Dure-Mansoor - An-Nisaa : 102
وَ اِذَا كُنْتَ فِیْهِمْ فَاَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلٰوةَ فَلْتَقُمْ طَآئِفَةٌ مِّنْهُمْ مَّعَكَ وَ لْیَاْخُذُوْۤا اَسْلِحَتَهُمْ١۫ فَاِذَا سَجَدُوْا فَلْیَكُوْنُوْا مِنْ وَّرَآئِكُمْ١۪ وَ لْتَاْتِ طَآئِفَةٌ اُخْرٰى لَمْ یُصَلُّوْا فَلْیُصَلُّوْا مَعَكَ وَ لْیَاْخُذُوْا حِذْرَهُمْ وَ اَسْلِحَتَهُمْ١ۚ وَدَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْ تَغْفُلُوْنَ عَنْ اَسْلِحَتِكُمْ وَ اَمْتِعَتِكُمْ فَیَمِیْلُوْنَ عَلَیْكُمْ مَّیْلَةً وَّاحِدَةً١ؕ وَ لَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ اِنْ كَانَ بِكُمْ اَذًى مِّنْ مَّطَرٍ اَوْ كُنْتُمْ مَّرْضٰۤى اَنْ تَضَعُوْۤا اَسْلِحَتَكُمْ١ۚ وَ خُذُوْا حِذْرَكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ اَعَدَّ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابًا مُّهِیْنًا
وَاِذَا : اور جب كُنْتَ : آپ ہوں فِيْهِمْ : ان میں فَاَقَمْتَ : پھر قائم کریں لَھُمُ : ان کے لیے الصَّلٰوةَ : نماز فَلْتَقُمْ : تو چاہیے کہ کھڑی ہو طَآئِفَةٌ : ایک جماعت مِّنْھُمْ : ان میں سے مَّعَكَ : آپ کے ساتھ وَلْيَاْخُذُوْٓا : اور چاہیے کہ وہ لے لیں اَسْلِحَتَھُمْ : اپنے ہتھیار فَاِذَا : پھر جب سَجَدُوْا : وہ سجدہ کرلیں فَلْيَكُوْنُوْا : تو ہوجائیں گے مِنْ وَّرَآئِكُمْ : تمہارے پیچھے وَلْتَاْتِ : اور چاہیے کہ آئے طَآئِفَةٌ : جماعت اُخْرٰى : دوسری لَمْ يُصَلُّوْا : نماز نہیں پڑھی فَلْيُصَلُّوْا : پس وہ نماز پڑھیں مَعَكَ : آپ کے ساتھ وَلْيَاْخُذُوْا : اور چاہیے کہ لیں حِذْرَھُمْ : اپنا بچاؤ وَاَسْلِحَتَھُمْ : اور اپنا اسلحہ وَدَّ : چاہتے ہیں الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) لَوْ تَغْفُلُوْنَ : کہں تم غافل ہو عَنْ : سے اَسْلِحَتِكُمْ : اپنے ہتھیار (جمع) وَ : اور اَمْتِعَتِكُمْ : اپنے سامان فَيَمِيْلُوْنَ : تو وہ جھک پڑیں (حملہ کریں) عَلَيْكُمْ : تم پر مَّيْلَةً : جھکنا وَّاحِدَةً : ایک بار (یکبارگی) وَلَا : اور نہیں جُنَاحَ : گناہ عَلَيْكُمْ : تم پر اِنْ : اگر كَانَ : ہو بِكُمْ : تمہیں اَذًى : تکلیف مِّنْ مَّطَرٍ : بارش سے اَوْ كُنْتُمْ : یا تم ہو مَّرْضٰٓى : بیمار اَنْ تَضَعُوْٓا : کہ اتار رکھو اَسْلِحَتَكُمْ : اپنا اسلحہ وَخُذُوْا : اور لے لو حِذْرَكُمْ : اپنا بچاؤ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ اَعَدَّ : تیار کیا لِلْكٰفِرِيْنَ : کافروں کے لیے عَذَابًا : عذاب مُّهِيْنًا : ذلت والا
اور جب آپ ان میں موجود ہوں پھر ان کے لئے نماز قائم کریں تو چاہئے کہ ان میں سے ایک جماعت آپ کے ساتھ کھڑی ہوجائے اور یہ لوگ اپنے ہتھیار لے لیں، پھر جب سجدہ کرچکیں تو یہ تمہارے پیچھے ہوجائیں اور دوسری جماعت آجائے جنہوں نے نماز پڑھی، سو وہ آپ کے ساتھ نماز پڑھیں، اور اپنے بچاؤ کا سامان اور اپنے ہتھیار ساتھ لے لیں، کافروں کی یہ خواہش ہے کہ اگر تم اپنے ہتھیاروں سے اور اسباب سے غافل ہوجاؤ تو تم پر یک بارگی حملہ کر بیٹھیں، اور تم پر اس بات کا کوئی گناہ نہیں کہ اگر بارش سے تکلیف ہو یا تم بیمار ہو تو اپنے ہتھیار رکھ دو اور اپنے بچاؤ کا سامان لے لو، بیشک اللہ نے کافروں کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب تیار فرمایا ہے
صلاۃ الخوف کا طریقہ (1) عبد الرزاق، سعید بن منصور وابن ابی شیبہ واحمد وعبد بن حمید وابو داؤد و نسائی وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتن ودار قطنی و طبرانی وحاکم (نے اس کو صحیح کہا) اور بیہقی نے ابو عیاش زرقی ؓ سے روایت کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ عسفان میں تھے مشرکین ہم سے ملے ان پر خالد بن ولید امیر تھے اور وہ مشرک ہمارے اور قبیلہ کے درمیان حائل تھے ہم کو نبی ﷺ نے ظہر کی نماز پڑھائی تو مشرکوں نے کہا یہ لوگ (یعنی مسلمان) اپنے حال پر تھے کاش ہم ان کی غفلت سے فائدہ اٹھاتے پھر انہوں نے (آپس میں کہا) ابھی ایک نماز ان پر آئے گی جو ان کو اپنے بیٹوں اور اپنی جانوں سے بھی زیادہ محبوب ہے۔ جبرئیل (علیہ السلام) یہ آیات لے کر نازل ہوئے ظہر اور عصر کے درمیان لفظ آیت ” واذا کنت فیہم فاقمت لہم الصلوۃ “ نماز کا وقت ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے ان کو حکم فرمایا کہ ہتھیار لے لو اور میرے پیچھے دو صفیں بنا لو پھر آپ نے رکوع کیا تو ہم سب نے رکوع کیا تو پھر اس صف نے سجدہ کیا جو آپ کے ساتھ تھی اور دوسرے ان کا پہرہ دیتے ہوئے کھڑے رہے جب انہوں نے سجدہ کرلیا اور کھڑے ہوگئے تو دوسری صف والے صحابہ بیٹھ گئے اور انہوں نے اپنی جگہ پر سجدہ کیا پھر دوسری صف والے پہلی صف والوں کی جگہ پر چلے گئے پھر آپ نے رکوع کیا سب نے رکوع کیا پھر آپ اٹھے تو سب لوگ اٹھ گئے پھر اس صف والوں نے سجدہ کیا پھر آپ نے سلام فرمایا اور آپ نماز سے فارغ ہوگئے راوی نے کہا کہ جب رسول اللہ ﷺ نے دو مرتبہ (خوف کی) نماز پڑھی ایک مرتبہ عسفان میں اور دوسری مرتبہ بنو سلیم کی زمین میں۔ (2) ترمذی (نے اس کو صحیح کہا) اور ابن جریر نے ؓ سے روایت کیا کہ رسول ﷺ ضجنان اور عسفان کے درمیان اترے مشرکوں نے کہا اب ان لوگوں کی نماز کا وقت ہے جو ان کو اپنے آباؤ اجداد اور اپنے بیٹوں سے بھی زیادہ محبوب ہے اور وہ عصر کی نماز ہے تم تیاری کرلو اور سب ایک دم سے ان پر ٹوٹ پڑو۔ جبرئیل نبی ﷺ کے پاس تشریف لائے اور ان کو حکم فرمایا کہ اپنے اصحاب کو دو حصوں میں تقسیم فرما کر ان کو نماز پڑھائیں اور ایک جماعت آپ کے پیچھے کھڑی ہوئی پھر فرمایا لفظ آیت ” ولیاخذوا اسلحتہم “ پھر دوسرے آئیں اور ایک رکعت آپ کے ساتھ پڑھیں پھر یہ اسلحہ لے لیں اور اپنا اسلحہ لے لیا پس ان کی ایک ایک رکعت ہوئی اور رسول اللہ ﷺ کی دو رکعتیں ہوئیں۔ (3) ابن ابی شیبہ، وابن جریر وابن ابی حاتم نے یزید الفقر (رح) سے روایت کیا کہ میں نے جابر بن عبد اللہ سے سفر میں دو رکعتون کے بارے میں پوچھا کہ کیا یہ قصر ہیں انہوں نے فرمایا دو رکعتوں سفر میں پوری نماز ہے اور قصر نماز لڑائی کے وقت ایک رکعت ہے اس درمیان کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے لڑائی میں اچانک نماز قائم ہوئی رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوگئے ایک جماعت نے صف بنا لی اور دوسری جماعت نے اپنا چہرہ دشمن کی طرف کرلیا آپ نے ان کو ایک رکعت پڑھائی اور ان کے ساتھ دو سجدے کئے پھر یہ لوگ پیچھے ہٹ گئے یہ ان لوگوں کی طرف چلے گئے اور ان کی جگہ پر کھڑے ہوگئے پھر دوسرے لوگ آگے آگئے اور رسول اللہ ﷺ کے پیچھے کھڑے ہوگئے آپ نے ان کو بھی ایک رکعت پڑھائی اور آپ کے ساتھ دو سجدہ کئے پھر رسول اللہ ﷺ بیٹھ گئے اور سلام پھیرا اور ان لوگوں نے بھی سلام پھیرا جو آپ کے پیچھے تھے اور دوسرے صحابہ نے بھی سلام پھیرا اب رسول اللہ ﷺ کی دو رکعت ہوئی اور صحابہ کی ایک رکعت ہوئی پھر آپ نے (یہ آیت) پڑھی لفظ آیت ” واذا کنت فیہم فاقمت لہم الصلوۃ “۔ (4) عبد بن حمید وابن جریر نے سلیمان یشکری (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے جابر بن عبد اللہ سے نماز میں قصر کے بارے میں پوچھا کہ کس دن (یہ حکم) نازل ہوا تو جابر بن عبد اللہ نے فرمایا قریش کا قافلہ شام سے آیا یہاں تک کہ جب ہم نخل کے مقام پر تھے قوم میں سے ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا اے محمد ! کیا تو مجھ سے ڈرتا ہے فرمایا نہیں اس نے کہا پھر کون تم کو مجھ سے بچائے گا آپ نے فرمایا اللہ ! مجھ کو تجھ سے بچائیں گے اس نے تلوار سونت لی پھر اس نے آپ کو خود دلایا اور دھمکی دی (لیکن آپ نہیں ڈرے) پھر کوچ کرنے کی آواز لگائی گئی اور آپ نے ہتھیار لئے تم نماز کی اذان دی گئی رسول اللہ ﷺ نے قوم میں سے ایک جماعت کو نماز پڑھائی اور دوسری جماعت ان کی حفاظت کرتی رہی جو لوگ آپ کے ساتھ تھے آپ نے ان کو دو رکعت نماز پڑھائی پھر یہ لوگ اپنی ایڑیوں کے بل پیچھے ہٹ گئے اور اپنے ساتھیوں کی صف میں کھڑے ہوگئے پھر دوسرے لوگ آئے اور آپ نے ان کی دو رکعت پڑھائی اور دوسرے لوگوں نے ان کی چوکیداری کی تو آپ نے سلام پھیرا تو (اس طرح) نبی ﷺ کی چار رکعت ہوئیں اور قوم کی دو دو رکعت ہوئیں تو اللہ تعالیٰ نے نماز قصر کرنے (کا حکم) نازل فرمایا اور مومنین کو اسلحہ رکھنے کا بھی حکم فرمایا۔ (5) عبد الرزاق وعبد بن حمید و بخاری ومسلم وابو داؤد و ترمذی و نسائی وابن ماجہ وابن ابی حاتم نے زھری کے طریق سے سالم (رح) سے روایت کیا کہ اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے تھے لفظ آیت ” واذا کنت فیہم فاقمت لہم الصلوۃ “ سے خوف کی نماز مراد ہے رسول ﷺ نے ایک جماعت کو ایک رکعت پڑھائی اور دوسری جماعت دشمن کے سامنے رہی پھر وہ جماعت چلی گئی جنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ کے ساتھ نماز پڑھی تھی اور یہ لوگ دشمن کے سامنے ان لوگوں کی جگہ پر کھڑے ہوگئے اب دوسری جماعت آئی جو دشمن کے سامنے تھی وہ آگئی ان کو رسول اللہ ﷺ نے ایک رکعت پڑھائی پھر آپ نے ان کے ساتھ سلام پھیرا پھر ہر ایک جماعت کھڑی ہوگئی اور ایک ایک رکعت انہوں نے پوری کی۔ (6) ابن جریر وابن ابی حاتم نے الطبرانی نے ابن عباس ؓ سے لفظ آیت ” واذا کنت فیھم فاقمت لہم الصلوۃ فلتقم طائفۃ منہم معک “ کے بارے میں روایت کیا کہ یہ (حکم) نماز کے بارے میں خوف کے وقت ان میں سے ایک جماعت امام کے ساتھ کھڑی ہو اور ایک جماعت اسلحہ لے کر دشمن کے سامنے ہو امام ان کے ساتھ ایک رکعت پڑھے گا پھر وہ اپنی حالت پر بیٹھا رہا یہ جماعت کھڑی ہو کر دوسری رکعت پوری کرے گی اور امام بیٹھا رہا پھر یہ لوگ ان کی جگہ پر (دشمن کے سامنے) کھڑے ہوجائیں پھر وہ دوسری جماعت آئے گی اور امام ان کو ایک رکعت پڑھائے پھر وہ اسلام پھیرے گا اور یہ لوگ کھڑے ہو کر اپنی دوسری رکعت پوری کریں گے اس طرح رسول اللہ ﷺ نے بطن نخلہ کے دن نماز پڑھی۔ (7) عبد الرزاق وابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابن جریر اور حاکم نے (اس کو صحیح کہا) اور ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ذی قرد کے مقام پر خوف کی نماز پڑھی آپ نے دو صفیں بنا لیں ایک صف آپ کے پیچھے تھی اور ایک صف دشمن کے سامنے تھی جو آپ کے پیچھے تھے آپ نے ان لوگوں کو ایک رکعت نماز پڑھائی پھر یہ لوگ ان لوگوں کی جگہ پر (دشمن کے سامنے) چلے گئے اور دوسرے لوگ آئے آپ نے ان کو بھی ایک رکعت پڑھائی اور ان لوگوں نے باقی نماز قضا نہ کی۔ (8) ابن ابی شیبہ نے زید بن ثابت ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے خوف کی نماز پڑھائی سفیان نے کہا اور انہوں نے حدیث ابن عباس کی طرح ذکر کیا۔ (9) ابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابو داؤد و نسائی وابن جریر وابن حبان اور حاکم (نے اس کو صحیح کہا) اور بیہقی نے ثعلبہ بن زھدم (رح) سے روایت کیا کہ ہم سعید بن العاص کے ساتھ طبرستان میں تھے تو انہوں نے فرمایا تم میں سے کس نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خوف کی نماز پڑھی تھی حذیفہ نے فرمایا میں نے حذیفہ کھڑے ہوئے کچھ لوگوں نے ان کے پیچھے صف بنائی اور ایک صف دشمن کے سامنے رہی انہوں نے اپنے پیچھے لوگوں کو ایک رکعت پڑھائی پھر یہ لوگ ان لوگوں کی جگہ پر چلے گئے اور وہ لوگ آئے تو ان کو بھی انہوں نے ایک رکعت پڑھائی ان لوگوں نے دوسری رکعت کی قضاء کی۔ غزوہ ذات الرقاع میں صلوٰۃ الخوف (10) ابو داؤد وابن حبان اور حاکم (نے اس کو صحیح کہا) اور بیہقی نے عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ذات الرقاع کے مقام پر خوف کی نماز پڑھی لوگ دو حصوں میں متفرق ہوگئے ایک جماعت نے آپ کے پیچھے صف بنا لی اور دوسری جماعت دشمن کے سامنے کھڑی ہوگئی رسول اللہ ﷺ نے تکبیر کہی (یعنی اللہ اکبر کہا) تو اس جماعت نے بھی تکبیر کہی جو آپ کے پیچھے تھی پھر آپ نے رکوع کیا تو انہوں نے بھی رکوع کیا پھر آپ نے سجدہ کیا تو انہوں نے بھی سجدہ کیا پھر آپ نے سر اٹھایا تو انہوں نے بھی اٹھایا پھر رسول اللہ ﷺ بیٹھے رہے ان لوگوں نے دوسرا سجدہ کیا پھر یہ لوگ کھڑے ہوگئے اور اپنی ایڑیوں کے بل پیچھے کو ہٹے یہ الٹے پاؤں چل رہے تھے یہاں تک کہ پیچھے کھڑے ہوگئے اور دوسری جماعت آئی اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے پیچھے صف بنا لی انہوں نے خود ہی اپنا سجدہ کیا پھر دونوں جماعتیں اکٹھی کھڑی ہوگئیں اور رسول اللہ ﷺ کے پیچھے صف باندھ لی آپ نے رکوع کیا تو سب نے رکوع کیا پھر آپ نے سجدہ کیا تو سب نے سجدہ کیا۔ پھر آپ نے سر اٹھایا تو سب نے آپ کے ساتھ سر اٹھایا یہ سب کچھ رسول اللہ ﷺ نے جلدی جلدی کیا اور جتنی تخفیف ہوسکتی تھی تخفیف کی پھر آپ نے سلام پھیرا تو سب نے سلام پھیرا پھر آپ کھڑے ہوئے جبکہ لوگ آپ کی ساری نماز میں شریک ہوچکے تھے۔ (11) الحاکم نے جابر ؓ سے رسول اللہ ﷺ کی خوف کی نماز کے بارے میں روایت کیا کہ ایک جماعت آپ کے پیچھے تھی اور ایک جماعت اس جماعت کے پیچھے تھی جو رسول اللہ ﷺ کے پیچھے بیٹھی ہوئی تھی سب کا منہ رسول اللہ ﷺ کی طرف تھا رسول اللہ ﷺ نے اللہ اکبر کہا تو دونوں جماعتوں نے بھی اللہ اکبر کہا آپ نے رکوع کیا تو ایک جماعت جو آپ کے پیچھے تھی اس نے بھی رکوع کیا جبکہ دو سرے لوگ بیٹھے ہوئے تھے پھر آپ نے سجدہ کیا تو انہوں نے بھی سجدہ کیا اور دوسرے لوگ بیٹھے پھر وہ کھڑے ہوئے اور الٹے پاؤں ہٹے یہاں تک کہ اپنے ساتھیوں کی جگہ پر بیٹھ گئے اب دوسری جماعت آئی آپ نے ان کو ایک رکعت پڑھائی اور دو سجدے کئے پھر آپ نے سلام پھیرا اور دوسرے لوگ بیٹھے ہوئے تھے پھر آپ نے سلام پھیرا تو دونوں جماعتیں کھڑی ہوگئیں انہوں نے اپنے اپنے طور پر ایک رکعت پڑھی اور دو سجدے کئے۔ (12) مالک والشافعی وابن ابی شیبہ وعبد بن حمید و بخاری ومسلم وابو داؤد اور ترمذی و نسائی وابن ماجہ والدار قطنی و بیہقی نے صالح بن خوات (رح) سے روایت کیا کہ اور انہوں نے اس صحابی سے روایت کیا کہ جنہوں نے ذات الرقاع کے دن نبی ﷺ کے ساتھ خوف کی نماز پڑھی۔ (یہ فرماتے ہیں) کہ ایک جماعت نے آپ کے ساتھ صف باندھی اور ایک جماعت دشمن کے سامنے تھی آپ نے اس جماعت کو ایک رکعت پڑھائی پھر آپ ﷺ کھڑے رہے اور لوگوں نے خود نماز کو پورا پھر یہ لوگ چلے گئے اور دشمن کے سامنے کھڑے ہوگئے اب دوسری جماعت آئی ان کو آپ نے ایک رکعت پڑھائی جو آپ کی نماز میں سے باقی تھی پھر آپ بیٹھے رہے اور ان لوگوں نے خود نماز پوری کی پھر آپ نے ان کے ساتھ سلام پھیرا۔ (13) عبد بن حمید ودارقطنی نے ابو بکرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ کو خوف کی نماز پڑھائی بعض صحابہ کو دو رکعتیں پڑھائیں پھر آپ نے سلام پھیرا اور یہ لوگ پیچھے ہٹ گئے پھر دوسرے لوگ آئے آپ نے ان کو بھی دو رکعتیں پڑھائیں پھر آپ نے سلام پھیرا تو رسول اللہ ﷺ کی چار رکعات ہوتی اور مسلمانوں کی دو ود رکعت ہوئیں۔ (14) الدار قطنی وحاکم نے ابو بکرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے خوف کی حالت میں تین رکعات مغرب کی نماز پڑھائی پھر یہ لوگ چلے گئے اور دوسرے لوگ آگئے آپ نے ان کو بھی تین رکعت پڑھائی تو نبی ﷺ کی چھ رکعت ہوئیں اور قوم کے لئے تین تین ہوئیں۔ صلوٰۃ الخوف کا طریقہ (15) ابن ابی شیبہ، وعبد بن حمید وابن جریر ودار قطنی نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم کو خوف کی نماز پڑھائی یہ لوگ دو صفوں میں کھڑے ہوگئے ایک صف رسول اللہ ﷺ کے پیچھے اور ایک صف دشمن کے سامنے تھی رسول اللہ ﷺ نے ان کو ایک رکعت پڑھائی اب دوسری جماعت آگئی جو دشمن کے سامنے تھی ان کو بھی رسول اللہ ﷺ نے ایک رکعت پڑھائی پھر آپ نے سلام پھیرا یہ لوگ ان لوگوں کی جگہ پر کھڑے ہوگئے جنہوں نے ایک رکعت نماز ادا کی پھر سلام پھیرا۔ (16) عبد بن حمید وحاکم (نے اس کو صحیح کہا) اور عروہ بنی مروان (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے ابوہریرہ سے سوال کیا کہ کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی ہے ؟ ابوہریرہ ؓ نے فرمایا ہاں مروان نے کہا کہاں پڑھی تھی تو انہوں نے فرمایا نجد کی جنگ کے سال رسول اللہ ﷺ عصر کی نماز کے لئے کھڑے ہوئے ایک جماعت آپ کے ساتھ کھڑی ہوئی اور دوسری دشمن کے مقابلے اور ان کی پیٹھیں قبلہ کی طرف تھیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اللہ اکبر کہا تو سب نے اکبر کہا پھر آپ نے رکوع کیا اس نے بھی رکوع کیا جو آپ کے پیچھے تھی پھر آپ نے سجدہ کیا جو جماعت آپ کے پیچھے تھی انہوں نے سجدہ کیا اور دوسرے دشمن کے سامنے کھڑے تھے پھر رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوگئے اور وہ جماعت بھی کھڑی ہوگئی جو آپ کے ساتھ تھی اور دشمن کی طرف چلے گئے اور ان کو مقابلہ کیا اب دوسری جماعت آئی انہوں نے رکوع کیا اور سجدہ کیا اور رسول اللہ ﷺ کھڑے رہے جیسے تھے پھر وہ لوگ بھی کھڑے ہوگئے اور رسول اللہ ﷺ نے دوسری رکعت کا رکوع فرمایا ان لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ رکوع کیا اور سجدہ کیا پھر دوسری جماعت آئی جو دشمن کے مقابلے میں تھی انہوں نے رکوع اور سجدہ کیا اور رسول اللہ ﷺ بیٹھے رہے اور جو ان کے ساتھ تھا وہ بھی۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے سلام پھیرا تو ان سب نے اکٹھے سلام پھیرا اور رسول اللہ ﷺ کی دو رکعت تھیں اور ان دونوں جماعتوں میں سے ہر ایک کی ایک ایک رکعت ہوئی۔ (17) دارقطنی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ہم کو رسول اللہ ﷺ نے خوف کی نماز کا حکم فرمایا اور رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور ہم بھی آپ کے پیچھے دو صفوں میں کھڑے ہوگئے۔ آپ نے اللہ اکبر کہا اور رکوع کیا اور ہم دونوں صفوں والوں نے رکوع کیا پھر آپ نے سر اٹھایا پھر آپ سجدہ میں گرپڑے اور پہلی صف والوں نے بھی جو آپ کے ساتھ تھی سجدہ کیا اور دوسرے لوگ کھڑے رہے اپنے بھائیوں کی چوکیداری کر رہے تھے جب وہ اپنے سجدوں سے فارغ ہوگئے تو کھڑے ہوگئے پچھلی صف سجدوں میں چلی گئی انہوں نے دو سجدے کئے پھر کھڑے ہوگئے پہلی صف پیچھے چلی گئی جو آپ کے ساتھ تھی اور پچھلی صف آگے آگئی آپ نے رکوع فرمایا تو سب نے رکوع کیا اور رسول اللہ ﷺ نے سجدہ کیا اور اس صف نے بھی جو آپ کے ساتھ تھی اور دوسرے لوگ کھڑے رہے اپنے بھائیوں کی حفاظت کرتے ہوئے جب رسول اللہ ﷺ بیٹھ گئے تو پچھلی صف سجدہ میں گر پڑھی پھر نبی ﷺ نے سلام فرمایا۔ (18) دار قطنی نے جابر ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ بنو محارب کے نخل کے مقام پر محاصرہ فرما رہے تھے پھر لوگوں میں آواز دی گئی کہ جماعت ہونے والی ہے رسول اللہ ﷺ نے دو جماعتیں بنا دیں ایک جماعت دشمن کے مقابلے میں باتیں کر رہے تھے اور ایک جماعت نے دو رکعتیں پڑھیں پھر آپ نے سلام پھیرا اور یہ لوگ اپنے بھائیوں کی جگہ پر چلے گئے اب دوسری جماعت آئی تو رسول اللہ ﷺ نے ان کو دو رکعتیں پڑھائی تو نبی ﷺ کی چار رکعت ہوئیں اور ہر جماعت کی دو رکعتیں ہوئیں۔ عسفان کے مقام پر صلوٰۃ الخوف (19) البزار وابن جریر اور حاکم (نے اس کو صحیح کہا) اور ابن عباس ؓ سے فرمایا کہ رسول ﷺ ایک جنگ میں نکلے عسفان پر مشرکین سے ملاقات ہوئی جب رسول اللہ ﷺ نے ظہر کی نماز پڑھی ان لوگوں نے دیکھا کہ آپ رکوع کرتے ہیں سجدہ کرتے ہیں اور آپ کے اصحاب بھی ان کے بعض نے بعض سے کہا اگر تم ان پر حملہ کردیتے تو انہیں تمہارے بارے میں علم ہی نہ ہوتا یہاں تک کہ تم ان پر ٹوٹ پڑتے ایک کہنے والے نے ان میں سے کہا ان کی دوسری نماز ہوگی جو ان کو ان کے اہل و عیال اور ان کے مالوں سے زیادہ محبوب ہے صبر کرو یہاں تک کہ ان کی نماز کا وقت ہوجائے تو سب اکٹھے ہو کر ان پر حملہ کردیں گے تو اللہ تعالیٰ (یہ آیت) اتاری لفظ آیت ” کنت فیہم فاقمت لہم الصلوۃ “ آخر آیت تک۔ اور ان کو بتایا گیا جو مشرکین نے پروگرام بنایا تھا رسول اللہ ﷺ نے جب عصر کی نماز پڑھائی دشمن قبلہ کی جانب تھے آپ نے اپنے پیچھے مسلمانوں کی دو صفیں بنا دیں آپ نے اللہ اکبر کہا تو سب نے آپ کے ساتھ اللہ اکبر کہا پھر آپ نے رکوع کیا تو سب نے آپ کے ساتھ رکوع کیا جب آپ نے سجدہ کیا تو اس صف نے آپ کے ساتھ سجدہ کیا جو آپ کے ساتھ تھی وہ لوگ کھڑے رہے جو آپ کے پیچھے تھے دشمن کے سامنے جب رسول اللہ ﷺ اپنے سجدے سے فارغ ہوئے تو کھڑے ہوگئے دوسری صف والوں نے سجدہ کیا پھر وہ بھی کھڑے ہوگئے اور یہ صف پیچھے ہٹ گئی جو آپ کے ساتھ تھی اور دوسری صف آگے آگئی اب یہ رسول اللہ ﷺ کے قریب تھے آپ نے رکوع کیا تو آپ کے ساتھ سب نے رکوع کیا پھر آپ اٹھے تو آپ کے ساتھ سب اٹھ گئے پھر آپ نے سجدہ کیا تو ان لوگوں نے سجدہ کیا جو آپ کے قریب تھے اور دوسری صف دشمن کے سامنے کھڑی رہی جب رسول اللہ ﷺ فارغ ہوئے اپنے سجدوں سے تو بیٹھ گئے اور وہ لوگ بھی بیٹھ گئے جو آپ کے قریب تھے اور پیچھے والی صف نے سجدہ کیا پھر وہ بھی بیٹھ گئے اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سجدہ کیا جب رسول اللہ ﷺ نے سلام پھیرا تو سب نے سلام پھیرا جب ان کو مشرکوں نے دیکھا کہ بعض ان کے سجدہ کر رہے تھے اور بعض کھڑے ہوئے ہیں تو کہنے لگے کہ ان کو خبر دے دی گئی جو ہم نے ارادہ کیا۔ (20) ابن ابی شیبہ نے ابو العالیہ الریاحی (رح) سے روایت کیا کہ ابو موسیٰ اشعری ؓ اصبہان کے علاقہ میں دار کے مقام پر تھے اس دن ان کو زیادہ خوف نہ تھا لیکن وہ اس بات کو محبوب رکھتے تھے کہ لوگوں کو ان کا دین اور ان کے نبی کی سنت سکھائیں انہوں نے دو صفیں بنا دیں ایک جماعت کے پاس اسلحہ تھا اور وہ اپنے دشمن کے سامنے تھے اور دوسری جماعت ان کے پیچھے تھی ان لوگوں کو نماز پڑھائی ایک رکعت جو ان سے ملے ہوئے تھے پھر یہ لوگ اپنے پیچھے چلے گئے یہاں تک کہ دوسرے لوگوں کی جگہ پر کھڑے ہوگئے اور دوسری جماعت آئی یہاں تک کہ ان کے پیچھے کھڑی ہوگئی انہوں نے اس کو بھی ایک رکعت پڑھائی پھر سلام پھیرا وہ لوگ کھڑے ہوگئے جو آپ کے پیچھے تھے اور دوسرے لوگ بھی کھڑے ہوگئے سب نے ایک رکعت پڑھی اور ان کے بعض نے بعض کو سلام کیا تو امام کے لئے دو رکعتیں پوری ہوئی اور لوگوں کی ایک ایک رکعت۔ (21) ابن ابی شیبہ وابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ عسفان میں تھے اور مشرک صجنان میں تھے جب رسول اللہ ﷺ نے ظہر کی نماز پڑھی اور آپ نے رکوع اور سجدہ کیا تو انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ ان پر حملہ کردیں جب عصر کی نماز کا وقت ہو اتو لوگوں نے آپ کے پیچھے دو صفیں بنائیں آپ نے اللہ اکبر کہا تو سب نے اللہ اکبر کہا آپ نے رکوع کیا تو سب نے رکوع کیا آپ نے سجدہ کیا تو ایک صف والوں نے بھی سجدہ کیا جو آپ کے پیچھے تھی اور دوسری صف کھڑی رہی اپنے ہتھیارون کے ساتھ دشمن کے سامنے۔ جب نبی ﷺ نے سر اٹھایا تو دوسری صف والوں نے سجدہ کیا جب انہوں نے اپنے سروں کو اٹھایا تو آپ نے رکوع کیا تو سب نے اکٹھے رکوع کیا اور آپ نے سجدہ کیا تو اس صف والوں نے سجدہ کیا جو آپ کے پیچھے تھی اور دوسری صف کھڑی رہی اپنے ہتھیاروں کے ساتھ دشمن کے سامنے جب نبی ﷺ نے اپنے سر کو اٹھایا تو صف والوں نے بھی سجدہ کیا مجاہد نے فرمایا ان کی تکبیر ان کا رکوع اور ان کا سلام اکٹھے تھے جبکہ انہوں نے سجدوں میں بھی صفوں کو باندھے رکھا مجاہد (رح) نے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے اس دن سے پہلے اور نہ اس کے بعد خوف کی نماز پڑھی۔ (22) ابن ابی شیبہ نے علی ؓ سے روایت کیا کہ میں نے نبی ﷺ کے ساتھ خوف کی نماز پڑھی دو دو رکعت مگر مغرب کی نماز وہ تین رکعت پڑھی۔ (23) عبد الرزاق نے مجاہد (رح) سے روایت کیا نبی ﷺ نے اپنے اصحاب کو ظہر کی نماز پڑھائی خوف کی نماز (کا حکم) نازل ہونے سے پہلے تو مشرکین نے افسوس کیا کہ ہم نے ان پر حملہ کیوں نہیں کیا ان کو ایک آدمی نے کہا کہ سورج غروب ہونے سے پہلے ان کی ایک اور نماز ہوگی جو ان کے نزدیک ان کی جانوں سے بھی زیادہ محبوب ہے تو انہوں نے کہا اگر اس کے بعد ان لوگوں نے نماز پڑھی تو ہم ان پر حملہ کردیں گے تو وہ اس نماز کا انتظار کرنے لگے تو (اس پر) خوف کی نماز (کا حکم) نازل ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے ہم کو عصر کی نماز خوف کی نماز کی صورت میں پڑھائی۔ (24) ابن ابی شیبہ وابن جریر نے ابو الزبیر کے طریق سے جابر ؓ سے روایت کہ میں نبی ﷺ کے ساتھ تھا نخل کے مقام پر ہم مشرکین سے ملے وہ ہمارے اور قبلہ کے درمیان تھے ظہر کی نماز کا وقت ہوا تو ہم سب کو رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھائی جب ہم فارغ ہوئے تو مشرکین نے مشورہ کیا اور کہنے لگے اگر ہم ان کی نماز پڑھنے میں حملہ کردیتے (تو اچھا تھا) ان کے بعض نے کہا ان کی ایک اور نماز ہے جو ابھی آئے گی جس کا وہ انتظار کر رہے ہیں وہ نماز ان کو اپنے بیٹوں سے بھی زیادہ محبوب ہے جب وہ نماز پڑھیں گے تو ان پر حملہ کردینا جبرئیل رسول اللہ ﷺ پر یہ خبر لے کر تشریف لائے اور ان کو سکھایا کہ وہ کس طرح نماز پڑھیں جب عصر کا وقت ہوا تو نبی ﷺ دشمن کی جانب کھڑے ہوئے اور ہم آپ کے پیچھے کھڑے ہوگئے دو صفوں میں اللہ کے نبی ﷺ نے اللہ اکبر کہا تو ہم سب نے اللہ اکبر کہا پھر اسی طرح روایت نقل کی۔ (25) البزار (رح) نے علی ؓ سے نبی ﷺ سے خوف کی نماز کے بارے میں روایت کیا کہ آپ نے لوگوں کو حکم فرمایا کہ اپنے ہتھیار لے لو ایک جماعت آپ کے پیچھے دشمن کے سامنے کھڑی ہوگئی اور ایک جماعت آئی انہوں نے آپ کے ساتھ نماز پڑھی ان کو آپ نے ایک رکعت پڑھائی پھر یہ لوگ جا کر اس جماعت کی جگہ پر کھڑے ہوئے جنہوں نے نماز نہیں پڑھی تھی اب یہ جماعت آئی جنہوں نے آپ کے ساتھ نماز نہیں پڑھی تھی یہ لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہوگئے آپ نے ان کو بھی ایک رکعت پڑھائی اور دو سجدے کئے پھر آپ نے سلام پھیردیا جب آپ نے سلام پھیرا تو وہ لوگ بھی کھڑے ہوگئے جو دشمن کے سامنے تھے تو سب نے تکبیر پڑھی اور سب نے ایک رکعت پڑھی اور دو سجدے کئے جبکہ رسول اللہ ﷺ پھیر چکے تھے۔ (26) احمد (رح) نے جابر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے خوف کی نماز سے پہلے چھ جنگیں لڑیں اور خوف کی نماز ساتویں سال پڑھی گئی۔ مسلح ہو کر نماز ادا کرنا (27) ابن جریر (رح) نے عوفی کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واذا کنت فیہم فاقمت لہم الصلوۃ “ سے لے کر ” فلیصلوا معک “ سے مراد ہے کہ جب ایک جماعت ان میں سے اپنا اسلحہ رکھتی تو وہ دشمن کے سامنے رہتی تھی اور دوسری جماعت امام کے ساتھ ایک رکعت پڑھتی تھی۔ پھر وہ ہتھیار اٹھا لیتے تھے اور دشمن کے سامنے چلے جاتے تھے ان کے دوسرے ساتھ لوٹ کر آئے اور وہ بھی امام کے ساتھ ایک رکعت پڑھتے تھے تو امام کی دو رکعت ہوتی تھی اور سب لوگون کی ایک رکعت پھر وہ ایک رکعت کی قضا کرتے اور اس طرح ان کی نماز پوری ہوجاتی۔ (28) ابن جریر (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا لفظ آیت ” فاذا سجدوا “ سے مراد ہے کہ جب ایک جماعت سجدہ کرلیتی تھی جو آپ کے ساتھ کھڑی ہوئی تھی آپ کی نماز میں تو وہ آپ کے ساتھ نماز پڑھتے اور اپنے سجدوں سے فارغ ہوجاتے (پھر فرمایا) ” فلیکونوا من ورائکم “ یعنی ان کو چاہئے کہ وہ اپنے سجدوں سے فارغ ہونے کے بعد دشمن کے سامنے اس جگہ انتظار کریں جہاں باقی جماعت ہے۔ جنہوں نے آپ کے ساتھ نماز پڑھی۔ (29) بخاری و نسائی وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم وحاکم و بیہقی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ان کان بکم اذی من مطر او کنتم مرضی “ یہ آیت عبد الرحمن بن عوف کے بارے میں نازل ہوئی جو زخمی تھے۔ (30) ابن المنذر وابن ابی حاتم نے مقاتل بن حتان (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ اس حال میں ہتھیاروں کو رکھ دینے کی رخصت دی گئی اور ان کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنا بچاؤ کرلیں اور ” عذابا مھینا “ سے ذلت والا عذاب مراد ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے اس قول ” فاذا قضیتم الصلوۃ “ کے بارے میں فرمایا کہ خوف کی نماز کے بعد ” فاذکروا اللہ “ اللہ کا ذکر کرو زبان کے ساتھ ” فاذا اطماننتم “ یعنی جب تم کو اطمینان حاصل ہوجائے۔ (31) ابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فاذکروا اللہ قیما وقعودا وعلی جنوبکم “ یعنی اللہ تعالیٰ کو یاد کرو رات کو دن کو خشکی میں تری میں سفر میں حضر میں مالداری میں فقیری میں بیماری میں صحت میں اور چھپے ہوئے اور علانیہ طور پر گویا ہر حال میں (اللہ کی یاد میں لگے رہو) ۔ (32) ابن ابی شیبہ نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ ان کو یہ بات پہنچی کہ ایک جماعت اللہ تعالیٰ کو کھڑے ہو کر یاد کرتی ہے وہ ان کے پاس آئے اور کہا یہ کیا ہے انہوں نے کہا ہم نے سنا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں لفظ آیت ” فاذکروا اللہ قیما وقعودا وعلی جنوبکم “ آپ نے فرمایا اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب آدمی کھڑے ہو کر نماز نہ پڑھ سکے تو بیٹھ کر پڑھے۔ (33) ابن جریر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ ” فاذا اطماننتم “ سے مراد ہے جب تم نکلو سفر کے گھر سے امامت کے گھر کی طرف ” فاقیموا الصلوۃ “ یعنی نماز کو پورا کرو۔ (34) عبد الرزاق وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فاذا اطماننتم “ یعنی جب تم اپنے شہروں میں مقیم ہوجاؤ تو اپنی نماز کو پورا کرو۔ (35) عبد بن حمید وابن المنذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فاذا اطماننتم “ سے مراد ہے جب تم امن میں ہوجاؤ تو ” فاقیموا الصلوۃ “ تو اس کو پورا کرو۔ (36) ابن المنذر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ ” فاذا اطماننتم “ سے مراد ہے جب تم امن میں ہو تو ” فاقیموا الصلوۃ “ یعنی اس کو پورا کرو۔ (37) ابن المنذر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فاذا اطماننتم “ کہ جب تم اپنے شہروں میں قیام کرلو۔ (38) ابن ابی حاتم نے ابو العالیہ (رح) سے روایت کیا کہ ” فاذا اطماننتم “ یعنی جب تم نازل ہوجاؤ (کسی جگہ پر) ۔ (39) ابن جریر وابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ ” فاذا اطماننتم “ یعنی خوف کے بعد اطمینان ہوجائے۔ (40) ابن جریر نے ابن زید (رح) سے ” فاذا اطماننتم فاقیموا الصلوۃ “ کے بارے میں روایت کیا جب تم کو اطمینان ہوجائے تو نماز پڑھ لو پھر نہ نماز پڑھو سوار ہو کر نہ پیدل چلتے ہوئے اور نہ بیٹھے ہوئے۔ (41) ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ان الصلوۃ کانت علی المؤمنین کتبا موقوتا “ میں موقوت کا معنی ہے واجب۔ (42) ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ الموقوت سے مراد ہے واجب ہونا۔ (43) عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ ” کتبا موقوتا “ سے مراد ہے فرض ہونا۔ (44) عبد بن حمید وابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ ” کتبا موقوتا “ سے مراد ہے فرض اور واجب۔ (45) عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر نے حسن (رح) سے روایت کہ ” کتبا موقوتا “ سے مراد ہے لکھا ہوا ہے واجب۔ (46) عبد الرزاق وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ ” ان الصلوۃ کانت علی المؤمنین کتبا موقوتا “ کے بارے میں ابن مسعود ؓ نے فرمایا کہ نماز کے لئے وقت مقرر ہے جیسے حج کا وقت مقرر ہے۔ (47) ابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے زید بن اسلم (رح) سے اللہ تعالیٰ کے اس قول ” ان الصلوۃ کانت علی المؤمنین کتبا موقوتا “ کے بارے میں روایت کیا کہ موقوت کا معنی منجم ہے جب ایک مقرر وقت گزر جاتا ہے تو دوسرا آجاتا ہے اور فرمایا کہ جب ایک وقت گزر گیا تو دوسرا آگیا۔ امامت جبرئیل کا تذکرہ (48) عبد الرزاق واحمد وابن ابی شیبہ وابو داؤد و ترمذی (نے اس کو حسن کہا) اور ابن خزیمہ وحاکم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جبرئیل (علیہ السلام) میرے امام بنے بیت اللہ کے پاس دو مرتبہ مجھے ظہر کی نماز پڑھائی جب سورج زائل ہوا جب کہ اس کا سایہ تسمے کے برابر تھا اور مجھ کو عصر کی نماز پڑھائی جب ہر چیز کا سایہ ایک مثل تھا اور مجھ کو مغرب کی نماز پڑھائی جب روزہ دار افطار کرتا ہے اور مجھ کو عشاء کی نماز پڑھائی جب شفق غائب ہوگئی اور مجھ کو فجر کی نماز پڑھائی جب کھانا اور پینا روزہ دار پر حرام ہوجاتا ہے اور پھر اگلے دن مجھ کو ظہر کی نماز پڑھائی، جب ہر چیز کا سایہ ایک مثل ہوگیا اور مجھ کو عصر کی نماز پڑھائی، جب ہر چیز کا سایہ دو مثل ہوگیا اور مجھ کو مغرب کی نماز پڑھائی جب روزہ دار افطار کرتا ہے اور مجھ کو عشاء کی نماز پڑھائی تہائی رات کے گزرنے پر اور مجھ کو فجر کی نماز پڑھائی جب سفیدی ہوگئی پھر میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا اے محمد ﷺ یہ وقت آپ سے پہلے دوسرے انبیاء کا وقت تھا ان دو وقتوں کے درمیان نمازوں کا وقت ہے۔ (49) ابن ابی شیبہ واحمد و ترمذی نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نماز کے لئے پہلا وقت بھی ہے اور دوسرا وقت بھی ہے ظہر کا پہلا وقت جب سورج زائل ہوجائے اور اس کا دوسرا وقت جب عصر کا وقت داخل ہوجائے اور عصر کا پہلا وقت جب عصر کا وقت داخل ہوجائے اور اس کا آخری وقت جب سورج زرد پڑجائے اور مغرب کا پہلا وقت جب سورج غروب ہوجائے اور اس کا آخری وقت جب شفق غائب ہوجائے اور عشاء کا پہلا وقت جب شفق غائب ہوجائے اور اس کا آخری وقت جب آدھی رات گزر جائے اور فجر کا پہلا وقت جب فجر طلوع ہوجائے اور اس کا آخری وقت جب بھی سورج طلوع ہوجائے۔
Top