Anwar-ul-Bayan - Al-A'raaf : 130
وَ یٰقَوْمِ اعْمَلُوْا عَلٰى مَكَانَتِكُمْ اِنِّیْ عَامِلٌ١ؕ سَوْفَ تَعْلَمُوْنَ١ۙ مَنْ یَّاْتِیْهِ عَذَابٌ یُّخْزِیْهِ وَ مَنْ هُوَ كَاذِبٌ١ؕ وَ ارْتَقِبُوْۤا اِنِّیْ مَعَكُمْ رَقِیْبٌ
وَيٰقَوْمِ : اے میری قوم اعْمَلُوْا : تم کام کرتے ہو عَلٰي : پر مَكَانَتِكُمْ : اپنی جگہ اِنِّىْ : بیشک میں عَامِلٌ : کام کرتا ہوں سَوْفَ : جلد تَعْلَمُوْنَ : تم جان لوگے مَنْ : کون۔ کس ؟ يَّاْتِيْهِ : اس پر آتا ہے عَذَابٌ : عذاب يُّخْزِيْهِ : اس کو رسوا کردیگا وَمَنْ : اور کون هُوَ : وہ كَاذِبٌ : جھوٹا وَارْتَقِبُوْٓا : اور تم انتظار کرو اِنِّىْ : میں بیشک مَعَكُمْ : تمہارے ساتھ رَقِيْبٌ : انتظار
اور یہ بات واقعی ہے کہ ہم نے فرعون والوں کو قحط سالی کے ذریعہ اور پھلوں میں کمی کے ذریعہ پکڑ لیا تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔
قوم فرعون کی قحط سالی وغیرہ کے ذریعہ گرفت ہونا اور ان کا الٹی چال چلنا مصر میں فرعونیوں کی حکومت تھی خوب عیش و عشرت اور تنعم میں تھے۔ جب حضرت موسیٰ نے انہیں ایمان کی دعوت دی تو انہوں نے ایمان قبول نہ کیا اور ساتھ ہی بنی اسرائیل پر مزید ظلم و ستم ڈھانے کا فیصلہ کرلیا، اور اللہ تعالیٰ کی بھر پور نعمتیں ہوتے ہوئے شکر ادا کرنے کے بجائے کفر ہی پر جمے رہے۔ لہٰذا بطور تنبیہ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے ان پر قحط سالی بھیج دی۔ اہل مصر کو دریائے نیل کے پانی پر بھروسہ رہا ہے وہ سمجھتے رہے ہیں کہ ہمارے کھیتوں کی آب پاشی کے لیے یہ میٹھا اور عمدہ پانی خوب زیادہ کافی اور وافی ہے۔ لیکن وہ لوگ یہ نہیں سمجھتے تھے کہ پیداوار پانی سے نہیں اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوتی ہے سارے کام کرلیے جائیں، زمین کو سینچ دیا جائے اس میں بیج ڈال دیا جائے اور خوب آبپاشی کردی جائے لیکن ضروری نہیں کہ کھیتی اگ جائے اور اگر اگ جائے تو ضروری نہیں کہ آفتاب سے محفوظ رہے اور دانے پیدا ہونے تک قائم رہے۔ اور پھر اگر محفوظ ہوجائے اور غلہ بھی پیدا ہوجائے تو یہ ضروری نہیں کہ وہ غلہ ضائع ہونے سے محفوظ ہوجائے اللہ تعالیٰ اگر چاہے تو اس غلہ کو کیڑے مکوڑوں کے ذریعہ ختم فرما دے اور کاشت کرنے والے دیکھتے ہی رہ جائیں۔ سورۂ واقعہ میں فرمایا (اَفَرَءَیْتُمْ مَّا تَحْرُثُوْنَ ءَ اَنْتُمْ تَزْرَعُوْنَہٗ اَمْ نَحْنُ الزَّارِعُوْنَ لَوْ نَشَاءُ لَجَعَلْنَاہُ حُطَامًا فَظَلَلْتُمْ تَتَفَکَّہُوْنَ اِِنَّا لَمُغْرَمُوْنَ بَلْ نَحْنُ مَحْرُوْمُوْنَ ) (بتاؤ تم جو کچھ بوتے ہو کیا تم اس کو اگاتے ہو یا ہم اگانے والے ہیں۔ اگر ہم چاہیں تو اسے چورا چورا بنا دیں۔ پھر تم تعجب کرتے ہوئے رہ جاؤ کہ بلاشبہ ہم پر تاوان پڑگیا، بلکہ ہم محروم رہ گئے) کیا دھرا سب ضائع ہوا جو بیج ڈالا تھا وہ بھی گیا۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ لیست السنۃ بان لا تمطروا و لکن السنۃ ان تمطروا و لاتنبت الارض شیئا۔ (قحط یہ نہیں ہے کہ بارش نہ ہو لیکن قحط یہ ہے کہ بارش خوب ہو اور زمین کچھ بھی نہ اگائے) ۔ (رواہ مسلم ص 393 ج 2) اللہ جل شانہٗ نے مصریوں پر قحط بھیج دیا جو کھیتیاں نہ اگنے کی صورت میں ظاہر ہوا اور پھلوں میں بھی کمی فرما دی جسے و نقصٍ من الثمرات سے تعبیر فرمایا۔ ان کی کھیتیوں کی پیداوار بھی گئی اور باغوں میں جو پھل پیدا ہوتے تھے ان میں بھی خوب کمی آگئی۔ ان کو اس میں اس لیے مبتلا فرمایا کہ نصیحت حاصل کرلیں اور عبرت لیں۔ سختی کی بجائے قلب نرم ہونے چاہئیں۔ انہیں کفر سے توبہ کرنا اور ایمان قبول کرنا تھا لیکن وہ الٹی ہی چال چلے اور وہ یہ کہ جب خوشحالی ہوتی تو کہتے تھے کہ ہم تو اسی کے مستحق ہیں۔ ہم اس لائق ہیں کہ ہمارا یہی حال ہونا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کا فضل و انعام سمجھ کر شکر گزار ہونے کے بجائے اپناہی کمال سمجھتے تھے کہ ہم تو خوشحالی کے اور آرام و راحت کے مستحق ہیں اور اسی کے لائق ہیں۔ اب یہ جو مصیبت آئی ہے یہ موسیٰ (علیہ السلام) اور اس کے ساتھیوں کی نحوست ہے۔ ان کی نحوست کی وجہ سے ہم بھی مصیبت میں پھنس گئے اپنے کفر اور نا شکری کو مصیبتوں کا سبب سمجھنے کے بجائے صالحین اور شاکرین اور ذاکرین کے وجود کو اور ان کی دعوت توحید کو اور ان کے اعمال صالحہ کو مصیبت آنے کا سبب بتاتے تھے۔ اللہ جل شانہٗ نے فرمایا : (اَلَآ اِنَّمَا طآءِرُھُمْ عِنْدَ اللّٰہِ ) (خبر دار ان کی نحوست کا سبب اللہ کے علم میں ہے) یعنی اللہ کی طرف سے ہے۔ اسے اسباب اور مسببات کا علم ہے اور جو کچھ مخلوق کو پیش آتا ہے۔ اللہ کی قضاء و قدر سے ہے اور اسی کی طرف سے ہے اسباب کے اعتبار سے یہ نحوست ان کو اس لیے در پیش ہوئی کہ وہ کفر پر جمے ہوئے ہیں (وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ ) (لیکن ان میں سے بہت سے لوگ نہیں جانتے) ۔ اس سے معلوم ہوا کہ قوم فرعون کے بعض افراد سمجھتے تو تھے کہ یہ مصیبت کفر کی وجہ سے ہے لیکن اکثریت سے مغلوب تھے۔ نہ حق بات کہہ سکتے تھے اور نہ حق قبول کرتے تھے۔ قوم فرعون کا یہ طریقہ تھا کہ نہ صرف آیات اور معجزات کو دیکھ کر ایمان قبول نہیں کرتے تھے بلکہ جو بھی کوئی معجزہ سامنے آتا تھا موسیٰ (علیہ السلام) سے کہتے تھے کہ یہ تمہارا دھندہ جادو ہے تمہارے جادو کے ذریعہ ایسی چیزیں ظاہر ہوجاتی ہیں۔ تم کچھ بھی کرلو ہم تمہاری تصدیق کرنے والے نہیں ہیں۔ اس کے بعد مزید عذابوں کا تذکرہ فرمایا جن کے ذریعہ قوم فرعون کی گرفت ہوئی۔
Top