Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 130
وَ لَقَدْ اَخَذْنَاۤ اٰلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِیْنَ وَ نَقْصٍ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ یَذَّكَّرُوْنَ
وَلَقَدْ : اور البتہ اَخَذْنَآ : ہم نے پکڑا اٰلَ فِرْعَوْنَ : فرعون والے بِالسِّنِيْنَ : قحطوں میں وَنَقْصٍ : اور نقصان مِّنَ : سے (میں) الثَّمَرٰتِ : پھل (جمع) لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَذَّكَّرُوْنَ : نصیحت پکڑیں
اور ہم نے فرعونیوں کو قحطوں اور میووں کے نقصان میں پکڑا تاکہ نصیحت حاصل کریں۔
ذکر نزول مصائب عبرت بر قبطیان تا آخر ہلاکت قال اللہ تعالیٰ ٰ ولقد اخذنا ال فرعون بالسنین۔۔۔ الی۔۔۔ وماکانوا یعرشون (ربط) گزشتہ آیت میں حق تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کا اپنی قوم سے یہ وعدہ ذکر فرمایا۔ عسی ربکم ان یھلک عدوکم۔ عنقریب خدا تعالیٰ تمہارے دشمن کو ہلاک کریگا۔ اب ان آیات میں اس اہلاک موعود کی تفصیل بیان کرتے ہیں کہ قوم فرعون کس طرح بتدریج ہلاک کی گئی اور وقتاً فوقتاً ان پر کیا کیا مصیبتیں اور کیا کیا بلائیں یکے بعد یگرے نازل کی گئیں۔ اللہ تعالیٰ نے تھوڑے تھوڑے وقفہ سے ان پر بلائیں نازل کیں تاکہ متنبہ ہوجائیں اور عبرت اور نصیحت پکڑیں کہ انبیاء کرام کی تکذیب اور مقابلہ کا انجام ایسا ہوتا ہے یہاں تک کہ جب کسی طرح متنبہ نہ ہوئے تو بالآخر غرق کردئیے گئے۔ یہ غرقابی ان کی ہلاکت کی آخری منزل تھی (تفسیر کبیر ص 286 جلد 4 ) مطلب یہ ہے کہ جب فرعون اور قوم فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کی اطاعت سے انحراف کیا تو اللہ تعالیٰ نے تنبیہ کے لیے تھوڑے تھوڑے وقفہ سے بتدریج ان پر سات بلائیں اور مصیبتیں نازل کیں سب سے پہلے قحط سالی اور پھلوں کی کمی میں مبتلا کیا۔ پھر پانی کا طوفان آیا پھر ٹڈیاں مسلط کیں تاکہ ملکیت تباہ ہوجائیں پھر گھن کا کیڑا پیدا کردیا کہ گھروں میں جو غلہ کا ذخیرہ تھا گھن کے کپڑوں نے اس کو ختم کردیا پھر مینڈک پیدا کردئیے مینڈکوں اس قدر کثرت ہوئی کہ تمام مکانات اس سے سبھر گئے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ملک کے تمام پانیوں کو قبطیوں کے حق میں خون کردیا۔ چناچہ قبطی جس کنوئیں اور دریا سے پانی بھرتے تو وہ پانی خون ہوجاتا۔ اس طرح یکے بعد دیگرے یہ بلائیں ان پر نازل ہوئیں جب کبھی کوئی بلا ان پر نازل ہوتی تو گھبرا کر موسیٰ (علیہ السلام) سے فریاد کرتے اور یہ کہتے کہ اگر آپ کی دعا سے یہ بلا دور ہوجائے تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے۔ چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) دعا فرماتے اور آپ کی دعا سے وہ بلا دور ہوجاتی اور جب وہ مصیبت ٹل جاتی تو پھر وہ اپنی سابق سرکشی کی طرف رجوع کرتے۔ سچ ہے کہ جس کے دل پر مہر کردیں اسے کون ہدایت کرسکتا ہے غرض یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی تنبیہ کے لیے چند بار عذاب نازل کیا مگر پھر بھی ان کو تنبہ نہ ہوا بلکہ سرکشی میں اور زیادتی ہوتی رہی تب اللہ تعالیٰ نے ان کو دریا میں غرق کردیا اور ان کا کام تمام کیا۔ اور ان کے تمام ملک کا بنی اسرائیل کو وارث بنادیا اور بنی تعالیٰ نے جو وعدہ کیا تھا۔ عسی ربکم ان یھلک عدوکم اور و یستخلفکم فی الارض۔ وہ دونوں وعدے پورے کردئیے۔ خلاصۂ کلام یہ کہ گزشتہ آیت میں حق تعالیٰ نے دشمنوں کے ہلاک کرنے کا وعدہ فرمایا تھا۔ عسی ربکم ان یھلک عدوکم۔ اب ان آیات میں ان مصیبتوں اور آفتوں کا بیان ہے جو ان کو آخری ہلاکت سے پہلے یکے بعد دیگرے پیش آئیں چناچہ فرماتے ہیں اور التبہ تحقیق ہم نے قوم فرعون کو قحطوں میں اور میووں کے نقصان میں مبتلا کردیا کہ آسمان سے مینہ برسنا بند ہوگیا اور درختوں پر آفتیں ڈالیں کہ جن سے پھلوں کی پیداوار کم ہوگئی حتی کہ کسی نخلہ کھجور کا ایک ہی دانہ لگتا مطلب یہ ہے کہ کھیتیاں بھی برباد ہوئیں اور باغات بھی تباہ ہوئے شاید وہ متنبہ ہوجائیں اور اپنی سرکشی سے رجوع کریں مگر ان کو کچھ تنبہ نہ ہوا بلکہ اور سخت دل ہوگئے سو جب ان کو کوئی بھلائی اور خوشحالی اور فراغت اور ارزانی پہنچتی تو یہ کہتے کہ یہ تو ہمارے ہی لیے ہے یعنی ہم اس کے مستحق ہیں بجائے شکر کے اس نعمت کو اپنی خوش بختی سمجھتے اور جب ان کو کوئی برائی پہنچتی جیسے قحط اور بیماری وغیرہ تو موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھ والوں کی نحوست بتلاتے اور یہ خیال نہ کرتے کہ یہ سب ہمارے کفر اور برے اعمال کی نحوست ہے اگاہ ہوجاؤ کہ یہ نحوست موسیٰ کی نہیں بلکہ ان کی نحوست اور شومئی قسمت کا سبب اللہ کے علم میں ہے یعنی ان کو جو تکلیفیں پہنچیں یہ ان کے برے اعمال کی نحوست ہے موسیٰ (علیہ السلام) کا اس میں کوئی دخل نہیں اس لیے کہ وہ تو اللہ کے مقبول اور برگزیدہ بندے ہیں ان کی طرف نحوست کی نسبت ممکن نہیں تمہاری نحوست کا اصلی اور واقع سبب خدا کے علم میں ہے اور وہ تمہاری سر کشی اور بغاوت ہے جس کی وجہ سے دنیا میں نحوست کا کچھ حصہ وقتی طور پر بطور سزا وتنبیہ تم کو پہنچ رہا ہے کیونکہ سختیوں سے دل نرم ہوجاتا ہے اور سرکشی سے عاجزی کی طرف مائل ہوجاتا ہے باقی تمہارے کفر اور ظلم کی نحوست خدا کے پاس محفوظ ہے وہ تم کو آخرت میں پہنچے گی لیکن ان میں سے اکثر اس بات کو جانتے