Bayan-ul-Quran - At-Taghaabun : 13
اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ؕ وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ
اَللّٰهُ : اللہ تعالیٰ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ : نہیں کوئی الہ برحق مگر وہی وَعَلَي اللّٰهِ : اور اللہ پر ہی فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ : پس چاہیے کہ توکل کریں مومن
اللہ وہ ہے کہ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ پس اہل ایمان کو اللہ ہی پر توکل کرنا چاہیے۔
آیت 13{ اَللّٰہُ لَآ اِلٰـہَ اِلاَّ ہُوَط وَعَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ۔ } ”اللہ وہ ہے کہ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ پس اہل ایمان کو اللہ ہی پر توکل کرنا چاہیے۔“ اے اہل ایمان ! اگر تم واقعی اللہ پر ایمان رکھتے ہو تو تمہیں یقین ہونا چاہیے کہ اللہ کی مرضی کے بغیر ایک ذرہ بھی حرکت نہیں کرسکتا۔ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ تمہارے کرنے سے کچھ نہیں ہوگا ‘ جو کچھ بھی ہوگا وہ اللہ کی مشیت اور مرضی سے ہوگا۔ تمہارا کام صرف یہ ہے کہ محنت کرو اور اس کا نتیجہ اللہ پر چھوڑ دو۔ اگر تم کوئی کام کرنے کی استطاعت بھی رکھتے ہو ‘ تمہارے پاس تمام وسائل بھی موجود ہیں اور تم حالات کو بھی کلی طور پر سازگار دیکھتے ہو تو بھی کبھی مت کہنا کہ میں یہ کام ضرور کرلوں گا۔ اگر تم ایسا دعویٰ کر بیٹھو گے تو ایمان سے دور ہوجائو گے : { وَلَا تَقُوْلَنَّ لِشَایْئٍ اِنِّیْ فَاعِلٌ ذٰلِکَ غَدًا اِلَّآ اَنْ یَّشَآئَ اللّٰہُ ز } الکہف ”اور کسی چیز کے بارے میں کبھی یہ نہ کہا کریں کہ میں یہ کام کل ضرور کروں گا۔ مگر یہ کہ اللہ چاہے !“ کثرتِ وسائل کے زعم میں فتح کی امید رکھو گے تو وہی حال ہوگا جو لشکر اسلام کا وادی حنین میں ہوا تھا۔ وادی حنین میں دشمن کی تیر اندازی کی وجہ سے اہل ایمان کی صفوں میں ایسی بھگدڑ مچی تھی کہ بارہ ہزار کے لشکر میں سے سید سلیمان ندوی رح کی تحقیق کے مطابق تین چار سو اور ان کے استاد مولانا شبلی نعمانی رح کے مطابق صرف تیس چالیس لوگ حضور ﷺ کے ساتھ کھڑے رہ گئے تھے۔ سورة التوبہ کی آیت 25 میں اس کا سبب بھی بتادیا گیا : { اِذْ اَعْجَبَتْکُمْ کَثْرَتُکُمْ } التوبۃ : 25 کہ اس دن اہل ِ ایمان میں سے بعض لوگوں کے دلوں میں اپنی کثرت تعداد کا زعم پیدا ہوگیا تھا۔ بہرحال مومنین کو ہر طرح کے حالات میں اللہ پر ہی توکل کرنا چاہیے اور صادق الایمان مومنین ہر حالت میں بلاشبہ اللہ پر ہی توکل کرتے ہیں۔ یہ توکل علی اللہ بھی شجر ایمان کا وہ پھول ہے جو اہل ایمان کے دلوں اور ذہنوں کے اندر کھلتا ہے۔ گویا یہ ایمان کا تیسرا ثمرہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں تہذیب و تمدن کی گاڑی کو چلانے کے لیے ”علائق دنیوی“ کے ضمن میں بہت سی فطری محبتیں انسان کے دل میں ڈال دی ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ان محبتوں میں سب سے زیادہ قوی محبت بیویوں اور اولاد کی محبت ہے۔ اس طبعی محبت کی طرف اگلی آیت میں متنبہ فرمایا گیا کہ اگر اس میں حد اعتدال سے تجاوز ہوجائے تو یہی محبت انسان کے لیے دشمنی کا روپ دھار لے گی۔ لہٰذا اس کے ضمن میں احتیاط کی ضرورت ہے :
Top