، اور (مدد کے لئے) ایسے لشکر (آسمان سے) نازل فرمائے جن کو تم نے نہیں دیکھا (مراد فرشتے ہیں جس کے بعد تم پھر مستعد قتال ہوئے اور غالب آئے) اور (اللہ تعالیٰ نے) کافروں کو سزا دی (کہ ان پر ہزیمت اور قتل و قید واقع ہوئی) اور یہ کافروں کی (دنیا میں) سزا ہے، پھر اللہ تعالیٰ (ان کافروں میں سے) جسکو چاہیں توبہ نصیب کردیں (چنانچہ بہت سے مسلمان ہوگئے) اور اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت کرنے والے بڑی رحمت کرنیوالے ہیں، (کہ جو شخص ان میں مسلمان ہو اس کے سب پچھلے گناہ معاف کرکے مستحق جنت کا بنادیا)۔

معارف و مسائل
آیات مذکورہ میں غزوہ حنین کے واقعات شکست و فتح کا اور ان کے ضمن میں بہت سے اصولی اور فروعی مسائل اور فوائد کا بیان ہے، جیسا کہ اس سے پہلی سورت میں فتح مکہ اور اس کے متعلقات کا ذکر تھا، شروع آیت میں حق تعالیٰ نے اپنے اس انعام و احسان کا ذکر فرمایا ہے، جو مسلمانوں پر ہر موقع اور ہر حالت میں مبذول رہا ہے، ارشاد فرمایا
(آیت) لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ فِيْ مَوَاطِنَ كَثِيْرَةٍ ، یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہاری مدد فرمائی بہت سے مقامات میں“ اور اس تمہید کے بعد خصوصیت کے ساتھ فرمایا وَّيَوْمَ حُنَيْنٍ ”یعنی غزوہ حنین کے دن بھی اللہ تعالیٰ کی مدد پہنچی“
غزوہ حنین کی خصوصیت اس وجہ سے فرمائی ہے کہ اس میں بہت سے واقعات اور حالات خلاف توقع عجیب انداز سے ظاہر ہوئے جن میں غور کرنے سے انسان کے ایمان میں قوت اور عمل میں ہمت پیدا ہوتی ہے، اس لئے آیات مذکورہ کی لفظی تفسیر سے پہلے اس غزوہ کے ضروری واقعات جو حدیث و تاریخ کی مستند کتابوں میں مذکورہ ہیں کسی قدر تفصیل سے بیان کردینا مناسب ہے تاکہ آیات مذکورہ کے سمجھنے میں آسانی ہو اور جن فوائد کے لئے یہ واقعات بیان فرمائے گئے ہیں وہ سامنے آجائیں، ان واقعات کا بیشتر حصہ تفسیر مظہری سے لیا گیا ہے، جس میں بحوالہ کتب حدیث و تاریخ واقعات کا ذکر ہے۔
حنین، مکہ مکرمہ اور طائف کے درمیان ایک مقام کا نام ہے، جو مکہ مکرمہ سے دس میل سے کچھ زیادہ فاصلہ پر واقع ہے، رمضان 8 ہجری میں جب مکہ مکرمہ فتح ہوا اور قریش مکہ نے رسول کریم ﷺ کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے، تو عرب کا ایک بہت بڑا مشہور بہادر جنگجو اور مالدار قبیلہ ہوازن جس کی ایک شاخ طائف کے رہنے والے بنو ثقیف بھی تھے، ان میں ہلچل مچ گئی، انہوں نے جمع ہو کر یہ کہنا شروع کیا کہ مکہ فتح ہوجانے کے بعد مسلمانوں کو کافی قوت حاصل ہوگئی ہے، اس سے فارغ ہونے کے بعد لازمی ہے کہ ان کا رخ ہماری طرف ہوگا، اس لئے دانشمندی کی بات یہ ہے کہ ان کے حملہ آور ہونے سے پہلے ہم خود ان پر حملہ کردیں، اس کام کے لئے قبیلہ ہوازن نے اپنی سب شاخوں کو جو مکہ سے طائف تک پھیلی ہوئی تھیں جمع کرلیا، اس قبیلہ کے سب بڑے چھوٹے بجز معدودے چند افراد کے جن کی تعداسو (100) سے بھی کم تھی، سب ہی جمع ہوگئے۔