نہیں ان کا گمان یہ ہے کہ یہ آیت اور معجزات سب سحر ہیں اور یہ ان کی نحوست ہے اور یہ کہتے ہیں کہ اے موسیٰ تو جب کبھی بھی ہمارے پاس کوئی نشانی لے کر آئے گا تاکہ اس سے ہم پر جادو کرے تو ہم تیرے لیے باور کرنے والے نہیں یہ لوگ حضرت موسیٰ کے معجزات کو سحر سمجھتے تھے اور بطور تمسخر یہ کہتے تھے کہ ہم ان پر ایمان نہیں لائیں گے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان پر اس کے علاوہ دوسری عقوبتیں نازل کیں۔ پس ہم نے ان پر پانی کا طوفان بھیجا یعنی ان پر ایک ہفت متواتر بارش ہوئی جس سے جان اور مال اور کھیتوں کی تباہی کا اندیشہ ہوگیا اور بھیجی ہم نے ان پر ٹڈیاں جنہوں نے ان کے کھیتوں کو خراب کر ڈالا اور بھیجی ہم نے ان پر جوئیں یا گھن کے کیڑے اتنی جوئیں پیدا ہوگئیں کہ تمام مکانوں اور کھانے کی چیزوں میں بھر گئیں یا یہ معنی ہیں کہ اللہ نے گھن کے کیڑے پیدا کردئیے کہ جو غلہ ان کے مکانوں میں بھرا ہوا تھا اسے خدا کے حکم سے گھن کا کیڑا لگ گیا جس سے سارا غلہ تباہ ہوگیا اور بھیجے ہم ان پر مینڈک یعنی مینڈک اس قدر پیدا کردئیے گئے کہ ہر کھانے اور برتن میں مینڈک نظر آتا تھا مینڈکوں کی اتنی کثرت ہوئی کہ کھانا اور پینا اور گھر میں بیٹھنا مشکل ہوگیا اور خون کا عذاب ان پر مسلط کیا یعنی اللہ تعالیٰ نے قبطیوں کے حق میں تمام ملک کے پانی کو خون بنادیا کنوئیں سے پانی بھرتے تو وہ خون اور دریا سے پانی لیتے تو وہ خون قبطی جو پانی لیتا وہ اس کے منہ میں جا کر خون ہوجاتا غرض یہ کہ سات عذاب ہم ان پر مسلط کیے در آنحالیکہ یہ سب ہماری قدرت اور قہر کی کھلی کھلی نشانیاں تھیں جن میں سحر کا شائبہ بھی نہ تھا جیسا کہ وہ کہتے تھے لتسحرنا بھا یا یہ معنی ہیں کہ یہ نشانیاں جدا جدا تھیں یعنی ان جدا جدا عذابوں میں سے ہے۔ ایک عذاب ان پر ایک ہفتہ تک رہا اور ہر دو عذابوں کے درمیان ایک ہفتہ کا وقفہ تھا مطلب یہ ہے کہ خدا کی جانب سے ان پر قہر کی یہ نشانیاں جدا جدا آئیں تاکہ ان پر اللہ کی حجت قائم ہو۔ پس باوجود ان واضح نشانیوں کے اور مختلف قسم کے عذابوں کے بھی ان لوگوں نے ایمان لانے سے تکبر کیا اور تھے ہی یہ لوگ جرائم پیشہ جرم اور سرکشی کے خوگر اور عادی ہوچکے تھے کہ باوجود سختی کے بھی جرم سے باز نہ آئے غرض یہ کہ سات بلائیں موسیٰ (علیہ السلام) کے سات معجزے تھے اور یہ ساتوں عصا اور ید بیضاء کے ساتھ مل کر آیات تسعہ کہلاتے ہیں اور ان کے مجرم ہونے کی دلیل یہ ہے کہ جب کبھی ان پر مذکورہ بالا عذابوں میں سے کوئی عذاب نازل ہوتا تو اس وقت مجبور ہو کر یہ کہتے اے موسیٰ ہمارے لیے اپنے رب سے اس قہر کے ٹلنے کی دعا کیجئے جیسا کہ خدا نے تجھ سے قبولیت کا عہد کیا ہے یعنی خدا تعالیٰ نے تجھ سے وعدہ کیا ہے کہ جب تو اس سے دعا کریگا تو وہ اسے قبول فرمائے گا البتہ ہم تجھ سے وعدہ کرتے ہیں کہ اگر تو نے اپنی دعا سے اس عذاب کو ہم سے ہٹا دیا تو ہم ضرور تجھ پر ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو ضرور تیرے ساتھ بھیجدیں گے۔ جب بھی کوئی عذاب آتا تو موسیٰ (علیہ السلام) سے آکر دعا کی درخواست کرتے اور پختہ وعدہ کرتے کہ اگر یہ عذاب ٹل گیا تو ہم ضرور ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو آپ کے ہمراہ کردیں گے پھر جب ہم موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے ایک خاص مدت تک کے لیے جس کو وہ پہنچنے والے تھے عذاب کو ہٹا لیتے تو وہ فورا ہی اپنے عہد کو توڑ ڈالتے۔ اس اجل سے وہ مدت مراد ہے جو دو عذابوں کے نزول کے درمیان گزرتی تھی۔ اور جس میں وہ چین اور امن سے رہتے تھے۔ جب وہ وقت گزر جاتا تو حسب سابق سرکشی اور بدعہدی کرنے لگتے پس اب تک تو ہم نے تنبیہ کے لیے وقتاً فوقتاً تھوڑا تھوڑا عذاب نازل کیا لیکن جب باوجود ان سخت تنبیہوں کے بھی سرکشی سے باز نہ ائے اور برابر بد عہدی کرتے رہے تو ہم نے ان کے دائمی عذاب اور ابدی ہاکت کا ارادہ کرلیا اور ان مجرمین سے ان کی سرکشی اور بدعہدی کا پورا پورا بدلہ لے لیا سو ہم نے ان کو دریا میں غرق کردیا اس لیے کہ انہوں نے ہماری قدرت کی نشانیوں کو جھٹلایا اور اور تھے یہ لوگ ہماری آیتوں سے تغافل برتنے والے کہ تکبر کی وجہ سے ان میں غور وفکر بھی نہ کیا اور ہم نے ان لوگوں کو جو کمزور اور ناتواں سمجھے جاتے تھے۔ یعنی بنی اسرائیل کو اس زمین کے مشرق اور مغرب کا وارث بنادیا جس میں ہم نے برکت رکھی ہے بظاہر اس برکت والی سرزمین سے مصر کی زمین مراد ہے۔ یعنی فرعونیوں کو غرق کر کے ہم نے بنی اسرائیل کو زمین مصر کا وارث بنادیا اور اے نبی تیرے پروردگار کا نیک وعدہ بنی اسرائیل کے حق میں ان کے صبر کی وجہ سے پورا ہوا کہ انہوں نے شدت اور مصیبتوں پر صبر کیا اور ہم نے خراب اور برباد کردیا اس چیز کو جس کو فرعون اور اس کی قوم بناتی تھی اور جو بلند عمارت وہ بناتے تھے اس کو بھی ہم نے مل یا میٹ کردیا یعنی ان کے محلات اور مکانات سب کو منہدم کردیا۔ خلاصۂ مطلب یہ ہے کہ جب ان کی سرکشی کی کوئی انتہا نہ رہی اور باوجود اس قدر متواتر تنبیہا کے بھی وہ متنبہ نہ ہوئے تو ہم نے ان کو دریا میں غرق کردیا اور ان کے تمام ملک کا وارث بنی اسرائیل کو بنا دیا اور جو سچا وعدہ ہم نے ان سے کیا تھا وہ پورا کردیا اور بعض مفسرین یہ کہتے ہیں کہ مشارق الارض ومغاربہا سے زمین شام کے مشرقی اور مغربی حصے مراد ہیں۔ واللہ اعلم
Top