Tafseer-e-Mazhari - An-Nisaa : 102
وَ اِذَا كُنْتَ فِیْهِمْ فَاَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلٰوةَ فَلْتَقُمْ طَآئِفَةٌ مِّنْهُمْ مَّعَكَ وَ لْیَاْخُذُوْۤا اَسْلِحَتَهُمْ١۫ فَاِذَا سَجَدُوْا فَلْیَكُوْنُوْا مِنْ وَّرَآئِكُمْ١۪ وَ لْتَاْتِ طَآئِفَةٌ اُخْرٰى لَمْ یُصَلُّوْا فَلْیُصَلُّوْا مَعَكَ وَ لْیَاْخُذُوْا حِذْرَهُمْ وَ اَسْلِحَتَهُمْ١ۚ وَدَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْ تَغْفُلُوْنَ عَنْ اَسْلِحَتِكُمْ وَ اَمْتِعَتِكُمْ فَیَمِیْلُوْنَ عَلَیْكُمْ مَّیْلَةً وَّاحِدَةً١ؕ وَ لَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ اِنْ كَانَ بِكُمْ اَذًى مِّنْ مَّطَرٍ اَوْ كُنْتُمْ مَّرْضٰۤى اَنْ تَضَعُوْۤا اَسْلِحَتَكُمْ١ۚ وَ خُذُوْا حِذْرَكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ اَعَدَّ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابًا مُّهِیْنًا
وَاِذَا : اور جب كُنْتَ : آپ ہوں فِيْهِمْ : ان میں فَاَقَمْتَ : پھر قائم کریں لَھُمُ : ان کے لیے الصَّلٰوةَ : نماز فَلْتَقُمْ : تو چاہیے کہ کھڑی ہو طَآئِفَةٌ : ایک جماعت مِّنْھُمْ : ان میں سے مَّعَكَ : آپ کے ساتھ وَلْيَاْخُذُوْٓا : اور چاہیے کہ وہ لے لیں اَسْلِحَتَھُمْ : اپنے ہتھیار فَاِذَا : پھر جب سَجَدُوْا : وہ سجدہ کرلیں فَلْيَكُوْنُوْا : تو ہوجائیں گے مِنْ وَّرَآئِكُمْ : تمہارے پیچھے وَلْتَاْتِ : اور چاہیے کہ آئے طَآئِفَةٌ : جماعت اُخْرٰى : دوسری لَمْ يُصَلُّوْا : نماز نہیں پڑھی فَلْيُصَلُّوْا : پس وہ نماز پڑھیں مَعَكَ : آپ کے ساتھ وَلْيَاْخُذُوْا : اور چاہیے کہ لیں حِذْرَھُمْ : اپنا بچاؤ وَاَسْلِحَتَھُمْ : اور اپنا اسلحہ وَدَّ : چاہتے ہیں الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) لَوْ تَغْفُلُوْنَ : کہں تم غافل ہو عَنْ : سے اَسْلِحَتِكُمْ : اپنے ہتھیار (جمع) وَ : اور اَمْتِعَتِكُمْ : اپنے سامان فَيَمِيْلُوْنَ : تو وہ جھک پڑیں (حملہ کریں) عَلَيْكُمْ : تم پر مَّيْلَةً : جھکنا وَّاحِدَةً : ایک بار (یکبارگی) وَلَا : اور نہیں جُنَاحَ : گناہ عَلَيْكُمْ : تم پر اِنْ : اگر كَانَ : ہو بِكُمْ : تمہیں اَذًى : تکلیف مِّنْ مَّطَرٍ : بارش سے اَوْ كُنْتُمْ : یا تم ہو مَّرْضٰٓى : بیمار اَنْ تَضَعُوْٓا : کہ اتار رکھو اَسْلِحَتَكُمْ : اپنا اسلحہ وَخُذُوْا : اور لے لو حِذْرَكُمْ : اپنا بچاؤ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ اَعَدَّ : تیار کیا لِلْكٰفِرِيْنَ : کافروں کے لیے عَذَابًا : عذاب مُّهِيْنًا : ذلت والا