اس تحریک کے لیڈر مالک بن عوف تھے جو بعد میں مسلمان ہوگئے اور اسلام کے بڑے علمبردار ثابت نے ان کی رائے سے اتفاق کر کے جنگ کی تیاریاں شروع کردیں، اس قبیلہ کی چھوٹی چھوٹی دو شاخیں بنو کعب اور بنو کلاب اس رائے سے متفق نہیں ہوئی، اللہ تعالیٰ نے ان کو کچھ بصیرت دے دیتھی، انہوں نے کہا کہ اگر مشرق سے مغرب تک ساری دنیا بھی محمد ﷺ کے خلاف جمع ہوجائے گی تو وہ ان سب پر بھی غالب آئیں گے، ہم خدائی طاقت کے ساتھ جنگ نہیں کرسکتے، باقی سب کے سب نے معاہدے کئے اور مالک بن عوف نے ان سب کو پوری قوت سے جنگ پر قائم رہنے کی ایک تدبیر یہ کی کہ ہر شخص کے تمام اہل و عیال بھی ساتھ چلیں اور اپنا اپنا پورا مال بھی ساتھ لے کر نکلیں، جس کا مقصد یہ تھا کہ وہ میدان سے بھاگنے لگیں تو بیوی بچوں اور مال کی محبت ان کے پاؤں کی زنجیر بن جائے، میدان سے گریز کا ان کے لئے کوئی موقع نہ رہے ان کی تعداد کے بارے میں اہل تاریخ کے مختلف اقوال ہیں۔ حافظ حدیث علامہ ابن حجر وغیرہ نے راجح اس کو قرار دیا ہے کہ چوبیس یا اٹھائیس ہزار کا مجمع تھا، اور بعض حضرات نے چار ہزار کی تعداد بیان کی ہے، یہ ممکن ہے کہ سب اہل و عیال عورتوں بچوں سمیت تعداد چوبیس یا اٹھائیس ہزار ہو اور لڑنے والے جوان ان میں چار ہزار ہوں۔
بہرحال رسول کریم ﷺ کو مکہ مکرمہ میں ان کے خطرناک عزائم کی اطلاع ملی تو آپ نے ان کے مقابلہ پر جانے کا عزم فرما لیا، مکہ مکرمہ پر حضرت عتاب بن اسید کو امیر بنایا، اور حضرت معاذ بن جبل کو ان کے ساتھ لوگوں کو اسلامی تعلیمات سکھانے کے لئے چھوڑا، اور قریش مکہ سے اسلحہ اور سامان جنگ عاریت کے طور پر مانگا، صفوان بن امیہ جو قریش کا سردار تھا بول اٹھا کہ کیا آپ یہ سامان جنگ ہم سے غصب کرکے لینا چاہتے ہیں، رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ عاریت کے طور پر لیتے ہیں، جس کی واپسی ہمارے ذمہ ہوگی، یہ سن کر اس نے سو زرہیں مستعار دیں اور نوفل بن حارث نے تین ہزار نیزے اسی طرح پیش کردیئے۔ امام زہری کی روایت کے مطابق آنحضرت ﷺ چودہ ہزار صحابہ کا لشکر لے کر اس جہاد کی طرف متوجہ ہوئے جن میں بارہ ہزار انصار مد ینہ تھے، جو فتح مکہ کے لئے آپ کے ساتھ آئے تھے اور دو ہزار وہ مسلمان تھے جو مکہ اور اطراف مکہ کے لوگوں میں سے بوقت فتح مسلمان ہوگئے تھے جن کو طلقاء کہا جاتا ہے، شوال کی چھٹی تاریخ ہفتہ کے دن آپ اس غزوہ کے لئے نکلے اور فرمایا کہ کل انشاء اللہ ہمارا قیام خیف بنی کنانہ کے اس مقام پر ہوگا جہاں جمع ہو کر قریش مکہ نے مسلمانوں کے خلاف مقاطعہ کے لئے عہد نامہ لکھا تھا۔
یہ چودہ ہزار مجاہدین کا لشکر تو جہاد کے لئے نکلا ان کے ساتھ مکہ کے بیشمار لوگ مرد و عورت تماشائی بن کر نکلے، جن کے دلوں میں عموماً یہ تھا کہ اگر اس موقع پر مسلمانوں کو شکست ہو تو ہمیں بھی اپنا انتقام لینے کا موقع ملے گا، اور یہ کامیاب ہوں تو بھی ہمارا کوئی نقصان نہیں۔
اسی قسم کے لوگوں میں ایک شیبہ بن عثمان بھی تھے، جنہوں نے بعد میں مسلمان ہو کر خود اپنا واقعہ بیان کیا کہ غزوہ بدر میں میرا باپ حضرت حمزہ کے ہاتھ سے اور چچا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ہاتھ سے مارا گیا تھا جس کا جوش انتقام اور انتہائی غیظ میرے دل میں تھا، میں اس موقع کو غنیمت جان کر مسلمانوں کے ساتھ ہولیا کہ جب کہیں موقع پاؤں رسول کریم ﷺ پر حملہ کردوں، میں ان کے ساتھ ہو کر ہر وقت موقع کی تلاش میں رہا، یہاں تک کہ اس جہاد کے ابتدائی وقت میں جب