Tafseer-e-Majidi - An-Nahl : 61
وَ لَوْ یُؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ مَّا تَرَكَ عَلَیْهَا مِنْ دَآبَّةٍ وَّ لٰكِنْ یُّؤَخِّرُهُمْ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى١ۚ فَاِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ لَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّ لَا یَسْتَقْدِمُوْنَ
وَلَوْ : اور اگر يُؤَاخِذُ : گرفت کرے اللّٰهُ : اللہ النَّاسَ : لوگ بِظُلْمِهِمْ : ان کے ظلم کے سبب مَّا تَرَكَ : نہ چھوڑے وہ عَلَيْهَا : اس (زمین) پر مِنْ : کوئی دَآبَّةٍ : چلنے والا وَّلٰكِنْ : اور لیکن يُّؤَخِّرُهُمْ : وہ ڈھیل دیتا ہے انہیں اِلٰٓى : تک اَجَلٍ مُّسَمًّى : ایک مدت مقررہ فَاِذَا : پھر جب جَآءَ : آگیا اَجَلُهُمْ : ان کا وقت لَا يَسْتَاْخِرُوْنَ : نہ پیچھے ہٹیں گے سَاعَةً : ایک گھڑی وَّ : اور لَا يَسْتَقْدِمُوْنَ : نہ آگے بڑھیں گے
اور اگر اللہ لوگوں پر ان کی زیادتی کے سبب (فورا) داروگیر کرتارہتا تو زمین پر کوئی حرکت کرنے والا جاندار نہ چھوڑتا،88۔ لیکن وہ انہیں میعاد معین تک مہلت دیئے ہوئے ہے پھر جب ان کی وہ میعاد آجائے گی تو اس سے وہ نہ ایک ساعت پیچھے ہٹ سکیں گے اور نہ آگے بڑھ سکیں گے،89۔
88۔ یعنی بدکار تو بہرحال اپنی بدی کے پاداش میں ہلاک کر ہی دیے جاتے، اور جب وہ باقی ہی نہ رہ جاتے، تو نیک کاروں کا وجود بھی بےمعنی رہ جاتا، اگر دنیا میں ظلم اور ظالم کا وجود نہ باقی رہے تو کوئی انصاف کس کے مقابلہ میں کرے گا ؟ دنیا میں کوئی مفلس نہ باقی رہے، تو صفت فیاضی کے ظہور کی کیا صورت باقی رہے گی ؟ مصیبت زدوں کے وجود سے دنیا خالی ہوجائے، تو کوئی ہمدردی اور شفقت کیلئے کس کو تلاش کرے گا ؟۔ غرض انسانی آبادی تو ساری کی ساری یوں ختم ہوجاتی۔ اور جب کوئی انسان نہ زندہ رہتا، تو پھر حیوانات کی بھی ضرورت نہ رہ جاتی جو تمامتر انسان ہی کی خدمت کے لئے ہیں۔ (آیت) ” دآبۃ “۔ کے معنی انسان کے لئے بھی لئے گئے ہیں۔ لیکن مفہوم کا عموم ہی بہتر سمجھا گیا ہے، جس میں ہر جاندار آجائے، قال ابو عبیدۃ عنی انسان خاصۃ والاولی اجراؤھا علی العموم (راغب) (آیت) ” علیھا “۔ ضمیرھا زمین کی جانب ہے۔ اے علی الارض (بیضاوی) الکنایۃ فی قولہ علیھا عائدۃ الی الارض (کبیر) (آیت) ” بظلمھم “۔ ظلم یہاں ہر قسم کے کفر ومعصیت کو شامل ہے۔ اے بسبب کفرھم رمعاصیھم (روح) بکفرھم ومعاصیھم (بیضاوی) 89۔ (بلکہ ٹھیک ٹھیک قدرتی پروگرام کے مطابق ہی ہلاک ہو کر رہیں گے)
Top