Mutaliya-e-Quran - At-Taghaabun : 13
اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ؕ وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ
اَللّٰهُ : اللہ تعالیٰ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ : نہیں کوئی الہ برحق مگر وہی وَعَلَي اللّٰهِ : اور اللہ پر ہی فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ : پس چاہیے کہ توکل کریں مومن
اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی خدا نہیں، لہٰذا ایمان لانے والوں کو اللہ ہی پر بھروسا رکھنا چاہیے
[اللّٰهُ : اللہ (وہ ہے کہ)] [لَآ اِلٰهَ : کوئی بھی اِلٰہ نہیں ] [اِلَّا هُوَ : سوائے اس کے ] [وَعَلَي اللّٰهِ : اور اللہ پر بھی ] [فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ : چاہیے کہ توکل کریں مومن لوگ ] نوٹ۔ 2: زیر مطالعہ آیات۔ 11 تا 13 ۔ میں جو ہدایات ہمیں دی گئیں ہیں ان کو اب ایک اور پہلو سے سمجھنا ہے۔ اس کے لیے پہلے ایک اصولی بات سمجھ لیں۔ ہماری زندگی میں کچھ حالات و واقعات ہوتے ہیں جو ہم پر ٹپک پڑتے ہیں۔ ان کے واقع ہونے میں نہ تو ہمارا کوئی عمل دخل ہوتا ہے اور نہ ان پر ہمارا کوئی اختیار ہوتا ہے۔ یہ حالات خوشگوار بھی ہوتے ہیں اور ناگوار بھی۔ دوسری طرف ہماری زندگی میں کچھ اعمال ہوتے ہیں جو ہم کرتے ہیں۔ ان اعمال کے ظہور پذیر ہونے میں ہمارے غور و فکر، نیت و ارادہ اور کوشش کا عمل دخل ہوتا ہے۔ ان کو کرنے یا نہ کرنے کا ہم کو اختیار ہوتا ہے، یہ اعمال کامیاب بھی ہوتے ہیں اور ناکام بھی۔ ہماری زندگی کے یہ دو الگ الگ دائرے ہیں، ان کو آپس میں گڈمڈ کردینے کے نتیجے میں ذہن الجھ جاتا ہے اور اکثر ہم غلط نتائج اخذ کرلیتے ہیں۔ اس لیے اس فرق کو ایک مثال سے سمجھ لیں۔ فرض کریں بیرون ملک سے ایک تاجر آئے ہوئے ہیں۔ صبح دس بجے ان سے ملاقات کا وقت طے ہے۔ آپ کو یقین ہے کہ اس ملاقات سے آپ کے کاروبار میں ترقی ہوگی۔ مکمل تیاری کے ساتھ آپ اسی ہوٹل کے لیے روانہ ہوتے ہیں جس میں وہ تاجر ٹھہرا ہوا ہے۔ راستہ میں سڑک پر کوئی حادثہ ہوگیا ہے جس کی وجہ سے ٹریفک جام ہے اور آپ بھی اس میں پھنس جاتے ہیں۔ جب راستہ کھلا اور آپ آدھا گھنٹہ تاخیر سے ہوٹل پہنچے تو معلوم ہوا کہ وہ تاجر آپ کا انتظار کر کے کہیں جا چکا ہے۔ یہ آپ پر ٹپک پڑنے والا ایک واقعہ ہے۔ اس پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ تاجر کی پاکستان آمد سے باخبر ہونا، اس سے ملاقات کا وقت حاصل کرنا، مکمل تیاری کے ساتھ ٹھیک وقت پر روانہ ہونا، یہ سب آپ کا اختیاری عمل تھا۔ ٹریفک جام ہونا وارد شدہ تقدیری واقعہ ہے۔ اس تقدیری واقعہ کے وارد ہونے کے بعد رنج و غم میں سارا دن ضائع کریں گے یا خود کو سنبھال کر اس دن کے باقی کام خوش اسلوبی سے سرانجام دیں گے، یہ آپ کا عمل ہوگا، اسکا تقدیر سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ اب آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ ہم پر وارد ہونے والے تقدیری حالات و واقعات اور ہماری اختیاری سعی و جہد کا دائرہ الگ الگ تو ہے لیکن عموماً یہ ایک دوسرے سے متصل ہوتے ہیں اور زیادہ تر ان کے مابین سبب اور علت CAUSE AND EFFECT کا تعلق ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم لوگ بےاحتیاطی میں انھیں آپس میں گڈ مڈ کردیتے ہیں۔ اگر تھوڑی سی شعوری کوشش کی جائے تو ان میں فرق کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ اس لیے یہ بات کبھی نہ بھولیں کہ ہم پر وارد ہونے والے حالات و واقعات ہماری تقدیر کا حصہ ہیں۔ انھیں وارد ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ لیکن ان واقعات کے نتیجے میں ہماری زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوں گے، اس کا تعلق ہمارے عمل سے ہے۔ اس لیے وہ اثرات ہماری تقدیر کا حصہ نہیں ہیں۔ (جینے کا سلیقہ خط و کتابت کورس، حصہ چہارم صفحہ 64 تا 66 سے ماخوذ) اس حوالے سے اب یہ نوٹ کریں کہ آیت۔ 11 ۔ میں تقدیری معاملات کے لیے ہدایت ہے۔ یہاں پر ایمان باللہ سے مراد ہے اللہ کی ربوبیت پر دل کا جم جانا۔ وہ ہماری پرورش کرنے والا ہے۔ وہ ہماری ضروریات کو ہم سے زیادہ جانتا ہے اور ہم سے بڑھ کر ہمارا خیر خواہ ہے۔ اس کے ہاتھ میں کل خیر ہے۔ اس لیے جو کچھ ہوا ہے اسی میں ہماری بھلائی ہے۔ جس کے دل م میں یہ یقین ہوگا، اللہ تعالیٰ اس کے دل کو تسلیم و رضا کی ہدایت دے گا۔ جب دل کو یہ ہدایت ملے گی تب بندہ تاجر سے ملاقات نہ ہونے میں اپنی خیر سمجھے گا اور غم و غصہ میں مبتلا ہونے کے بجائے اس دن کے بقیہ کام خوش اسلوبی سے سرانجام دے کہ اس دن کو ضائع ہونے سے بچا لے گا۔ آگے آیات۔ 12 ۔ 13 ۔ میں یہ ہدایات کا تعلق ہمارے عمل کے دائرے سے باہر ہے۔ ہدایت یہ ہے کہ کوئی بھی کوشش کرتے وقت یہ فکر کرنا لازمی ہے کہ کسی چیز سے اللہ اور اس کے رسول نے منع کیا ہے، کیا چیز مباح ہے اور کیا چیز اجر و ثواب کا باعث ہے۔ جس چیز سے منع کیا گیا ہے اس سے بچنا ضروری ہے۔ اطاعت کرنے کا یہی مطلب ہے۔ اس ضمن میں دوسری ہدایت یہ ہے کہ کوشش کے نتیجہ کے لیے بھروسہ اور توکل صرف اللہ پر کرو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں کوشش کرنے کا تو پابند کیا گیا ہے لیکن اس کے نتیجے کو اللہ تعالیٰ نے کلیۃً اپنے قبضہ میں رکھا ہے۔ نتیجہ پر ہمارا کوئی اختیار نہیں ہے۔ ہماری کوشش کا نتیجہ نکلے گا یا نہیں، کتنا نکلے گا اور کب نکلے گا، یہ سب فیصلے اللہ تعالیٰ کرتا ہے۔ اور چونکہ وہ ہمارا رب ہے اس لیے اس کا ہر فیصلہ ہماری بہتری کے لیے ہوتا ہے۔ دل میں یہ یقین ہوگا تو اللہ تعالیٰ ہمارے دل کو ہدایت دے گا۔
Top