Mazhar-ul-Quran - Al-A'raaf : 136
وَ لَوْ یُؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ مَّا تَرَكَ عَلَیْهَا مِنْ دَآبَّةٍ وَّ لٰكِنْ یُّؤَخِّرُهُمْ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى١ۚ فَاِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ لَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّ لَا یَسْتَقْدِمُوْنَ
وَلَوْ : اور اگر يُؤَاخِذُ : گرفت کرے اللّٰهُ : اللہ النَّاسَ : لوگ بِظُلْمِهِمْ : ان کے ظلم کے سبب مَّا تَرَكَ : نہ چھوڑے وہ عَلَيْهَا : اس (زمین) پر مِنْ : کوئی دَآبَّةٍ : چلنے والا وَّلٰكِنْ : اور لیکن يُّؤَخِّرُهُمْ : وہ ڈھیل دیتا ہے انہیں اِلٰٓى : تک اَجَلٍ مُّسَمًّى : ایک مدت مقررہ فَاِذَا : پھر جب جَآءَ : آگیا اَجَلُهُمْ : ان کا وقت لَا يَسْتَاْخِرُوْنَ : نہ پیچھے ہٹیں گے سَاعَةً : ایک گھڑی وَّ : اور لَا يَسْتَقْدِمُوْنَ : نہ آگے بڑھیں گے
پھر ہم نے ان سے بدلہ لیا پس ان کو دریا میں غرق کردیا اس سبب سے کہ وہ ہماری آیتوں کو جھٹلاتے تھے اور وہ ان سے بالکل بیخبر تھے
اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک روز آدھی رات کو سارے شہر میں وبا پھیل گئی لوگ مرنے لگے۔ جبکہ یہ اپنی جانوں کی فکر میں تھے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم بنی اسرائیل کو لے کر شہر سے نکل گئے۔ جب فرعون کو اس کی خبر ہوئی تو لشکر تیار کرکے ان کے پیچھے بھاگا اور موسیٰ (علیہ السلام) کو مع بنی اسرائیل کے دریائے قلزم کی طرف جاتے دیکھا۔ یہ بھی مع لشکر کے وہاں پہنچا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مع اپنی قوم کے دریا میں گھس گئے۔ دریا نے خدا کے حکم سے بارہ راستے بنادئے اور یہ سب کے سب ان راستوں سے دریا کے پار ہوگئے۔ فرعون بھی مع اپنے لشکر کے دریا میں گھس پڑا جب بیچوں بیچ پہنچا تو دریا دونوں طرف سے آکر مل گیا اور یہ لوگ اول سے آخر تک ڈوب کر ہلاک ہوگئے۔ اسی کو اللہ پاک نے بیان فرمایا کہ یہ لوگ ہماری آیتوں اور نشانیوں کو جھٹلایا کرتے اور ایمان لانے سے غفلت کرتے تھے۔ اس لئے ہم نے ان سے بدلہ لیا کہ کافروں کو دریا میں غرق کردیا۔ پھر فرمایا ان کی جگہ بنی اسرائیل کو دی جن کو فرعون اور اس کی قوم قبط ذلیل و خوار سمجھے ہوئے تھے۔ ان ہی کا مصر اور شام کے چاروں طرف کے ملک پر قبضہ کرادیا اور ملک میں ایسی برکت دی کہ وہاں کے پھل میوے اور کھیتی بڑے زوروں پر ہونے لگی۔
Top