اور (اے پیغمبر) جب تم ان (مجاہدین کے لشکر) میں ہو اور ان کو نماز پڑھانے لگو تو چاہیئے کہ ان کی ایک جماعت تمہارے ساتھ مسلح ہو کر کھڑی رہے جب وہ سجدہ کرچکیں تو پرے ہو جائیں پھر دوسری جماعت جس نے نماز نہیں پڑھی (ان کی جگہ) آئے اور ہوشیار اور مسلح ہو کر تمہارے ساتھ نماز ادا کرے کافر اس گھات میں ہیں کہ تم ذرا اپنے ہتھیاروں اور سامان سے غافل ہو جاؤ تو تم پر یکبارگی حملہ کردیں اگر تم بارش کے سبب تکلیف میں یا بیمار ہو تو تم پر کچھ گناہ نہیں کہ ہتھیار اتار رکھو مگر ہوشیار ضرور رہنا خدا نے کافروں کے لئے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے
واذا کنت فیہم اور جب آپ ان میں موجود ہوں اور دشمن کا خوف ہو۔ دشمن کا خوف ہونے کی قیدباجماع علماء اس جگہ ضروری ہے اور اِنْ خِفْتُمْکو اگر مابعد کلام سے مربوط مانا جائے تب تو قرینہ بھی موجود ہوگا۔ اس صورت میں ہوسکتا ہے کہ ان خفتم پر اس کا عطف ہو اور دونوں شرطوں کا مجموعہ صلوٰۃِ خوف کے لئے ضروری ہو یعنی اگر دشمن کا خوف ہو اور مجاہدین کے ساتھ رسول اللہ ﷺ بھی موجود ہوں تو صلوٰۃِ خوف پڑھی جائے (اگر دشمن کا خوف نہ ہو یا رسول اللہ ﷺ وہاں موجود نہ ہوں تو صلوٰۃ خوف کا جواز نہیں) اسی ظاہر کلام کے پیش نظر امام ابو یوسف (رح) نے فرمایا کہ صلوٰۃ خوف رسول اللہ ﷺ کے لئے خاص تھی (دوسروں کے لئے جائز نہیں) مگر جمہور علماء کا قول ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد بھی صلوٰۃِ خوف کا ضابطہ جاری ہے۔ تمام خلفاء اسلام رسول اللہ ﷺ کے نائب ہیں ‘ ہر زمانہ میں کسی خلیفہ کی موجودگی رسول اللہ ﷺ کی موجودگی کے قائم مقام ہے۔ قرآن کا طرز خطاب عموماً یہی ہے کہ مراد تمام امت کو خطاب کرنا ہوتا ہے مگر روئے خطاب رسول اللہ ﷺ کی طرف کیا جاتا ہے جیسے لاَ تَکُ فِیْ مِرْیَۃٍ مِّنْہُ (ظاہر ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو تو کوئی شک ہو نہیں سکتا تھا لامحالہ مراد امت کو ہی خطاب کرنا ہے) ۔ رسول اللہ ﷺ کے بعد تمام صحابہ ؓ نے صلوٰۃ خوف پڑھی اور کسی نے کسی کے خلاف اعتراض نہیں کیا لہٰذا نماز خوف کے جواز پر اجماع ہوگیا۔ ابو داؤد کی روایت ہے کہ مجاہدین نے حضرت عبدالرحمن ؓ بن سمرہ کی ہمراہی میں کابل کا جہاد کیا آپ نے سب کو صلوٰۃ خوف پڑھائی۔ ابو داؤد کی روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ صفین کی جنگ کے دن حضرت علی ؓ نے صلوٰۃ خوف پڑھی۔ رافعی نے ذکر کیا ہے کہ لیلۃ الہریر (جنگ جمل کی رات کو) مغرب کی نماز حضرت علی ؓ نے صلوٰۃ خوف کی طرح پڑھائی پہلے گروہ کے ساتھ ایک رکعت اور دوسرے گروہ کے ساتھ دو رکعتیں پڑھیں۔ بیہقی نے امام جعفر ؓ کی روایت سے بحوالۂ امام زین ؓ العابدین بوساطت امام حسین ؓ بیان کیا کہ حضرت علی ؓ نے لیلۃ الہریر میں مغرب کی صلوٰۃ خوف پڑھی۔ امام شافعی (رح) کی روایت میں بھی آیا ہے کہ حضرت علی ؓ نے لیلۃ الہریر میں مغرب کی صلوٰۃ خوف پڑھی۔ اسی طرح جس طرح رسول اللہ ﷺ نے (بروایت صالح بن خوات) پڑھی تھی بیہقی نے ابوالعالیہ سے روایت کی ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے اصفہان میں صلوٰۃ خوف پڑھی۔ بیہقی نے یہ بھی بیان کیا کہ مجوسیوں کی جنگ کے وقت طبرستان میں حضرت سعد ؓ بن ابی وقاص نے صلوٰۃ خوف پڑھی ‘ اس وقت آپ کے ساتھ حضرت حسن ؓ بن علی ؓ و حضرت حذیفہ ؓ بن یمان اور عبداللہ بن عمرو ؓ بن العاص بھی تھے۔ ابو داؤد اور نسائی نے ثعلبہ بن زہرم کے طریق سے بیان کیا کہ ہم حضرت سعید بن العاص کے ساتھ تھے۔ آپ نے پوچھا تم میں سے کس نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ صلوٰۃ خوف پڑھی ہے۔ حضرت حذیفہ ؓ نے فرمایا میں نے چناچہ آپ نے ایک گروہ کے ساتھ ایک رکعت اور دوسرے گروہ کے ساتھ دوسری رکعت پڑھی۔ فاقمت لہم اصلوۃ اور ان کو آپ نماز پڑھائیں۔ فلتہم طآئفۃ منہم معک تو ان کا ایک گروہ آپ کے ساتھ (نماز میں) کھڑا ہو یعنی کل نمازیوں کے دو گروہ بنا لیں ایک گروہ آپ کے ساتھ کھڑا ہوجائے اس کو آپ نماز پڑھانا شروع کردیں۔ ولیاخذوا اسلحتہم اور یہ گروہ اپنے اسلحہ (اپنے ساتھ) لئے رہے امام مالک نے کہا صلوٰۃِخوف میں اسلحہ (نماز کے اندر) اپنے ساتھ رکھنا واجب ہے امام شافعی (رح) : کا بھی ایک قول یہی ہے لیکن اکثر علماء کے نزدیک امر استحباب کے لئے ہے (نماز کے اندر اپنے اسلحہ ساتھ رکھنا مستحب ہے) فاذا سجدوا . پھر جب یہ گروہ سجدہ کرچکے یعنی ایک رکعت امام کے ساتھ پوری کرلے سجدہ سے نماز بھی مراد ہو سکتی ہے جز بول کر کل مراد لیا جاسکتا ہے یعنی جب یہ گروہ پوری نماز پڑھ لے۔ فلیکونوا من ورآئکم تو تمہارے پیچھے چلا جائے یعنی تم سب کے پیچھے دشمن کے سامنے چلا جائے۔ ولتات طآئفۃ اخری لم یصلوا اور (ان کی جگہ) دوسرا گروہ آجائے جس نے نماز نہیں پڑھی ہو۔ فلیصلوا معک . اور آپ کے ساتھ نماز پڑھے یعنی پوری نماز یا دوسری رکعت۔ ولیاخذوا حذرہم واسلحتہم اور یہ بھی اپنے بچاؤ کا سامان اور اپنے اسلحہ لئے رہے۔ بچاؤ کے سامان سے مراد ہے دشمن کے حملہ سے بچنے کا سامان جیسے زرہ ڈھال اور اسلحہ سے مراد ہیں لڑائی کے ہتھیار جن سے لڑا جاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی صلوٰۃ خوف کا طریقہ چند طور پر روایات میں آیا ہے۔ (1) ابو عیاش ؓ زرقی اور جابر ؓ بن عبداللہ کی روایت سے پہلے گزر چکا ہے یہ صورت عسفان میں ہوئی تھی اور دشمن مسلمانوں کے اور قبلہ کے درمیان حائل تھا۔ شیخین نے صحیحین میں حضرت جابر ؓ کی روایت سے لکھا ہے حضرت جابر ؓ نے فرمایا ہم رسول اللہ ﷺ کے ہم رکاب چلے جب ذات الرقاع میں پہنچے۔ اس روایت میں آیا ہے۔ تو رسول اللہ نے ایک گروہ کو دو رکعتیں پڑھائیں پھر یہ گروہ پیچھے ہٹ آیا اور حضور ﷺ نے دوسرے گروہ کو دو رکعتیں پڑھائیں اس طرح رسول اللہ ﷺ : کی چار اور دوسرے لوگوں کی دو دو رکعتیں ہوئیں۔ اس حدیث کا مطلب دو طرح ہوسکتا ہے۔ ایک یہ کہ حضور ﷺ نے چار رکعتیں ایک ہی سلام سے ادا کیں اور دونوں گروہوں میں سے ہر گروہ نے دو دو رکعتیں پڑھیں۔ دوسرا مطلب یہ کہ حضور ﷺ نے دو رکعت پڑھ کر ایک گروہ کے ساتھ سلام پھیر دیا پھر دوسرے گروہ کو دو رکعتیں پڑھائیں اور ان کے ساتھ سلام پھیرا یہ آخری صورت حضرت جابر ؓ کی راویت میں صراحت کے ساتھ بھی آئی ہے کہ بطن نخل میں ‘ رسول اللہ ﷺ : لوگوں کو ظہر کی صلوۃ خوف پڑھا رہے تھے پہلے گروہ کو دو رکعت پڑھا کر سلام پھیر دیا ‘ پھر دوسرا گروہ آیا اور آپ ﷺ نے اس کو دو رکعتیں پڑھائیں یہ روایت بغوی نے بطریق شافعی بیان کی ہے۔ اس روایت میں شافعی کے راوی کا نام معلوم نہیں لیکن شافعی نے ان کو معتمد کہا تھا۔ چناچہ فرمایا تھا مجھے ایک ثقہ نے۔ ابو علیہ تھے یا کوئی اور بتایا۔ ابن جوزی نے دارقطنی کے طریق سے بوساطت عنبسہ بحوالۂ حسن حضرت جابر ؓ کی یہ روایت بیان کی ہے اور اس کو غیر صحیح کہا ہے یحییٰ بن معین نے عنبسہ کے متعلق فرمایا یہ کچھ نہیں ہے۔ نسائی نے اس کو متروک اور ابو حاتم نے حدیثیں بنانے والا کہا ہے۔ یہ حدیث ابو داؤد ابن حبان حاکم اور دارقطنی نے ابوبکرہ کی روایت سے بیان کی ہے ابو داؤد اور ابن حبان کی روایت میں اس کو ظہر کی نماز کہا گیا ہے اور دارقطنی کی روایت میں مغرب کی۔ ابن قطان نے کہا یہ روایت معلل ہے کیونکہ حضرت ابوبکرہ ؓ صلوٰۃ خوف کے وقوع کے بعد مسلمان ہوئے تھے۔ حافظ نے کہا اس سے روایت معلل نہیں ہوتی ‘ مرسل صحابی ہوجائے گی (جو مقبول ہے) (3) شیخین نے صالح بن خوات کی روایت سے ایسے شخص کا بیان کیا ہے جس نے ذات الرقاع کے دن رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی تھی۔ بخاری نے دوسری سند سے صالح بن خوات کے راوی کا نام سہیل بن ابی حثمہ لکھا ہے۔ سہیل کا بیان ہے کہ ایک گروہ نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ صف باندھی اور دوسرا گروہ دشمن کے سامنے رہا۔ حضور ﷺ نے اس گروہ کے ساتھ ایک رکعت پڑھی پھر جمے کھڑے رہے اور ان لوگوں نے اپنی نماز (یعنی باقی رکعت پوری کی پھر فارغ ہو کر دشمن کے سامنے پہنچ کر صفت بستہ ہوگئے اور دوسرا گروہ آگیا اس کو حضور ﷺ نے اپنی نماز کی باقی رکعت پڑھائی پھر (بغیر سلام پھیرے) اپنی جگہ جمے بیٹھے رہے اور ان لوگوں نے اپنی باقی نماز پوری کی پھر حضور ﷺ کے ساتھ سب نے سلام پھیرا۔ (4) ترمذی اور نسائی نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ضحنان اور عسفان کے درمیان پڑاؤ کیا۔ مشرکوں نے کہا ان (مسلمانوں) کی ایک نماز ہے جو ان کو ماں باپ اور اوّلاد سے بھی زیادہ پیاری ہے یہ عصر کی نماز ہے اس لئے پوری قوت جمع کر کے (نماز کے اندر) ان پر یکدم حملہ کردینا ادھر حضرت جبرئیل ﷺ رسول اللہ ﷺ کے پاس (مشرکوں کے ارادہ کی اطلاع لے کر) آگئے اور حضور ﷺ کو مشورہ دیا کہ ساتھیوں کے دو حصے کر کے ایک حصہ کو نماز پڑھائی اور دوسرا حصہ نماز پڑھنے والوں کے پیچھے کھڑا رہے اور بچاؤ کا سامان اور اسلحہ لئے رہے اس طرح ہر گروہ کی ( رسول اللہ ﷺ کے ساتھ) ایک رکعت ہوگی اور آپ کی دو رکعتیں ہوجائیں گی۔ اسی طرح بغوی نے بھی لکھا ہے کہ حضرت حذیفہ ؓ : کی روایت سے رسول اللہ ﷺ : کی صلوٰۃ خوف کی یہی صورت منقول ہے کہ حضور ﷺ نے ایک گروہ کو ایک رکعت پڑھائی اور دوسرے گروہ کو دوسری اور انہوں نے بقیہ نماز نہیں پڑھی۔ بغوی نے لکھا ہے کہ حضرت زید ؓ بن ثابت کی روایت میں آیا ہے کہ قوم کی ایک ایک رکعت ہوئی اور رسول اللہ ﷺ کی دو علماء نے اس کو شدت خوف کے وقت کی نماز کہا ہے اور صراحت کی ہے کہ ایسی حالت میں ایک ہی رکعت فرض ہے۔ (5) بخاری نے صحیح میں سالم بن عمر ؓ کی وساطت سے حضرت عمر ؓ کا بیان نقل کیا ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نجد کی جانب جہاد کو گیا اور دشمن کے مقابلہ پر ہم نے صف بندی کی (نماز کا وقت آگیا تو) رسول اللہ ﷺ ہم کو نماز پڑھانے کھڑے ہوگئے چناچہ ایک گروہ آپ کے ساتھ نماز کو کھڑا ہوگیا اور دوسرا گروہ دشمن کے سامنے رہا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس گروہ کے ساتھ رکوع اور دو سجدے کئے پھر یہ گروہ لوٹ کر اس گروہ کی جگہ پہنچ گیا جس نے نماز نہیں پڑھی تھی اور وہ گروہ آگیا۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کو بھی لے کر ایک رکعت پڑھی اور دو سجدے کئے پھر سلام پھیر دیا اور مقتدیوں میں سے ہر شخص کھڑا ہوگیا اور ایک رکعت پڑھی اور دو سجدے کئے۔ نافع کی روایت بھی اسی طرح آئی ہے۔ اس روایت میں اتنا زائد ہے کہ اگر اس سے زیادہ خوف ہو تو نماز ادا کرو پیدل ہو سوار ہو قبلہ رخ ہو یا قبلہ رخ نہ ہو۔ نافع نے کہا میرے خیال میں حضرت ابن عمر ؓ نے (ازخود) بغیر رسول اللہ ﷺ کے فرمائے ہوئے ایسا نہیں کہا۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے صلوٰۃ خوف کی صورتوں میں سے اسی آخری صورت کو اختیار کیا ہے باقی صورتوں کو جائز نہیں قرار دیا اور فرمایا دوسرا گروہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد دشمن کے سامنے چلا جائے اور پہلا گروہ آکر اوّل اپنی نماز پوری کرلے پھر دوسرا گروہ آکر اپنی نماز پوری کرے اور سلام پھیر دے کیونکہ امام محمد (رح) نے کتاب الآثار میں امام ابوحنیفہ (رح) کی روایت سے حضرت ابن عباس ؓ کا یہی قول نقل کیا ہے اور ایسے معاملہ میں حدیث موقوف مرفوع کی طرح ہوتی ہے اس لئے امام صاحب (رح) نے اس کے سوا کسی صورت کو جائز نہیں قرار دیا۔ دوسری صورت میں تو فرض پڑھنے والے کی اقتداء نفل پڑھنے والے کے پیچھے لازم آئے گی (جو درست نہیں کیونکہ قوی کی بناء ضعیف پر ناجائز ہے) اور تیسری صورت میں امام سے پہلے مقتدی کا رکوع اور سجدہ کرنا لازم آتا ہے جس کی کوئی نظیر شریعت میں نہیں ‘ اس کے علاوہ مقتدی کا انتظام امام کو کرنا تقاضائے امامت کے خلاف ہے۔ چوتھی صورت اجماعاً متروک العمل ہے علاوہ امام کے اور لوگ صرف ایک رکعت پڑھیں ایسا کسی کے نزدیک درست نہیں ‘ خوف سے رکعتوں کی تعداد کم نہیں ہوسکتی۔ رہی پہلی صورت جہاں دشمن قبلہ کے اور نمازیوں کے درمیان حائل تھا تو یہ ارشاد قرآنی کے خلاف ہے اللہ نے فرمایا ہے : فَلْتَقُمْ طَآءِفَۃٌ مِّنْہُمْ مَّعَکَاور اس صورت میں دونوں گروہ نماز میں کھڑے ہوں گے اور آگے ارشاد ہے : وَلْتَاْتِ طَآءِفَۃٌ اُخْرٰی لَمْ یُصَلُّوْا اور اس صورت میں کوئی گروہ ایسا رہے گا نہیں جس نے نماز نہ پڑھی ہو۔ امام شافعی (رح) ‘ امام مالک (رح) اور امام احمد (رح) کے نزدیک صلوٰۃ خوف کی جتنی صورتیں روایات میں آئی ہیں سب صحیح ہیں۔ اختلاف صرف ترجیح میں ہے (کہ راحج کون سی صورت ہے) امام احمد (رح) نے فرمایا سوائے ایک حدیث کے اس باب میں میرے علم میں اور کوئی صحیح حدیث نہیں آئی۔ وجوہ مذکورہ میں سے امام شافعی (رح) کے نزدیک راحج چار صورتیں ہیں اور امام احمد (رح) کے نزدیک تین۔ اگر نمازیوں کے اور قبلہ کے درمیان دشمن حائل ہو تو امام شافعی (رح) اور امام احمد (رح) دونوں کے نزدیک راحج وہی صورت ہے جو وجہ اوّل میں بیان کردی گئی۔ اگر جہت قبلہ کے علاوہ کسی دوسرے رخ پر نماز ہو تو امام شافعی (رح) کے نزدیک راحج یا دوسری صورت ہے جیسے حضور ﷺ نے بطن نخلہ میں نماز پڑھی تھی یا تیسری صورت ہے جیسے ذات الرقاع میں رسول اللہ ﷺ نے پڑھی ‘ دوسری صورت میں فرض پڑھنے والے کی اقتداء نفل پڑھنے والے کے پیچھے ضرور ہوجائے گی۔ مگر امام شافعی (رح) کے نزدیک یہ جائز ہے۔ امام احمد (رح) کے نزدیک شق مذکور میں تیسری صورت ہی متعین ہے۔ علماء نے کہا ہے کہ ظاہر قرآن کے یہی صورت زیادہ موافق ہے اور احتیاط صلوٰۃ بھی اس میں زیادہ ہے اور دشمن سے حفاظت بھی اس میں کامل ہے۔ کیونکہ قرآن میں آیا ہے : فَاِذَا سَجَدُوْا فَلْیَکُوْنُوْا مِنْ وَّرَآءِکُمْیعنی جب نماز پڑھ چکیں تو پیچھے چلے جائیں پھر فرمایا : وَلْتَاْتِ طَاءِفَۃٌ اُخْرٰی لَمْ یُصَلُّوْا اور دوسرا گروہ آجائے جس نے نماز نہ پڑھی ہو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلا گروہ نماز پڑھ چکا پھر فرمایا : فَلْیُصَلُّوْا مَعَکَپھر وہ نماز پڑھیں یعنی پوری نماز پڑھیں۔ ظاہر آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ امام کو چھوڑنے والا گروہ اس وقت جگہ سے ہٹے جب نماز پوری کرلے۔ نماز کے مناسب بھی یہی ہے کیونکہ نماز کا اقتضاء ہے کہ اس میں عمل کثیر اور چلنا نہ ہو۔ احتیاط کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ مجاہدین جب نماز میں نہ ہوں گے تو جنگ اور فرار پر پورے طور پر قادر ہوں گے بشرطیکہ اس کی ضرورت پڑے اور اگر گھمسان کا رن پڑے اور خوف زیادہ ہو تو پیدل سوار کسی حال میں ہی جدھر کو منہ اٹھے نماز پڑھے قبلہ رخ نہ ہونا اور نماز کے اندر حرکت کثیرہ کرنا اس حالت میں معاف ہے اگر رکوع اور سجدہ بھی نہ کرسکے تو اشارہ ہی سے کام لے رکوع کے لئے معمولی اشارہ اور سجدہ کے لئے گردن کا ذرا زیادہ جھکاؤ کافی ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک شدت خوف کے وقت نماز کے جواز کی دو ہی صورتیں ہیں یا قدموں پر کھڑا ہو کر یا سواری کی حالت میں مؤخر الذکر صورت میں اشارہ کرے گا۔ پیدل قتال کی حالت میں نماز نہیں ہوگی۔ عمل کثیر سے نماز فاسد ہوجائے گی۔ اس مسئلہ کی تحقیق سورة بقرہ کی آیت فَاِنْ خِفْتُمْ فَرِجاُلاً اَوْ رُکْبَانًاکی تفسیر کے ذیل میں ہوچکی ہے۔ فائدہ : حافظ نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی صلوٰۃ خوف کی 14 صورتیں روایات میں آئی ہیں جن کو ابن حزم نے جزء مفرد میں بیان کیا ہے ان میں سے صحیح مسلم میں بعض کا تذکرہ آیا ہے اور بیشتر کا ذکر سنن ابو داؤد میں کیا گیا ہے حاکم نے آٹھ اور ابن حبان نے نو صورتیں لکھی ہیں۔ مسئلہ : امام مالک کے علاوہ جمہور کے نزدیک حضر میں بھی صلوٰۃ خوف جائز ہے ہر گروہ کو دو رکعت پڑھائے البتہ مغرب میں پہلی جماعت کو اور دوسری جماعت کو ایک رکعت پڑھائے۔ ود الذین کفروا۔۔ کافر تمنا کرتے ہیں کہ کاش تم اپنے اسلحہ اور سامان کی طرف سے غافل ہو تو وہ سب تم پر یکدم ٹوٹ پڑیں۔ یہ ترجمہ لَو تمناء کا ہے لیکن لو مصدری بھی ہوسکتا ہے یعنی اگر تم غافل ہو تو وہ یکدم حملہ کردیں۔ نماز میں مسلح رہنے کے حکم کی یہ وجہ بیان کی گئی ہے۔ کلبی نے ابو صالح کے توسط سے حضرت ابن عباس ؓ کی روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ بنی محارب اور بنی انمار سے جہاد کرنے تشریف لے گئے۔ ایک جگہ پڑاؤ کیا وہاں دشمن کا کوئی آدمی نظر نہیں آتا تھا۔ لوگوں نے ہتھیار کھول دیئے اور رسول اللہ ﷺ بھی ہتھیار کھول کر قضائے حاجت کے لئے وادی کو قطع کر کے (پار) چلے گئے۔ بارش ہو رہی تھی ‘ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ ؓ کے درمیان وادی حائل ہوگئی۔ ایک درخت کے نیچے قضائے حاجت کے لئے بیٹھ گئے۔ غویرث بن حارث محاربی نے دور سے آپ کو دیکھ لیا کہنے لگے اللہ مجھے قتل کر دے اگر میں اس کو قتل نہ کر دوں پھر تلوار سونت کر پہاڑ سے نیچے آیا اور بولا محمد ﷺ ! اب تم کو میرے ہاتھ سے کون بچائے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ ! پھر دعا کی اے اللہ ! تو جس طرح چاہے مجھے غویرث بن حارث سے بچا۔ غویرث نے مارنے کے لئے رسول اللہ ﷺ کی طرف تلوار بڑھائی تھی کہ یکدم اس کے دونوں شانوں کے درمیان درد اٹھا اور درد کی وجہ سے منہ کے بل گرپڑا اور تلوار ہاتھ سے چھوٹ کر الگ جا پڑی۔ حضور نے فوراً اٹھ کر تلوار لے لی اور فرمایا غویرث اب تجھے میرے ہاتھ سے کون بچائے گا بولا کوئی نہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا کیا تو شہادت دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اس کا بندہ اور رسول ہے میں تیری تلوار تجھے دے دوں گا۔ بولا نہیں ہاں اس بات کی شہادت دیتا ہوں کہ تم سے جنگ کبھی نہیں کروں گا اور تمہارے خلاف کسی دشمن کی مدد نہیں کروں گا۔ رسول اللہ ﷺ نے تلوار دے دی۔ غویرث بولا خدا کی قسم تم مجھ سے بہتر ہو۔ حضور ﷺ نے فرمایا بیشک میں اس کا مستحق بھی تجھ سے زیادہ ہوں۔ غویرث چلا گیا۔ ساتھیوں کے پاس پہنچا تو انہوں نے پوچھا ارے تجھے کیا ہوگیا ‘ کس چیز نے تجھے روک دیا ‘ بولا میں نے مارنے کے لئے اس کی طرف تلوار بڑھائی ہی تھی کہ میں نہیں جان سکا کہ کس نے میرے دونوں شانوں کے درمیان درد پیدا کردیا اور میں منہ کے بل گرپڑا۔ اس پر آیت ذیل نازل ہوئی۔ ولا جناح علیکم ان کان بکم۔۔ اور بارش کی وجہ سے اگر تم کو تکلیف ہو (مثلاً چمڑے کی زرہ بھیگ کر بوجھل ہوجائے) یا تم بیمار ہو (کہ ہتھیاروں کا بوجھ نہ اٹھا سکتے ہو) تو کوئی گناہ نہیں کہ اپنے ہتھیار اتار دو ۔ بارش یا بیماری کے عذر کی وجہ سے اللہ نے اس آیت میں ہتھیار کھول دینے کی اجازت دے دی۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہتھیار بند رہنے کا حکم سابق وجوبی تھا استحبابی نہ تھا لہٰذا امام مالک (رح) اور امام شافعی (رح) کے مسلک کی اس سے تائید ہوتی ہے۔ وخذوا حزرکم . اور اپنا بچاؤ لے لیا کرو یعنی کیمپ کے اندر یا کسی اور محفوظ مقام پر پناہ گیر رہا کرو تاکہ دشمن ناگہاں تم پر حملہ نہ کر دے جان کی حفاظت واجب ہے بےفائدہ جان کا نقصان جائز نہیں حفاظت نفس مآل کار اعلاء کلمۃ اللہ کا موجب ہوگی۔ ایسی حالت میں اپنا بچاؤ ملحوظ رکھنے کا کام گذشتہ شان نزول سے مناسبت رکھتا ہے گویا اللہ نے اپنے پیغمبر ﷺ کو نصیحت فرما دی کہ اگر دشمن کی طرف سے اندیشہ ہو تو قضاء حاجت کے لئے بھی لشکرگاہ سے دور نہ جائیں۔ ان اللہ اعدا للکفرین عذاب مہینا . بیشک اللہ نے کافروں کے لئے اہانت آمیز سزا تیار کر رکھی ہے۔ دنیا میں قتل ‘ قید (وغیرہ) اور آخرت میں دوزخ۔ پہلے احتیاط اور بچاؤ رکھنے کا حکم دیا تھا اس آیت میں کافروں پر غلبہ پانے اور فتح یاب ہونے کا وعدہ فرمایا تاکہ مسلمانوں کے قلوب میں قوت پیدا ہو اور وہ سمجھ جائیں کہ احتیاط رکھنے کا حکم ہماری کمزوری یا دشمن کے غلبہ کی وجہ سے نہیں دیا گیا ہے بلکہ ضابطۂ الٰہی ہی یوں جا ری ہے کہ اسباب کو اختیار کیا جائے بیداری اور تدبیر سے کام لیا جائے پھر اللہ پر بھروسہ کیا جائے۔ کلبی نے مذکورہ روایت میں آگے بیان کیا کہ پھر نالہ ٹھہر گیا اور رسول اللہ ﷺ نے واپس آکر صحابہ ؓ : کو اس واقعہ کی اطلاع دی اور یہ آیت پڑھ کر سنائی۔ بخاری نے حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے لکھا ہے کہ آیت اِنْ کَانَ بِکُمْ اَذًی مِّنْ مَّطَرٍ اَوْ کُنْتُمْ مَّرْضٰیحضرت عبدالرحمن بن عوف کے حق میں نازل ہوئی ‘ آپ زخمی تھے یعنی زخموں کی وجہ سے آپ کو ہتھیار اتارنے کی اجازت دی گئی تھی۔
Top