کچھ مسلمانوں کے پاؤں اکھڑے اور وہ بھاگنے لگے تو میں موقع پاکر حضور کے قریب پہو نچا، مگر دیکھا کہ داہنی طرف حضرت عباس آپ کی حفاظت کر رہے ہیں اور بائیں طرف ابو سفیان ابن حارث، اس لئے میں پیچھے کی طرف پہنچ کر ارادہ ہی کررہا تھا کہ یکبارگی تلوار سے آپ پر حملہ کردوں کہ یکایک آپ کی نظر مجھ پر پڑی اور آپ نے مجھے آواز دی کہ شیبہ یہاں آؤ، اپنے قریب بلا کر دست مبارک میرے سینہ پر رکھ دیا، اور دعا کی یا اللہ اس سے شیطان کو دور کردے، اب جو میں نظر اٹھاتا ہوں تو آنحضرت ﷺ میرے دل میں اپنے آنکھ کان اور جان سے بھی زیادہ محبوب ہوجاتے ہیں، آنحضرت ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ جاؤ کفار کا مقابلہ کرو، اب میرا یہ حال تھا کہ میں اپنی جان آپ پر قربان کر رہا تھا اور بڑی بےجگری کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کیا جب آنحضرت ﷺ اس جہاد سے واپس آئے تو میں خدمت میں حاضر ہوا، آپ نے میرے دل کے تمام خیالات کی نشاندی کردی کہ تم مکہ سے اس نیت پر چلے تھے اور میرے گرد میرے قتل کے لئے گھوم رہے تھے، مگر اللہ تعالیٰ کا ارادہ تم سے نیک کام لینے کا تھا جو ہو کر رہا۔
اسی طرح کا واقعہ نضر بن حارث کو پیش آیا کہ وہ بھی اسی نیت سے حنین گئے تھے، وہاں پہنچ کر اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں رسول کریم ﷺ کی معصومیت اور محبت ڈال دی اور ایک مرد مجاہد بن کر دشمنوں کی صفوں سے ٹکرا گئے۔
اس سفر میں ابو بردہ بن نیار کو یہ واقعہ پیش آیا کہ مقام اوطاس پر پہنچ کر دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ ایک درخت کے نیچے تشریف رکھتے ہیں اور ایک اور شخص آپ کے پاس بیٹھا ہے آپ نے ذکر فرمایا کہ میں سوگیا تھا، یہ شخص آیا اور میری تلوار اپنے قبضہ میں لے کر میرے سر پر کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا کہ اے محمد ! اب بتلاؤ تمہیں کون میرے ہاتھ سے بچا سکتا ہے ؟ میں نے جواب دیا کہ اللہ بچا سکتا ہے، یہ سن کر تلوار اس کے ہاتھ سے گرگئی، ابو بردہ نے عرض کیا یا رسول اللہ اجازت دیجئے کہ میں اس دشمن خدا کی گردن مار دوں، یہ دشمن قوم کا جاسوس معلوم ہوتا ہے، آنحضرت ﷺ نے فرمایا ابو بردہ خاموش رہو اللہ تعالیٰ میری حفاظت کرنے والا ہے جب تک کہ میرا دین سارے دینوں پر غالب نہ آجائے، اور آپ نے اس شخص کو کوئی ملامت بھی نہ فرمائی اور آزاد چھوڑ دیا۔
مقام حنین پر پہنچ کر مسلمانوں نے پڑاؤ ڈالا تو حضرت سہیل بن حنظلہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں یہ خبر لے کر حاضر ہوئے کہ گھوڑے سوار آدمی ابھی دشمن کی طرف سے آیا ہے وہ بتلا رہا ہے کہ قبیلہ ہوازن پورا کا پورا مع اپنے سب سامان کے مقابلہ پر آگیا ہے، آنحضرت ﷺ نے یہ سن کر تبسم فرمایا اور کہا کہ پروا نہ کر یہ سارا سامان مسلمانوں کے لئے مال غنیمت بن کر ہاتھ آئے گا۔
