Kashf-ur-Rahman - An-Nisaa : 118
لَّعَنَهُ اللّٰهُ١ۘ وَ قَالَ لَاَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبَادِكَ نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًاۙ
لَّعَنَهُ اللّٰهُ : اللہ نے اس پر لعنت کی وَقَالَ : اور اس نے کہا لَاَتَّخِذَنَّ : میں ضرور لوں گا مِنْ : سے عِبَادِكَ : تیرے بندے نَصِيْبًا : حصہ مَّفْرُوْضًا : مقررہ
جس پر اللہ تعالیٰ نے لعنت کر رکھی ہے اور جس نے خدا سے یوں کہا تھا کہ میں تیرے بندوں میں سے ضرور اپنا مقررہ حصہ لے کر رہوں گا۔3
3 یہ مشرک نہیں عبادت کرتے مگر چند عورتوں کی یعنی دیویوں کی اور زنا نے ناموں کی اور یہ مشرک نہیں عبادت کرتے مگر شیطان کی جو سرکش اور نافرمان ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے اور جس کو اپنی رحمت سے دور کردیا ہے اور جس نے اللہ تعالیٰ سے یوں کہا تھا کہ میں تیرے بندوں سے ضرور اپنا مقرر حصہ لے کر رہوں گا اور تیری اطاعت و عبادت میں بٹوارا کرا کے رہوں گا۔ (تیسیر) حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی تیرے بندے اپنے اعمال میں میرا حصہ ٹھہرا رکھیں گے جیسے دستور ہے بتوں کی نیاز نکال رکھتے ہیں۔ (موضح القرآن) اناث انثی کی جمع ہے ان کے بتوں کو عورتیں اس لئے فرمایا کہ عام طور سے وہ اپنے بتوں کو مئونث سے تعبیر کرتے تھے یا یہ ان کے بتوں کے اکثر نام عورتوں کے سے نام تھے جیسے لات منات وغیرہ یا اس وجہ سے کہ وہ جمادات تھے اور جمادات کو اہل لعنت بکثرت مئونث سے تعبیر کرتے ہیں اور کافر عام طور سے ان بتوں کو زیور پہنا کر ان کو آراستہ کیا کرتے تھے یا بتوں کی کمزوری کی وجہ سے ان کو اناث فرمایا یا اس وجہ سے کہ اکثر فرشتوں کو پوجتے تھے اور فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے اس لئے ان کے معبود ان کو اناث فرمایا۔ حسن اور قتادہ نے کہا مردے ہیں جن میں روح نہیں اور چونکہ جمادات اور عام چیزوں کو بھی عام طور سے مئونث سے تعبیر کرتے تھے اس لئے اناثا فرمایا۔ بہرحال ! عرب کے عام محاورے کے لحاظ سے ان کے اصنام کو اناثا فرمایا ہے شیطان کی عبادت کا مطلب یہ ہے کہ اس کی اطاعت کرتے ہیں اور چونکہ وہ بتوں کی عبادت پر آمادہ کرتا ہے اس لئے وہ بھی ان کی عبادت میں شریک ہے۔ حضرت سفیان ؓ سے مروی ہے کہ کوئی بات ایسا نہیں جس میں شیطان نہ ہو حضرت مقاتل کا قول ہے کہ شیطان سے مراد یہاں ابلیس ہے اور چونکہ یہ مشرک اس کے حکم اور اس کے کہنے کی پیروی کرتے ہیں اس لئے مجازاً بتوں کے ساتھ شیطان کی بھی عبادت کرتے ہیں۔ مزید سرکش خدا کی اطاعت سے نکل بھاگنے والا نصیب مفروض مقررہ اور مقدرہ حصہ خلاصہ یہ ہے کہ یہ مشرک ان اوثان و اصنام کی عبادت کرتے ہیں جن کے نام زنانے ناموں پر رکھے ہوئے ہیں اور چونکہ شیطان مرید کے کہنے سے ایسا کرتے ہیں لہٰذا شیطان کو بھی مجازاً معبود بنا رکھا ہے آگے شیطان کے اوصاف ہیں کہ وہ مرید اور اللہ تعالیٰ کا ملعون ہے جس کو خدا نے اپنی رحمت سے دور پھینک رکھا ہے اور جس نے ملعون ہوتے وقت یہ کہا تھا کہ میں تیرے بندوں میں سے ایک مقرر حصہ جو میرے لئے مقرر ہے لے کر رہوں گا یعنی ان کو اپنے ہمراہ جہنم میں لے جانے کی کوشش کروں گا اپنے ارادے کا اس نے اظہار کیا تھا اور یہ محض اپنی قوت اور کوشش کے خیال سے کہا تھا اور اتفاق سے جو گمان اس نے کیا تھا وہ پورا بھی ہوگیا ولقد صدق علیھم ابلیس ظنہ نصیب مقروض سے مراد اطاعت کا حصہ ہے جیسا کہ مفسرین نے کہا ہے کہ جن چیزوں میں شیطان کی اطاعت کی جائے وہی اس کا نصیب مفروض ہے آگے اور شیطان کی باتیں مذکور ہیں۔ (تسہیل)
Top