Tadabbur-e-Quran - An-Nahl : 61
وَ لَوْ یُؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ مَّا تَرَكَ عَلَیْهَا مِنْ دَآبَّةٍ وَّ لٰكِنْ یُّؤَخِّرُهُمْ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى١ۚ فَاِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ لَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّ لَا یَسْتَقْدِمُوْنَ
وَلَوْ : اور اگر يُؤَاخِذُ : گرفت کرے اللّٰهُ : اللہ النَّاسَ : لوگ بِظُلْمِهِمْ : ان کے ظلم کے سبب مَّا تَرَكَ : نہ چھوڑے وہ عَلَيْهَا : اس (زمین) پر مِنْ : کوئی دَآبَّةٍ : چلنے والا وَّلٰكِنْ : اور لیکن يُّؤَخِّرُهُمْ : وہ ڈھیل دیتا ہے انہیں اِلٰٓى : تک اَجَلٍ مُّسَمًّى : ایک مدت مقررہ فَاِذَا : پھر جب جَآءَ : آگیا اَجَلُهُمْ : ان کا وقت لَا يَسْتَاْخِرُوْنَ : نہ پیچھے ہٹیں گے سَاعَةً : ایک گھڑی وَّ : اور لَا يَسْتَقْدِمُوْنَ : نہ آگے بڑھیں گے
اور اگر اللہ لوگوں سے ان کی حق تلفی پر فوراً مواخذہ کرتا ہوتا تو زمین پر کسی جاندار کو نہ چھوڑتا لیکن وہ ایک وقت معین تک لوگوں کو مہلت دیتا ہے تو جب ان کا وقت معین آجائے گا تو اس سے نہ وہ ایک ساعت پیچھے ہٹ سکیں گے اور نہ آگے بڑھ سکیں گے
آگے کا مضمون۔ آیات 61 تا 64:۔ مشرکین کو تنبیہ، پیغمبر ﷺ کو تسلی : آگے مشرکین کو تنبیہ ہے کہ خدا نے اگر تم کو مہلت دے رکھی ہے تو اس لیے دے رکھی ہے کہ اس کے ہاں ہر چیز کے لیے ایک وقت مقرر ہے۔ جب وہ وقت آجائے گا تو پھر انہ اس سے پیچھے ہٹ سکوگے نہ آگے بڑھ سکوگے۔ ساتھ ہی پیغمبر ﷺ کو تسلی دی گئی ہے کہ یہ جو کچھ تمہیں پیش آ رہا ہے یہی کچھ تم سے پہلے رسولوں کو بھی پیش آچکا ہے۔ تمہارا کام لوگوں کو مومن و موحد بنا دینا نہیں ہے بلکہ لوگوں پر صرف اللہ کی حجت تمام کردینا ہے۔ وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ مَّا تَرَكَ عَلَيْهَا مِنْ دَاۗبَّةٍ وَّلٰكِنْ يُّؤَخِّرُهُمْ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ فَاِذَا جَاۗءَ اَجَلُهُمْ لَا يَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّلَا يَسْتَقْدِمُوْنَ۔ کفر و شرک ظلم ہے۔ " ظلم " کے اصل معنی حق تلفی کے ہیں۔ چونکہ شرک و کفر سب سے بڑی حق تلفی ہے، جس کا ارتکاب کرکے بندہ اپنے رب کے سب سے بڑے حق کو بھی تلف کرتا ہے اور خود اپنی جان پر بھی سب سے بڑا ظلم ڈھاتا ہے، اس وجہ سے قرآن نے جگہ جگہ کفر و شرک کو ظلم تعبیر کیا ہے۔ مطالبۂ عذاب کا جواب : یہ کفار کے مطالبۂ عذاب کا جواب ہے کہ اللہ کا یہ قاعدہ نہیں ہے کہ وہ لوگوں کے کفر و شرک پر ان کو فورًا پکڑ لے۔ اگر وہ ایسا کرنے والا ہوتا تو زمین پر ایک جاندار کو بھی جینے کی مہلت نہ ملتی۔ بلکہ اس کا قاعدہ یہ ہے کہ وہ لوگوں کو ایک وقت معین تک مہلت دیتا ہے تاکہ جس کو توبہ و اصلاح کرنی ہو وہ اس مہلت سے فائدہ اٹھا کر توبہ و اصلاح کرلے ورنہ اپنا پیمانہ اچھی طرح بھرلے۔ ہاں جب وہ وقت معین آجاتا ہے تو پھر اس سے نہ پیچھے ہٹنے کا موقع ملتا ہے نہ آگے بڑھنے کا
Top