Dure-Mansoor - An-Nahl : 61
وَ لَوْ یُؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ مَّا تَرَكَ عَلَیْهَا مِنْ دَآبَّةٍ وَّ لٰكِنْ یُّؤَخِّرُهُمْ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى١ۚ فَاِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ لَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّ لَا یَسْتَقْدِمُوْنَ
وَلَوْ : اور اگر يُؤَاخِذُ : گرفت کرے اللّٰهُ : اللہ النَّاسَ : لوگ بِظُلْمِهِمْ : ان کے ظلم کے سبب مَّا تَرَكَ : نہ چھوڑے وہ عَلَيْهَا : اس (زمین) پر مِنْ : کوئی دَآبَّةٍ : چلنے والا وَّلٰكِنْ : اور لیکن يُّؤَخِّرُهُمْ : وہ ڈھیل دیتا ہے انہیں اِلٰٓى : تک اَجَلٍ مُّسَمًّى : ایک مدت مقررہ فَاِذَا : پھر جب جَآءَ : آگیا اَجَلُهُمْ : ان کا وقت لَا يَسْتَاْخِرُوْنَ : نہ پیچھے ہٹیں گے سَاعَةً : ایک گھڑی وَّ : اور لَا يَسْتَقْدِمُوْنَ : نہ آگے بڑھیں گے
اور اگر اللہ لوگوں کے ظلم کی وجہ سے ان کا مواخذہ فرمائے تو زمین پر کسی بھی چلنے والے کو نہ چھوڑے، لیکن وہ ایک انہیں ایک مقررہ مدت تک مہلت دیتا ہے سو جب ان کا وقت معین آجائے گا تو ایک گھڑی نہ موخر ہوں گے اور نہ آگے بڑھ سکیں گے
1:۔ ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ولو یواخذ اللہ الناس بظلمہم ما ترک علیھا من دآبۃ “ (اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کے ظلم کے سبب پکڑ لیتا) تو ان کو بارش (کا پانی) نہ پلاتا۔ 2:۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ اگر بارش نہ برسے تو زمین پر کوئی جانور باقی نہ رہے سب مرجائیں۔ 3:۔ عبدالرزاق، عبد بن حمید، ابن منذر اور ابن جریر نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ولو یواخذ اللہ الناس بظلمہم ما ترک علیھا من دآبۃ “ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کے زمانہ میں ایسا کیا تھا نوح (علیہ السلام) کی کشتی میں جو جانور سوار ہوگئے تھے وہ بچ گئے باقی زمین پر سب جانوروں کو اللہ تعالیٰ نے ہلاک کردیا۔ 4:۔ احمد نے زہد میں ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ ابن آدم کے گناہوں نے جعل (یعنی سیاہ بھنورا) کو اپنے سوراخ میں قتل کردیا پھر فرمایا یعنی اللہ کی قسم نوح (علیہ السلام) کی قوم کے غرق ہونا اسی وجہ سے تھا۔ 5:۔ ابن ابی شیبہ، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور بیہقی نے شعب میں ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ جعل (یعنی سیاہ بھنورا) کو اپنے سوراخ میں عذاب دیا جائے گا ابن آدم کے گناہ کے سبب پھر یہ (آیت) ” ولو یواخذ اللہ الناس بظلمہم ما ترک علیھا من دآبۃ “ پڑھی۔ گناہ کا دنیوی عذاب عام ہوتا ہے :۔ 6:۔ عبدبن حمید اور ابن ابی الدنیا نے کتاب العقوبات میں انس بن مالک ؓ سے روایت کیا کہ قریب ہے گوہ اپنے سوراخ میں مرجائے خوف کرتے ہوئے ابن آدم کے ظلم کی وجہ سے۔ 7:۔ عبد بن حمید، ابن ابی الدنیا، ابن جریر اور بیہقی نے شعب میں ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے ایک آدمی کو کہتے ہوئے سنا ظالم صرف اپنے آپ کو ہی نقصان پہنچاتا ہے ابوہریرہ ؓ نے فرمایا نہیں اللہ کی قسم یہاں تک کہ ظالم کے ظلم کی پاداش میں حباری (یعنی تیتر) اپنے گھونسلے میں کمزور ہو کر مرجاتا ہے۔ 8:۔ ابن مردویہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر اللہ تعالیٰ مجھے اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو ہمارے گناہوں کے سبب پکڑ لے اور دوسرے لفظ میں یوں ہے کہ ان دوانگلیوں انگوٹھا اور وہ اس کے ساتھ والی انگلی کی جنایت کی وجہ سے مواخذہ کرنا اور وہ ہم کو عذاب دیتا تو وہ ہم پر ظلم کرنے والا نہ ہوتا۔ 9:۔ ابن ابی حاتم نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ویجعلون للہ ما یکرھون “ سے مراد ہے کہ وہ لوگ میرے لئے بیٹوں کو تجویز کرتے ہیں اور خود ان کو ناپسند کرتے ہو۔ 10:۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ویجعلون للہ ما یکرھون “ اور وہ لڑکیاں مراد ہیں (جو اللہ کے لئے تجویز کرتے ہیں ) ۔ 11:۔ ابن ابی شیبہ، ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے (آیت) ” وتصف السنتہم الکذب ان لہم الحسنی “ کے بارے میں فرمایا کہ یہ کفار قریش کا قول ہے کہ ہمارے لئے بیٹے ہیں اور اللہ کے لئے بیٹیاں ہیں۔ 12:۔ عبدالرزاق، ابن جریر ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے (آیت) ” وتصف السنتہم الکذب ان لہم الحسنی “ کے بارے میں فرمایا کہ (آیت) ” بان لہم الحسنی “ یعنی ان کے لئے لڑکے ہیں۔ 13:۔ ابن ابی شیبہ، ابن جریر اور ابن منذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا (آیت) ” بان لہم الحسنی “ یعنی وہ برے کام کرنے والے ہیں۔ 14:۔ سعید بن منصور، ابن ابی شیبہ، ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وانہم مفرطون “ سے مراد ہے کہ وہ دوزخ میں ڈالے جائیں گے پھر وہ اس میں ہمیشہ کے لئے بھلا دیئے جائیں گے۔ 15:۔ عبدالرزاق ابن جریر اور ابن منذر نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وانہم مفرطون “ سے مراد ہے کہ وہ دوزخ میں جلدی جانے والے ہیں۔ 16:۔ ابن ابی حاتم نے حسن ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وانہم مفرطون “ سے مراد ہے کہ ان کو جلدی دوزخ کی طرف بھیج دیا جائے گا۔ دودھ اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے : 17:۔ ابن مردویہ نے یحی بن عبدالرحمان ابن ابی کبثہ (رح) سے روایت کیا اور وہ اپنے باپ دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ایسا نہیں ہوسکتا کہ جو آدمی دودھ پئے پھر وہ اس کے گلے میں اٹک جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (آیت) ” لبنا خالصا سآئغا للشربین “ (خالص دودھ خوش ذائقہ خوب بخود گلے میں اترنے والا پینے والوں کے لئے) 18۔ عبدالرزاق نے مصنف میں اور ابن ابی حاتم نے ابن سیرین (رح) سے روایت کیا کہ ابن عباس ؓ نے دودھ پیا مطرف (رح) نے ان سے کہا کیا آپ نے کلی نہیں کی ؟ انہوں نے فرمایا میں اس کی کوئی پرواہ نہیں کرتا آسانی کروتم پر بھی آسانی کی جائے گی ایک کہنے والے نے کہا کیونکہ وہ نکلتا ہے گوبر اور خون کے درمیان سے ابن عباس ؓ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” لبنا خالصا سآئغا للشربین “۔ 19:۔ عبدالرزاق، فریابی، سعید بن منصور، ابو داود نے ناسخ میں، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم، نحاس، ابن مردویہ اور حاکم نے (حاکم نے اس کو صحیح بھی کہا) ابن عباس ؓ سے اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت) ” تتخذون منہ سکرا ورزقا حسنا “ کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا ” سکرا “ سے مراد حرام پھل ہیں ” والرزق الحسن “ (یعنی اچھا رزق) سے مراد حلال پھل ہیں۔ 20:۔ فریابی، ابن ابی حاتم اور مردویہ نے ابن عباس ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ نشہ والی چیز اس میں سے حرام ہے اور ” والرزق الحسن “ سے مراد ہے اسکی کشمش اس کا سرکہ اس کے انگور اور دوسرے منافع ہیں۔ 21:۔ ابوداود نے ناسخ میں ابن منذر ار اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ سکرا سے نبیذ مراد ہے ” الرزق الحسن “ (کے حکم) کو اس آیت ” انما الخمر والمیسر “ المائدہ آیت 90) نے منسوخ کردیا۔ 22:۔ ابوداود نے ناسخ میں اور ابن جریر نے ابو رزین (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ یہ آیت (جب نازل ہوئی تو اس حال میں) کہ وہ لوگ (یعنی صحابہ کرام ؓ شراب پیتے رہے شراب کی حرمت نازل ہونے سے پہلے۔ 23:۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ سکرا سے مراد ہے سرکہ اور نبیذ (یعنی کھجور کا پانی) اور اس کے مشابہ (دوسری چیزیں) اور رزق حسن سے مراد ہے پھل کشمش اور اس کے مشابہ (دوسری چیزیں) 24:۔ ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور بیہقی نے ابن عباس ؓ سے (آیت) ” تتخذون منہ سکرا ورزقا حسنا “ کے بارے میں روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد سکر کو بھی حرام فرما دیا شراب کو حرام کرنے ساتھ کیونکہ سکر بھی شراب میں سے ہے پھر فرمایا (آیت) ورزقا حسنا “ سے مراد ہے سرکہ، کشمش اور نبیذ جیسی حلال چیزیں ہیں اور اس کے مشابہ (دوسری چیزیں) اللہ تعالیٰ نے ان (چیزوں کو ثابت اور ان کو مسلمانوں کے لئے حلال کردیا۔ 25:۔ ابن جریر اور ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے (آیت) ” تتخذون منہ سکرا ورزقا حسنا “ کے بارے میں فرمایا کہ لوگ شراب کو سکر کا نام دیتے ہیں اور اس کو پیتے ہیں پھر اللہ تعالیٰ نے بھی اس کے بعد اس کا نام خمر رکھ دیا جب کہ اس کو حرام کردیا گیا اور ابن عباس ؓ گمان کرتے تھے کہ حبشہ کے لوگ سرکہ کو سکر کہتے تھے اور اللہ تعالیٰ کا یہ قول (آیت) ” ورزقا حسنا ‘ سے حلال چیزیں مراد ہیں (جیسے) کھجور اور کشمش اور یہ حلال ہیں جو نشہ نہیں دیتیں۔ 26:۔ فریابی، ابن ابی شیبہ، ابن جریر اور ابن منذر نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ سکر سے مراد شراب ہے۔ ابن ابی شیبہ نے سعید بن جبیر، حسن، شعبی، ابراہیم اور ابورزین (رح) سے اسی طرح روایت کیا ہے۔ 27:۔ عبدالرزاق، ابن الانباری نے مصحف میں اور نحاس نے قتادہ (رح) سے (آیت) ” تتخذون منہ سکرا “ کے بارے میں روایت کیا کہ اس سے مراد کہ یہ عجمی لوگوں کی شرابیں تھیں اور اس (حکم) کو سورة مائدہ کی آیت نے منسوخ کردیا۔ 28:۔ انسائی نے سعید بن جبیر ؓ سے روایت کیا کہ سکر حرام ہے اور ” والرزق الحسن “ حلال ہے۔ 29:۔ ابن جریر اور ابن منذر نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” تتخذون منہ سکرا “ میں اللہ تعالیٰ نے خمر کی حرمت سے پہلے اس کو اپنی نعمت میں شمار کیا۔ 30:۔ ابن انباری اور بیہقی نے ابراہیم وشعبی رحمہما اللہ دونوں حضرات سے (آیت) ” تتخذون منہ سکرا “ کے بارے میں روایت کیا کہ یہ آیت منسوخ ہے۔ 31:۔ خطیب نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا انگور میں تمہارے لئے کئی چیزیں حاصل ہوتی ہیں تم اس کو انگور کے طور پر کھاتے ہو اور اس کا رس نکال کر پیتے ہو جب تک یہ خشک نہیں ہوتا اور اس سے کشمش چیزیں حاصل ہوتی ہیں تم اس کو انگور کے طور پر کھاتے ہو اور اس کا رس نکال کر پیتے ہو جب تک یہ خشک نہیں ہوتا اور اس سے کشمش بناتے ہو اور اس کو پکاتے ہو (واللہ اعلم)
Top