Urwatul-Wusqaa - An-Nahl : 61
وَ لَوْ یُؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ مَّا تَرَكَ عَلَیْهَا مِنْ دَآبَّةٍ وَّ لٰكِنْ یُّؤَخِّرُهُمْ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى١ۚ فَاِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ لَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّ لَا یَسْتَقْدِمُوْنَ
وَلَوْ : اور اگر يُؤَاخِذُ : گرفت کرے اللّٰهُ : اللہ النَّاسَ : لوگ بِظُلْمِهِمْ : ان کے ظلم کے سبب مَّا تَرَكَ : نہ چھوڑے وہ عَلَيْهَا : اس (زمین) پر مِنْ : کوئی دَآبَّةٍ : چلنے والا وَّلٰكِنْ : اور لیکن يُّؤَخِّرُهُمْ : وہ ڈھیل دیتا ہے انہیں اِلٰٓى : تک اَجَلٍ مُّسَمًّى : ایک مدت مقررہ فَاِذَا : پھر جب جَآءَ : آگیا اَجَلُهُمْ : ان کا وقت لَا يَسْتَاْخِرُوْنَ : نہ پیچھے ہٹیں گے سَاعَةً : ایک گھڑی وَّ : اور لَا يَسْتَقْدِمُوْنَ : نہ آگے بڑھیں گے
اگر اللہ لوگوں کو ان کے ظلم پر پکڑتا تو ممکن نہ تھا کہ زمین کی سطح پر ایک حرکت کرنے والی ہستی بھی باقی رہتی لیکن وہ انہیں ایک خاص ٹھہرائے ہوئے وقت تک ڈھیل دے دیتا ہے پھر جب وہ مقررہ وقت آ پہنچتا ہے تو نہ تو ایک گھڑی پیچھے رہ سکتے ہیں نہ ایک گھڑی آگے
اللہ تعالیٰ اگر ان لوگوں کو فورا پکڑ لیتا تو آج تک ان کا قصہ پاک ہوگیا ہوتا : 69۔ (دابہ) کا لفظ قرآن کریم میں 14 بار آیا ہے اور اس کے متعلق کہا گیا ہے کہ دابہ : اسم لکل حیوان ذکرا کان انشی عاقلا اوغیر عاقل ‘ وغلب علی غیر عاقل ‘۔ (دابہ) کا لفظ اسم ہے ہر ایک جانور کا وہ مذکر ہو یا مؤنث ‘ عاقل ہو یا غیر عاقل ، ناطق ہو یا غیر ناطق اور زیادہ تر غیر ناطق اور غیر عاقل پر استعمال ہوتا ہے ۔ (دابہ) میں ۃ واحد کی ہے اور اس کی جمع دواب ہے ، پاؤں پرچلنے والا ، رینگنے والا ، اور عرف عام میں یہ لفظ گھوڑے کے لئے بولا جاتا ہے اور قرآن کریم میں (دابہ الارض) ایک خاص جانور پر بھی بولا گیا ہے جس کی تشریح احادیث میں آئی ہے کہ وہ کیا ہے ؟ اس کا ذکر انشاء اللہ العزیز سورة النحل میں آئے گا ۔ اس سورة النحل کی آیت 49 میں بھی یہ لفظ گزرچکا ہے جس سے ہر طرح کے جاندار مراد ہیں جیسا کہ پیچھے گزر چکا کہ زیر نظر آیت میں (دابہ) کا لفظ فقط انسان اور وہ بھی ان انسانوں پر بولا گیا ہے جو شرک کرنے والے یعنی مشرک ہیں ۔ فرمایا کہ اگر سنت اللہ یہ ہوتی کہ جب ہی کوئی انسان ظلم و زیادتی کرتا اس وقت اس کو پکڑ لیا جاتا اور قانون امہال نہ مقرر کیا جاتا تو اس کا نتیجہ کیا ہوتا یہی کہ اس دنیا کا قصہ مدت کا پاک ہوگیا ہوتا ۔ برے لوگوں کو اگر ان کی برائی کرتے ہی پکڑ لیا جاتا تو برے لوگوں کا وجود اب تک کیسے ممکن تھا پھر اگر بروں کا وجود نہ رہتا تو کسی کے نیک ہونے کی کیا دلیل ہوتی کہ وہ نیک ہے کیونکہ اس دنیا میں ہرچیز کی پہچان تو اس کی ضد ہی سے ہے نیکی کی ضد کیا ہے ؟ برائی پھر جب برائی ہی ختم ہوجائے تو نیکی کا وجود کیسے ممکن ہے ؟ اور نیک وبدل کا تعلق کس سے ہے ؟ انسان سے لہذا اگر برے انسان کا وجود نہ رہتا تو نیک کا وجود مٹ گیا ہوتا نتیجتا انسان ہی کا خاتمہ ہوجاتا اور پھر انسان کا خاتمہ ہوجائے تو باقی ساری چیزوں میں سے کسی کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ۔ فرمایا لوگ جس طرح اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں عجلت سے کام لیتے ہیں اگر اللہ تعالیٰ بھی اتنی ہی جلدی سے کام لیتا اور انکو گناہوں کی سزا نقد بنقد سنا دیتا تو آج زندگی کا نام ونشان بھی کہیں باقی نہ ہوتا اور یہ ساری دنیا اجاڑ اور ویران ہوجاتی لیکن وہ تو بڑا ہی کریم ہے کہ وہ ہمیشہ عفو و درگزر سے کام لیتا ہے تم گناہ کرتے ہو تو وہ چشم پوشی کرتا ہے ، تم غلطیاں کرتے ہو اور وہ معاف فرماتا ہے اور اس کی عفو و درگزر کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک کہ وہ مقررہ وقت آنہ جائے جو کسی قوم کے لئے مقرر کیا گیا ہے اس طرح قوموں کی زندگی سے آگے گزر کر ایک دن اس پوری کائنات کے درہم برہم ہونے کے لئے مقرر وطے ہے اور جب تک وہ آ نہیں جاتا یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا اور فرمایا جب تک یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی ساعت آ نہیں جاتی یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا ۔ مقررہ وقت جب آئے گا تو ایک پل بھر مہلت نہیں دی جائے گی : 70۔ تمہاری جلد بازی سے اللہ تعالیٰ اپنے فیصلے نہیں بدلتا جب وہ وقت آئے گا جو اللہ کے ہاں طے ہے اور تمہاری موت یا عذاب کے لئے مقرر کیا گیا تو اس کو کوئی ماں کا لال روک نہیں سکے گا ، آیت کا یہ حصہ اس سے قبل چار پار گزر چکا ہے سورة الاعراف 7 کی آیت 34 میں بھی یہ بیان ہوا اور سورة یونس کی آیت 49 میں بھی اس کے بعد سورة الحجر کی آیت 25 اور آیت 24 میں گزر چکا اور پانچویں بار اس آیت میں بیان کیا گیا اور فرمایا کہ ” پھر جب وہ مقررہ وقت آپہنچاتو نہ ایک گھڑی پیچھے رہ سکتے ہیں نہ ایک گھڑی آگے جاسکتے ہیں ۔ “ فطرت کے قانون میں تاخیر وامہال لازم قرار پایا ہے اور اس کے علاوہ کام چل ہی نہیں سکتا ، آج اس ایٹمی دنیا میں یہ بات سمجھنا اور سمجھانا بالکل مشکل نہیں ، ایٹم چلتا ہے تو تباہی و بربادی لازم ہے لیکن یہ ایٹم کب تیار ہوا اور کب استعمال کیا گیا ؟ اگر اس میں تاخر وامہال نہ ہوتا تو کیا ایٹم تیار ہو سکتا تھا ؟ فطرت کے اس اصول کو سمجھنے کے لئے مثال سے سمجھنا زیادہ آسان ہوتا ہے غور کرو کہ فطرت کا یہ قانون ہے کہ اگر پانی آگ پر رکھا جائے تو وہ گرم ہو کر کھولنے لگے گا لیکن پانی کے گرم ہونے اور بالاخر کھولنے تک حرارت کی ایک خاص مقدار ضروری ہے اور اس کے ظہور وتکمیل کے لئے ضروری ہے کہ ایک مقررہ وقت تک انتظار کیا جائے ایسا نہیں ہوسکتا کہ تم پانی چولہے پر رکھو اور وہ فورا کھولنے لگے وہ یقینا کھولنے لگے گا لیکن اس وقت جب حرارت کی مقررہ مقدار بہ تدریج تکمیل تک پہنچ جائے گی ٹھیک اسی طرح یہاں انسانی اعمال کے نتایج بھی اپنے مقررہ اوقات ہی میں ظہور پذیر ہوتے ہیں اور ضروری ہے کہ جب تک اعمال کی اثرات ایک خاص مقررہ مقدار تک نہ پہنچ جائیں نتائج کے ظہور کا انتظار کیا جائے اور انتظار کا طریقہ بھی وہی اختیار کیا جائے جو جس مقدار کے لئے اللہ نے مقرر فرمایا ہے ، اس صورت حال سے تدریج وامہال کی حالت پید ہوگئی اور عمل حق اور عمل باطل دونوں کے نتائج کے ظہور کے لئے ” تاجیل “ یعنی ایک معین وقت کا ٹھہراؤ لازم وضروری ہوگیا ۔
Top