Madarik-ut-Tanzil - Al-A'raaf : 130
وَ لَقَدْ اَخَذْنَاۤ اٰلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِیْنَ وَ نَقْصٍ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ یَذَّكَّرُوْنَ
وَلَقَدْ : اور البتہ اَخَذْنَآ : ہم نے پکڑا اٰلَ فِرْعَوْنَ : فرعون والے بِالسِّنِيْنَ : قحطوں میں وَنَقْصٍ : اور نقصان مِّنَ : سے (میں) الثَّمَرٰتِ : پھل (جمع) لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَذَّكَّرُوْنَ : نصیحت پکڑیں
اور ہم نے فرعونیوں کو قحطوں اور میووں کے نقصان میں پکڑا تاکہ نصیحت حاصل کریں۔
فرعونیوں پر عذاب کی ابتداء : آیت 130: وَلَقَدْ اَخَذْنَآ ٰالَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِیْنَ (ہم نے فرعونیوں کو قحط سالیوں کے عذاب میں مبتلا کردیا) سنین کا معنی قحط ہے۔ یہ سات سال تھے اور سنۃ یہ دابہ اور نجم کی طرح اسمائے غالبہ میں سے ہے۔ وَنَقْصٍ مِّنَ الثَّمَرٰتِ (اور پھلوں کی پیداوار کی کمی میں مبتلا کردیا) قحط دیہاتیوں کے لیے اور نقص اثمار شہریوں کے لیے لَعَلَّھُمْ یَذَّکَّرُوْنَ (تاکہ وہ سمجھ جائیں) تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں اور متنبہ ہوجائیں یہ حال ان کے اصرار کفر کی وجہ سے تھا۔ اور شدت و قحط میں لوگوں کے دلوں میں رقت و نرمی زیادہ ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ فرعون چارسو سال زندہ رہا۔ اس نے تین سو بیس سال تک کوئی تکلیف نہ دیکھی تھی۔ اگر اس کو اس زمانہ میں سردرد بھوک وقحط، بخار پہنچتا تو وہ الوہیت کا مدعی نہ بنتا۔
Top