Dure-Mansoor - Al-A'raaf : 130
وَ لَقَدْ اَخَذْنَاۤ اٰلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِیْنَ وَ نَقْصٍ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ یَذَّكَّرُوْنَ
وَلَقَدْ : اور البتہ اَخَذْنَآ : ہم نے پکڑا اٰلَ فِرْعَوْنَ : فرعون والے بِالسِّنِيْنَ : قحطوں میں وَنَقْصٍ : اور نقصان مِّنَ : سے (میں) الثَّمَرٰتِ : پھل (جمع) لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَذَّكَّرُوْنَ : نصیحت پکڑیں
اور یہ بات واقعی ہے کہ ہم نے فرعون والوں کو قحط سالی کے ذریعہ اور پھلوں میں کمی کے ذریعہ پکڑ لیا تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں
(1) امام عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منزر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے ابن مسعود سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولقد اخذنا ال فرعون بالسین “ میں ” السنون “ سے مراد ہے بھوک۔ (2) امام ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” لقد اخذنا ال فرعون بالسنین “ یعنی آفات (کہ ہم نے ان کو طرح طرح کی آفات سے پکڑا) ” ونقص من الثمرت “ اس کے علاوہ (پھلوں کے نقصان سے) (3) امام عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولقد اخذنا ال فرعون بالسنین “ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو پکڑا قحط سالی کے ساتھ اور بھوک کے ساتھ سالہا سال لفظ آیت ” ونقص من الثمرت “ (اور پھلوں میں کمی کے ساتھ) جنگل میں رہنے والے اور جانور رکھنے والوں کے لئے تھی۔ اور پھلوں میں کمی ان کے شہروں اور دیہاتوں میں رہنے والوں کے لئے تھی۔ (4) امام ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے رجاء بن حیوۃ (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” ونقص من الثمرت “ کے بارے میں فرمایا کہ پھلوں میں پیداوار کی کمی اس حد تک تھی کہ کھجور کے درخت پر سوائے ایک ایک خشک کھجور کے کوئی پھل نہیں پکتا تھا۔ فرعونیوں پر قحط کا عذاب (5) امام حکیم ترمذی نے نوادر الاصول میں اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے فرعون والوں کو قحط سالی سے پکڑا تو ان کے لئے ہر چیز خشک ہوگئی۔ ان کے مویشی مرگئے۔ یہاں تک کہ نیل مصر بھی خشک ہوگیا۔ وہ لوگ فرعون کے پاس اکھٹے ہوئے اور اس کو کہا اگر تو ایسا ہی ہے جیسے تو گمان کرتا ہے تو ہمارے لئے نیل مصر میں پانی لے آ۔ اس نے کہا صبح کو تم کو پانی مل جائے گا۔ جب لوگ اس کے پاس سے چلے گئے تو اس نے کہا میں نے کونسی شے بنائی ہے ؟ کیا میں قادر ہوں کہ نیل مصر میں پانی کو جاری کر دوں۔ صبح سویرے میں جاؤں گا تو وہ مجھ کو جھٹلائیں گے جب آدھی رات تھی تو وہ اٹھا اور غسل کیا اور اون کا جبہ پہنا۔ پھر وہ ننگے پاؤں نکلا یہاں تک کہ نیل مصر پر آیا اور اس کے درمیان میں کھڑا ہوگیا اور کہا اے اللہ بلاشبہ تو جانتا ہے کہ میں بھی جانتا ہوں کہ آپ قادر ہیں اس بات پر کہ نیل مصر کو پانی سے بھر دیں تو اس کو بھی دیجئے (کچھ دیر بعد) اسے یقین ہوگیا پانی کا ریلا آئے گا تو وہ باہر نکل آیا۔ اور دریائے نیل پانی کے ساتھ ابلنے لگا جب کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ہلاک کرنے کا ارادہ کیا۔
Top