Al-Qurtubi - At-Tawba : 25
لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ فِیْ مَوَاطِنَ كَثِیْرَةٍ١ۙ وَّ یَوْمَ حُنَیْنٍ١ۙ اِذْ اَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَیْئًا وَّ ضَاقَتْ عَلَیْكُمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّیْتُمْ مُّدْبِرِیْنَۚ
لَقَدْ : البتہ نَصَرَكُمُ : تمہاری مدد کی اللّٰهُ : اللہ فِيْ : میں مَوَاطِنَ : میدان (جمع) كَثِيْرَةٍ : بہت سے وَّ : اور يَوْمَ حُنَيْنٍ : حنین کے دن اِذْ : جب اَعْجَبَتْكُمْ : تم خوش ہوئے (اترا گئے كَثْرَتُكُمْ : اپنی کثرت فَلَمْ تُغْنِ : تو نہ فائدہ دیا عَنْكُمْ : تمہیں شَيْئًا : کچھ وَّضَاقَتْ : اور تنگ ہوگئی عَلَيْكُمُ : تم پر الْاَرْضُ : زمین بِمَا رَحُبَتْ : فراخی کے باوجود ثُمَّ : پھر وَلَّيْتُمْ : تم پھرگئے مُّدْبِرِيْنَ : پیٹھ دے کر
خدا نے بہت سے موقعوں پر تم کو مدد دی ہے۔ اور (جنگ) حنین کے دن جبکہ تم کو اپنی (جماعت کی) کثرت پر غرہّ تھا تو وہ تمہارے کچھ بھی کام نہ آئی۔ اور زمین باوجود (اتنی بڑی) فراخی کے تم پر تنگ ہوگئی۔ پھر تم پیٹھ پھیر کر پھرگئے۔
اس میں آٹھ مسائل ہیں : مسئل نمبر 1 ۔ قولہ تعالیٰ : لقد نصر کم اللہ فی مواطن کثیرۃ جب بنی ہوازن کو مکہ مکرمہ فتح ہونے کی خبر پہنچی تو مالک بن عوف انصری جو بنی نصر مالک میں سے تھا، نے انہیں جمع کیا اور تمام لشکر میں ریاست و حکومت اس کی تھی اور وہ کفار کو ان کے مالوں، مویشیوں، عورتوں اور ان کی اولاد سمیت ساتھ لے کر چلا۔ اور اس کا خیال یہ تھا کہ اس کے سبب ان کی جانیں محفوظ رہیں گی اور اس طرح جنگ میں ان کی قوت و طاقت انتہائی مضبوط ہوگی۔ حضرت حسن اور مجاہد ؓ کے قول کے مطابق ان کی تعاد آٹھ ہزار تھی۔ اور یہ کہا گیا ہے کہ ہوازن وثقیف میں سے چار ہزار تھے۔ اور ہوازن پر مالک بن عوف اور ثقیف پر کنانہ بن عبد سالار تھا۔ پس وہ اوطاس میں اترے۔ اور رسول اللہ ﷺ نے حضرت عبداللہ بن ابی حدرد اسلمی ؓ کو حالات کا جائزہ لینے کے لیے ( یعنی جاسوسی کرنے کے لیے) بھیجا پس وہ اور جو کچھ ان کے بارے میں دیکھا تھا اس کی آپ ﷺ کو خبر دی۔ تب رسول اللہ ﷺ نے ان کے بارے پختہ عزم کیا۔ اور صفوان بن امیہ بن خلف سے کچھ زر ہیں عاریۃ لیں، کہا گیا کہ وہ سوز ہیں تھیں۔ اور یہ قول بھی ہے کہ چار سوز ہیں تھیں۔ اور ربیعہ مخزومی سے تین ہزار چالیس ہزار قرض لیے، پھر جب آپ آئے تو آپ نے اسے وہ ادا کردیئے۔ پھر حضور نبی رحمت ﷺ نے اسے ارشاد فرمایا۔ ” اللہ تعالیٰ تجھے تیرے گھر والوں میں اور تیرے مال میں برکت عطا فرمائے “۔ بیشک قرض کی جزا اور بدلہ اس پورا کرنا اور شکر ادا کرنا ہے۔ اسے ابن ماحبہ نے سنن میں نقل کیا ہے۔ اور رسول اللہ ﷺ بارہ ہزار مسلمانوں کے ہمراہ تشریف لے گئے۔ ان میں سے دس ہزار وہ صحابہ کرام تھے جو مدینہ طیبہ سے آپ ﷺ کے ساتھ آئے تھے اور دو ہزار فتح مکہ کے مسلمانوں میں سے تھے۔ اور آپ ﷺ نے حضرت عتاب بن اسید کو مکہ مکرمہ پر عامل مقرر کا۔ اور آپ کے اس سفر کے دوران جاہل اعرابیوں نے ایک سرسبز شاداب درخت دیکھا اور ان کے لیے زمانہ جاہلیت میں معروف درخت تھا اس کا نام ذات انواط تھا۔ کفار میں ایک معین دن میں اس کی طرف نکلتے تھے اور وہ اس کی تعظیم بجا لاتے تھے۔ تو انہوں نے کہا : یا رسول اللہ ﷺ ہمارے لیے بھی اسی طرح ایک ذات انواط بنادیجئے جیسے ان کے لیے ذات انواط ہے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ اکبر قسم ہے اس ذات کی جس کے دست قدرت میں میری جان ہے ! تم نے اس طرح کہا جیسے موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم نے کہا تھا کہ ہمارے لیے الہٰ بنا دیجئے جیسے ان کے الہٰ ہیں تو فرمایا : بلا شبہ تم جاہل قوم ہو تو یقینا تم بھی برابر برابر اپنے سے پہلے لوگوں کے طریقوں پر چلو گے یہاں تک کہ افر وہ گوہ کی بل میں داخل ہوئے تو تم بھی اس میں داخل ہو گے “۔ پھر رسول اللہ ﷺ اٹھے یہاں تک کہ آپ وادی حنین میں اگئے۔ اور یہ تہامہ کی وادیوں میں سے ہے ور ہوازن وادی کی دونوں طرفوں میں چھپے ہوئے تھے اور یہ صبح کے وقت آخر شب کی تاریکی میں تھے، پس انہوں نے ایک آدمی کی طرح یکبارگی مسلمانوں پر حملہ کردیا اور جمہور مسلمان پسا ہوگئے اور کسی نے کسی کی طرف مڑ کر نہ دیکھا اور رسول اللہ ﷺ ثابت قدم رہے اور آپ کے ساتھ حضرت ابوبکر و عمر ؓ اور آپ کی اہل بیت میں سے حضرت علی، حضرت عباس، ابو سفیان بن الحارث بن عبدالمطلط اور ان کے بیٹے حضرت جعف اور حضرت اسامہ بن زید، حضرت ایمن بن عبید اور وہ ایمن بن ام ایمن تھے جو اس دن حنین میں شہید ہوئے۔ اور حضرت ربیعہ ابن حارثٖ اور فضل بن عباس ؓ بھی ثابت قدم رہے۔ اور جعفر بی ابی سفیان کی جگہ میں قسم بن عباس بھی کہا گیا ہے۔ پس دس افراد تھے۔ سی لیے حضرت عباس ؓ نے کہا : نصرنا رسول اللہ فی الحرب تسمۃ وقد فرمن قد فزعنہ اء اقشعوا اور ہم میں سے دسویں کی ذات نے موت سے جا ملا قات کی اس تکلیف کے سبب جو اسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں آئی اور اس نے کوئی درد محسوس نہیں کیا۔ ام سلیم بھی ان تمام کے ساتھ ثابت قدم رہی جو ثابت قدم ہے، در آنحا لی کہ وہ حضرت ابو طلحہ کے اونٹ کی رسی کو کمر سے باندہ کر مضبو طی و سے پکڑے ہوئے تھی اور اس کے ہاتھ میں خنجر تھا۔ اور رسول اللہ ﷺ پسپا نہیں ہوئے اور نہ ان میں کوئی پسپا ہوا۔ رسول اللہ ﷺ اپنے شہباء خچر پر سوار تھے اور اسکا نام دلدل تھا۔ اور صحیح مسلم میں حضرت انس ؓ سے روایت پے کہ حضرت عباس ؓ نے فرمایا : میں نبی کریم ﷺ کے خچر کی لگام پکڑے ہوئے تھا اور میں نے اس ارادے سے اسے روکتا تھا کہ وہ تیز نہ دلے اور ابو سفیان آپ ﷺ کی رکاب تھامے ہوئے تھے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے عباس ! ببول کے درخت والوں کو بلائو (مراد اصحاب شجرہ ہیں وہ بیت رضوان میں شریک تھے) تو حضرت عباس ؓ نے گہا : آپ بہت بلند آواز والے آدمی تھے۔ اور آپ کی آواز کی شدت کے بارے میں روایت ہے کہ ایک دن مکہ مکرمہ پر حملہ کیا گیا تو انہوں نے آواز لگائی وا صبا حاہ ! تو جس حاملہ عورت نے آپ کی آواز سنی اس نے اپنا جنین گرادیا۔ پس میں نے بلند آواز کے ساتھ کہا : اصحاب شجرہ کہا ہیں ؟ آپ فرماتے ہیں : قسم بخدا ! جس وات انہوں نے میری آواز سنی تو وہ اس کی طرف مائل ہوئے اور لپک کر آئے جیسے گائے اپنے بچوں پر مہربان توتی ہے۔ اور انہوں نے جو اب دیا : یا لبیک یا لبیک ہم حاضر ہیں ہم حاضر ہیں انہوں نے بیان کیا : پھر وہ کفار کے ساتھ لڑنے میں مشغول ہوگئے الحدیث (1.) اور اس میں ہے : پھر رسول اللہ ﷺ نے سنگریز اٹھائے اور انہیں کفار کے چہروں پر پھینک دیا۔ پھر فرمایا : ” حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے رب کی قسم وہ شکست کھا گئے۔ “ فرمایا پس میں دیکھتا چلا گیا تو جنگ اپنی اسی ہیت پر تھی جس میں میں اسے دیکھتا رہا۔ فرمایا :ـ قسم بخدا ! وہ نہیں ہوا مگ ان سنگریزوں کے سبب جو آپ ْ ﷺ نے ان پر پھینکے۔ پس میں مسلسل ان کی تیز دھار تلواروں کو کند ہوتا اور ان کے معاملے کو پیٹھ پھیرتے ہوئے دیکھتا رہا۔ ابو عمرو نے کہا : ہم نے کئی اسناد سے ان بعض افراد سے روایت بیان کی ہے جو مشرکین میں سے اسلام لائے تھے اور غزوہ حنین میں حاضر تھے کہ انہوں نے بیان کیا درآنحالیکہ ان سے غزوئہ حنین کے بارے میں پوچھا گیا : ہم مسلمانوں سے ملے (مقابلہ کیا) زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ ہم نے انہیں شکست سے دوچار کردیا اور ہم نے ان کا تعاقب کیا یہاں تک کہ ہم اس آدمی تک پہنچ گئے جو سفید خچر پر سوار تھا پس جب اس نے ہمیں دیکھا تو اس نے ہمیں سخت جھڑکا اور ہم سہم گئے، خوفزدہ ہوگئے اور اس نے اپنی ہتھیلی میں کنکریاں اور مٹی اٹھائی اور اسے پھینگ دیا اور زبان سے فرمایا : شاھتت الوجوہ (چپرے بد شکل ہو) پس کوئی انکھ نہ بچی جس میں مٹی داخل نہ ہوئی ہو اور ہم اپنے نفسوں کے مالک نہ رہے کہ ہم ہم الٹے پائوں واپس لوٹ جائیں۔ اور حضرت سعید بن جبیر ؓ نے بیان کیا ہے : ہمیں مشرکون میں سے ایک آدمی نے حنین کے دن کے بارے میں بیان کیا کہ جب ہمارا رسول اللہ ﷺ کے اصحاب سے سامنا ہوا تو وہ بکری دوہنے کی مقدار بھی ہمارے سامنے نہ ٹھہرے یہاں تک کہ جب شہباء خچر والے۔۔۔۔۔ یعنی رسول اللہ ﷺ ۔۔۔۔ کے پاس پہنچے تو سفید چہروں والے خوبصورت آدمی ہمارے سامنے آگئے۔ اور انہوں نے ہمارے لیے کہا : شاھت لوجوہ واپس لوٹ جائو، ہم واپس لوٹ گئے اور وہ ہمارے کندھوں پر سوار ہوگئے اور وہ وہ تھے یعنی ملائکہ تھے۔ میں (مفسر کہتا ہوں :) کوئی تعارض نہیں ہے، کیونکہ یہ احتمال ہو سکتا ہے کہ شاھت الوجوہ رسول اللہ ﷺ کا قول بھی ہوا اور ملائکہ کا قول بھی ہو اور یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ ملائکہ نے حنین کے دن جنگل لڑی۔ فا اللہ اعلم۔ اور حضرت ع کی ؓ نے غزوہ حنین میں اپنے ہاتھ سے چالیس آدمیوں کو قتل کیا۔ اور رسول اللہ ﷺ نے چارہزار افراد کو قیدی بنایا۔ اور یہ قول بھی ہے کہ قیدی چھ ہزار تھے اور بارہ ہزار اونٹ تھے یہ اس کے سوا ہے۔ جو مال غنیمت معلوم نہیں۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ اس غزوہ کے بارے میں علماء نے بیان کیا ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” جس نے کسی آدمی کو قتل کیا اور اس کے پاس اس پر بینہ موجود ہو تو اس سے چھینا ہوا مال اسی کا ہوگا۔ “ اور اس کا بیان سورة الانفال میں گزر چکا ہے ہے۔ علامہ ابن عربی نے کہا ہے : اسی نکتہ اور دیگر قرائن کی وجہ سے احکام بیان کرنے والوں نے اس آیت کو احکام میں داخل کیا ہے۔ میں ( مفسر) کہتا ہوں : اور اس میں یہ بھی ہے کہ ہتھیار لینا جائز ہے، عاریۃ لی ہوئی چیز سے فائدہ اٹھانا جائز ہے، بشر طی کہ وہ اس معہود کی مثل ہو جس کے لیے عایۃ لیا جاسکتا ہو اور امام کا حاجت کے وقت مال کو خرچ کرنا جائز ہے اور پھر وہ اسے اس کے مالک تک واپس لوٹا دے۔ اس باب میں صفوان کی حدیث اصل ہے۔ اور اس غزوہ میں رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کسی حاملہ سے وطی نہ کیا جائے یہاں تک کہ وہ ضع حمل کرلے اور غیر حاملہ سے بھی وطی نہ کیا جائے یہاں تک کہ وہ ایک کامل حیض گزار لے۔ اور یہ اس بات پر دلیل ہے کہ قید عصمت کو ختم کردیتی ہے۔ اور اس کا مکمل بیان سورة النساء میں گزر چکا ہے اور امام مالک کی حدیث میں ہے کہ صفوان اس حال میں رسول اللہ کے ساتھ نکلا کہ وہ کافر تھا، پس حنین اور طائف میں حاضر ہوا اور اس کی بیوی مسلمان تھی۔ الحدیث۔ امام مالک (رح) نے بیان کیا ہے کہ : یہ رسول اللہ ﷺ کے حکم سے نہیں ہوا اور میں یہ بھی نہیں دیکھتا کہ مشرکوں سے مشرکوں کے خلاف مدد طلب کی جائے مگر یہ کہ وہ خادم ہو یا ملاح ہو۔ امام ابو حنیفہ، امام شافعی، ثوری اور امام اوزاعی رحمتہ اللہ علیہم نے کہا ہے : اس میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ اسلام کا حکم غالب ہوا اور ان سے مدد طلب کرنا مکروہ ہے جب کہ شرک کا حکم بھی ظاہر ہو۔ ان کے حصص کے بارے میں گفتگو سورة الانفال میں گزرچکی ہے۔ مسئلہ نمبر 3 ۔ قولہ تعالیٰ ویوم حنین، حنین مکہ مکرمہ اور طائف کے درمیان ایک وادی ہے اور یہ لفظ منصرف ہے کیونکہ یہ مذکر کا اسم ہے اور یہ قرآن کی لغت ہے۔ اور عربوں میں سے جوا سے غیر منصرف بناتے ہیں، وہ اسے بقعہ کا اسم بناتے ہیں۔ اور انہوں نے یہ شعر بیان کیا ہے : نصرو انبیھم و شدواء ازرہ بحنین یوم تقواکل الاء بطال تو اس میں بحنین کو غیر منصرف پڑھا گیا ہے۔ اور یوم ظرف ہے اور اس معنی کی بنا پر یہاں منصوب ہے : ونصر کم یوم حنین اور فراء نے کہا ہے : مواطن منصرف نہیں ہے کیونکہ مفرد میں اس کی کوئی نظیر نہیں اور نہ اس کی جمع آتی ہے۔ مگر شاعر بسا اوقات مجبور ہوتے ہیں اور جمع لے آئے ہیں اور نثر کلام میں وہ جائز نہیں ہوتا ہر وہ شعر میں جائز ہوتا ہے اور شعر بیان کیا : فھن یعلکن حدائداتھا اور نحاس نے کہا ہے : میں نے ابو اسحاق کو اس پر تعجب کرتے ہوئے دیکھا ہے انہوں نے کہا : انہوں نے خلیل کا قول لیا اور اس میں خطا کی ہے، کیونکہ خلیل اس بارے میں کہتے ہیں : یہ منصرف نہیں ہے کیونکہ یہ جمع ہے جس کی واحد میں کوئی نظیر نہیں ہے اور نہ اس کی جمع مکسر بنائی جاسکتی ہے اور رہی الف اور تا کے ساتھ تو یہ ممتنع نہیں ہے۔ مسئلہ نمبر 4 قولہ تعالیٰ : اذ عجبتکم کثرتکم کہا گیا ہے کہ لشکر کی تعداد بارہ ہزار تھی۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ گیارہ ہزار پانچ سو تھے۔ اور یہ قول بھی ہے کہ وہ سولہ ہزار تھے۔ تو ان میں سے بعض نے کہا : آج کے دن قلت کے سبب ہم ہر گز مغلوب نہیں ہوں گے۔ پس انہیں کلمہ کے سپرد کردیا گیا۔ تو پھر وہ ہوا جو ہم نے ذکر کردیا ہے کہ ابتدا میں ہزیمت کا سامنا ہوا یہاں تک کہ واپس لوٹ گئے، پس مسلمانوں کی مدد ونصرت اور کامیابی و کامرانی سید المرسلین ﷺ کی برکت سے تھی۔ تو اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان کردیا کہ غلبہ اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت کے سبب ہوتا ہے نہ کہ کثرت کے ساتھ۔ تحقیق ارشاد فرمایا : وان یخذلکم فمن ذالذی ینصرکم من بعدہ (آل عمران :160) اور اگر وہ ساتھ چھوڑ دے تمہار تو کون ہے جو مدد کرے گا تمہاری اس کے بعد) مسئلہ نمبر 5 ۔ و ضاقت علیکم الارض بما رحبت یعنی خوف کے سب زمین تم پر تنگ ہوگئی باوجود اپنی وسعت کے، جیسا شاعر نے کہا : کان بلاد اللہ وھی عریضۃ علی الخائف المطلوب کفۃ حابل اور الرحب ( را کے ضمہ کے سات) کا معنی وسعت ہے۔ تو اسی سے کہا لاتا ہے : فلان رحب الصدر (فلاں وسیع سینے والاہء) اور الرحب ( را کے فتحہ کے ساتھ) کا معنی الواسع ہے۔ اسی سے تو کہتا ہے : بلد رحب (کھلا شہر) اورء ارض رحمۃ کھلی زمین اور تحقیق رحبت رحب رحبا و حابۃ (وسیع ہونا) اور کہا گیا ہے کہ بما میں بامعنی مع ہے، ای مع رحمھا اور یہ بی کہا گیا ہے کہ بمعنی علی ہے، یعنی علی رحمھا۔ اور یہ بھی کہا گیا کہ اس کا معنی بر حمھا اور ما مصدر یہ ہے۔ مسئلہ نمبر 6 ۔ قولہ تعالیٰ : ثم و لیتم مد برین مسلم نے ابو اسحاق سے روایت کیا ہے انہوں نے بیان فرمایا : ایک آدمی حضرت براء ؓ کے پاس آیا اور اس نے کہا : اے ابا عمارہ ! کیا تم غزوہ حنین کے دن پیٹھ پھیر کر مڑے تھے ؟ تو انہوں نے فرمایا : میں رسول اللہ ﷺ کے بارے شہادت دیتا ہوں کہ آپ پیٹھ پھیر کر نہیں مڑے، بلکہ لوگوں میں جلد باز اور ہتھیاروں سے خالی لوگ بنی ہوازن کے اس قبیلے کی طرف چلے۔ اور وہ تیر انداز قوم بھی تھی انہوں نے یکبارگی ان پر تیروں کی بارش کردی گویا کہ وہ مکڑمی کا جتھہ ہے اور وہ ظاہر ہوگیا ہے۔ پس ایک گروہ رسول اللہ ﷺ کی طرف متوجہ ہوا اور ابو سفیان آپ ﷺ کی خچر کو پکڑے ہوئے تھا۔ پس آپ ﷺ اتر پڑے۔ دعا کی اور مدد طلب کی اور آپ یہ فرما رہے تھے : انا النبی لا کذبء انا ابن عبد المطلب (میں یقینا نبی ہوں یہ کوئی جھوٹ نہیں اور میں عبدالمطلب کا پوتا ہوں) اللھم نزل نصرک ” اے اللہ ! اپنی مدد و نصرت نازل فرما۔ حضرت براء ؓ نے بیان فرمایا : قسم بخدا ! جب جنگ شدت سے بھڑک گئی تو ہم اس سے ڈر رہے تھے اور جو ہم میں سے شجاع اور بہادر تھا وہ اس کے مقابلہ میں تھا۔ شجاع سے مراد حضور نبی رحمت ﷺ کی ذات اقدس ہے۔ مسئلہ نمبر 7 ۔ قولہ تعالیٰ : ثم انزل اللہ سکینتہ علی رسولہ وعلی المومنین یعنی پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر انہیں سکون پہنچانے والی اور ان سے خوف دور کرنے والی چیز نازل فرمائی، یہاں تک کہ وہ پیٹھ پھیرنے کے بعد پھر مشرکین کے ساتھ جنگ لڑنے پر جری ہوگئے۔ وانزل جنود الم تروھا اور اللہ تعالیٰ نے لشکر اتارے جنہیں تم نہ دیکھ سکے اور ملائکہ ہیں، وہ مومنوں کو ان کی خواطر اور ثابت قدم رہنے کے جذبات کے ساتھ طاقتور اور قوی بناتے رہے جو وہ ان کے دلوں میں ڈال رہے تھے اور کافروں کو بزدلی کے جذبات کے ساتھ کمزور کرتے رہے اس حیثیت سے کہ نہ وہ انہیں دیکھ سکے اور نہ وہ جنگ میں عملاً شریک ہوئے، کیونکہ ملائکہ نے غزوہ بدر کے سوا کسی دن عملاً جنگ نہیں لڑی۔ اور روایت ہے کہ جنگ کے بعد بنی نصر کے ایک آدمی نے مومنوں کو کہا : وہ ابلق (چتکبرے) گھوڑے کہاں ہیں ؟ اوار وہ لوگ کہاں ہیں جو ان پر خود پہنے ہوئے تھے ؟ ہم ان کے سامنے نہیں تھے مگر ناک کے بال کی طرح اور ہم فقط انہیں کے ہاتھوں سے قتل کیے گئے ؟ حضور نبی رحمت ﷺ کو انہوں نے اس بارے خبر دی تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” وہ ملائکہ تھے “۔ و عذب الذین کفروا یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہاری تلواروں کے ساتھ کافروں کو عذاب دیا۔
Top