اس جگہ ٹھہر کر آنحضرت ﷺ نے حضرت عبداللہ بن حداد کو جاسوس بنا کر بھیجا کہ دشمن کے حالات کا پتہ چلائیں، وہ ان کی قوم میں جا کردو دن رہے، سب حالات دیکھتے سنتے رہے، ان کے لیڈر اور کمانڈر مالک بن عوف کو دیکھا کہ وہ اپنے لوگوں سے کہہ رہا ہے کہ محمد کو اب تک کسی بہادر تجربہ کار قوم سے سابقہ نہیں پڑا، مکہ کے بھولے بھالے قریشیوں کا مقابلہ کرکے انھیں اپنی طاقت کا زعم ہوگیا، اب ان کو پتہ لگے گا، تم سب لوگ صبح ہوتے ہی اس طرح صف بندی کرو کہ ہر ایک کے پیچھے اس کے بیوی بچے اور مال ہو اور اپنی تلواروں کی میانوں کو توڑ ڈالو اور سب مل کر یکبارگی ہلہ بولو، یہ لوگ جنگ کے بڑے تجربہ کار تھے، اپنی فوج کے چند دستوں کو مختلف گھاٹیوں میں چھپا دیا تھا۔
اس طرح کفار کے لشکر کی یہ تیاریاں تھیں، دوسری طرف مسلمانوں کا یہ پہلا جہاد تھا، جس میں چودہ ہزار سپاہی مقابلہ کے لئے نکلے تھے اور سامان جنگ بھی ہمیشہ سے زیادہ تھا اور یہ لوگ بدر و احد کے میدانوں میں یہ دیکھ چکے تھے کہ صرف تین سو تیرہ بےسامان لوگوں نے ایک ہزار کے لشکر جرار پر فتح پائی، تو آج اپنی کثرت اور تیاری پر نظر کرکے حاکم اور بزار کی روایت کے مطابق ان میں سے بعض کی زبان سے ایسے کلمات نکل گئے کہ آج تو یہ ممکن نہیں کہ ہم کسی سے مغلوب ہوجائیں آج تو مقابلہ کی دیر ہے کہ دشمن فورًا بھاگے گا۔
مالک الملک و الملکوت کو یہی چیز ناپسند تھی کہ اپنی طاقت پر کوئی بھروسہ کیا جائے، چناچہ مسلمانوں کو اس کا سبق اس طرح ملا کہ جب قبیلہ ہوازن نے قرارداد کے مطابق یکبارگی ہلہ بولا اور گھاٹیوں میں چھپے ہوئے دستوں نے چار طرف سے گھیرا ڈال دیا، گرد و غبار نے دن کو رات بنادیا تو صحابہ کرام کے پاؤں اکھڑ گئے اور بھاگنے لگے، صرف رسول کریم ﷺ اپنی سواری پر سوار پیچھے ہٹنے کے بجائے آگے بڑھ رہے تھے، اور بہت تھوڑے سے صحابہ کرام جن کی تعداد تین سو اور بعض نے ایک سو یا اس سے بھی کم بتلائی ہے آنحضرت ﷺ کے ساتھ جمے رہے، وہ بھی یہ چاہتے تھے کہ آپ آگے نہ بڑھیں۔
یہ حالت دیکھ کر آپ نے حضرت عباس کو حکم دیا کہ بلند آواز سے صحابہ کو پکارو کہ وہ لوگ کہاں ہیں جنہوں نے شجرہ کے نیچے جہاد کی بیعت کی تھی، اور سورة بقرہ والے حضرات کہاں ہیں، اور وہ انصار کہاں ہیں جنہوں نے جان کی بازی لگانے کا عہد کیا تھا، سب کو چاہئے کہ واپس آئیں، اور رسول اللہ ﷺ یہاں ہیں۔
حضرت عباس کی ایک آواز بجلی کی طرح دوڑ گئی، اور یکایک سب بھاگنے والوں کو پشیمانی ہوئی، اور بڑی دلیری کے ساتھ لوٹ کر دشمن کا پورا مقابلہ کیا، اسی حالت میں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی مدد بھیج دی، ان کا کمانڈر مالک بن عوف اپنے اہل و عیال اور سب مال کو چھوڑ کر بھاگا اور طائف کے قلعہ میں جا چھپا، اور پھر باقی پوری قوم بھاگ کھڑی ہوئی، ان کے ستر سردار مارے گئے، بعض مسلمانوں کے ہاتھ سے کچھ بچے زخمی ہوگئے تو رسول اللہ ﷺ نے سختی سے منع فرمایا، ان کا سب مال مسلمانوں کے قبضہ میں آیا، چھ ہزار جنگی قیدی چوبیس ہزار اونٹ، چالیس ہزار بکریاں چار ہزار اوقیہ چاندی ہاتھ آئی۔
پہلی اور دوسری آیت میں اسی مضمون کا بیان ہے، ارشاد فرمایا کہ جب تم کو اپنے مجمع کی کثرت سے غرہ ہوگیا تھا پھر وہ کثرت تمہارے کچھ کارآمد نہ ہوئی اور زمین باوجود فراخی کے تم پر تنگ ہوگئی، پھر تم پیٹھ دے کر بھاگ کھڑے ہوئے، پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی تسلی نازل فرمائی اپنے رسول پر اور مسلمانوں پر اور ایسے لشکر فرشتوں کے نازل کردیئے، جن کو تم نے نہیں دیکھا اور کافروں کو تمہارے ہاتھ سے سزا دلوا دی۔
Top