Dure-Mansoor - Al-Maaida : 66
وَ لَوْ اَنَّهُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰىةَ وَ الْاِنْجِیْلَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْهِمْ مِّنْ رَّبِّهِمْ لَاَكَلُوْا مِنْ فَوْقِهِمْ وَ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِهِمْ١ؕ مِنْهُمْ اُمَّةٌ مُّقْتَصِدَةٌ١ؕ وَ كَثِیْرٌ مِّنْهُمْ سَآءَ مَا یَعْمَلُوْنَ۠   ۧ
وَلَوْ : اور اگر اَنَّهُمْ : وہ اَقَامُوا : قائم رکھتے التَّوْرٰىةَ : توریت وَالْاِنْجِيْلَ : اور انجیل وَمَآ : اور جو اُنْزِلَ : نازل کیا گیا اِلَيْهِمْ : ان کی طرف (ان پر مِّنْ : سے رَّبِّهِمْ : ان کا رب لَاَكَلُوْا : تو وہ کھاتے مِنْ : سے فَوْقِهِمْ : اپنے اوپر وَمِنْ : اور سے تَحْتِ : نیچے اَرْجُلِهِمْ : اپنے پاؤں مِنْهُمْ : ان سے اُمَّةٌ : ایک جماعت مُّقْتَصِدَةٌ : سیدھی راہ پر (میانہ رو وَكَثِيْرٌ : اور اکثر مِّنْهُمْ : ان سے سَآءَ : برا مَا يَعْمَلُوْنَ : جو وہ کرتے ہیں
اور اگر وہ قائم کرتے تورات کو اور انجیل کو اور اس کو جو کچھ نازل ہوا ہے ان پر ان کے رب کی طرف سے تو ضرور کھاتے اپنے اوپر سے اور اپنے پاؤں کے نیچے سے، ان میں ایک جماعت سیدھی راہ اختیار کرنے والی ہے اور ان میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو برے کرتوت کرتے ہیں۔
(1) امام ابن جریر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ولو انھم اقاموا التورۃ والانجیل کے بارے میں فرمایا یعنی اگر وہ لوگ قائم کرتے تورات کو اور انجیل کو اور ان کے ساتھ عمل کرتے اور لفظ آیت وما انزل الیھم من ربھم یعنی محمد ﷺ پر اور جو کچھ اتارا گیا اس پر (ایمان لائے) تو لفظ آیت لا کلو امن فوقھم یعنی ہم ان پر بارش بھیجتے (اور) لفظ آیت ومن تحت ارجلھم یعنی ان کے لئے زمین سے (اتنی پیداوار) اگتی میرے رزق میں سے جو ان کو کافی ہوجاتی پھر فرمایا لفظ آیت منھم امۃ مقتصدۃ یعنی اہل کتاب میں سے (کچھ لوگ) مسلمان بھی ہیں۔ (2) امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت لاکلوا من فوقھم یعنی ہم ان پر آسمان سے بہت بارش برساتے۔ لفظ آیت ومن تحت ارجلھم یعنی زمین میں بھی اس کی برکتیں نکلتیں۔ (3) امام ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ وہ اس آیت کے بارے میں فرماتے ہیں یعنی یہ لوگ کھاتے اس رزق میں سے جو اس سے نازل ہوتا اور اس رزق میں سے جو زمین سے اگتا۔ (4) امام عبد بن حمید، ابن جریر اور ابو الشیخ نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت لا کلوا من فوقھم ومن تحت ارجلھم یعنی آسمان ان کو اپنی برکتیں عطا کرتا ہے اور زمین ان کو اپنی نباتات عطا کرتی (پھر فرمایا) لفظ آیت منھم امۃ مقتصدۃ یعنی (ان میں ایک معتدل امت ہے) جو اللہ کی کتاب پر ایمان لائے پھر اکثر قوم کی خدمت کرتے ہوئے فرمایا لفظ آیت وکثیر منھم ساء ما یعملون (یعنی ان میں سے اکثر برے اعمال کرنے والے ہیں ) (5) امام ابن جریر اور ابو الشیخ نے ربیع بن انس (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت امۃ مقتصدۃ سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے دین میں نہ فسق کیا ہیں۔ اور نہ غلو کیا پھر فرمایا کہ غلو سے مراد رغبت ہے۔ اور فسق سے مراد ہے اس سے کوتاہی کرنا۔ (6) امام ابو الشیخ نے سدی (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت امۃ مقتصدۃ سے مراد ہے ایمان لانے والی (امت) (7) امام ابن ابی حاتم نے جبیر بن نفیر ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عنقریب علم اٹھالیا جائے گا میں نے عرض کیا یہ کس طرح ہوگا حالانکہ ہم قرآن پڑھتے ہیں اور اپنے بیٹوں کو پڑھاتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا تیری ماں تجھے روئے۔ اے نفیر کے بیٹے ! میں تجھ کو اہل مدینہ میں سے زیادہ سمجھدار جانتا تھا کیا تورات اور انجیل یہودی و نصاری کے ہاتھوں میں نہیں ہے ؟ لیکن ان کتابوں نے ان کو کیا فائدہ دیا جب انہوں نے اللہ کے حکم کو چھوڑ دیا پھر (یہ آیت) پڑھی لفظ آیت ولو انھم اقاموا التورۃ والانجیل کتاب اللہ کی حفاظت عمل سے ہوگی (8) امام احمد، ابن ماجہ نے ابن ابی الجعد کے طریق سے زیاد بن لبید ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے ایک چیز کو بیان فرمایا ہو میں نے عرض کیا اور یہ چیز تو ہماری اولادوں کے چلے جانے کے بعد ہی ہوگی۔ یا رسول اللہ اور کس طرح علم چلا جائے گا کہ ہم قرآن پڑھتے ہیں اور ہم اپنے بیٹوں کو پڑھاتے ہیں اور ہمارے بیٹے اپنے بیٹوں کو پڑھائیں گے۔ قیامت کے دن تک (اسی طرح سلسلہ چلتا رہے گا) آپ ﷺ نے فرمایا۔ اے ابن ام البید تیری ماں تجھ پر روئے میں تجھ کو مدینہ میں سب سے زیادہ سمجھدار آدمی سمجھتا تھا کیا یہ یہود اور انصاری تورات اور انجیل نہیں پڑھتے ہیں اور ان دونوں میں جو ہے اس سے نفع نہیں اٹھاتے۔ (9) امام ابن مردویہ نے یعقوب بن زید بن طلحہ کے طریق سے زید بن اسلم سے انہوں نے انس بن مالک ؓ سے روایت کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ (پھر نبی ﷺ نے ان کو یہ بات بیان فرمائی کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی امت اکہتر فرقوں میں بٹ گئی۔ ان میں سے ستر دوزخ میں جائیں گے اور اس میں سے ایک جنت میں جائے گا۔ اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی امت بہتر فرقوں میں بٹ گئی۔ جن میں سے ایک جنت میں ہوگا اور اکہتر دوزخ میں ہوں گے۔ اور تم ان دونوں امتوں پر ایک فرقہ میں بڑھ کر تہتر ہوگے) ایک فرقہ جنت میں جائے گا اور بہتر فرقے دوزخ میں جائیں گے۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا وہ کون ہوں گے یا رسول اللہ ! آپ نے فرمایا جماعت یعقوب بن زید (رح) نے فرمایا کہ علی بن ابی طالب ؓ جب یہ حدیث رسول اللہ ﷺ بیان فرماتے تھے تو اس میں قرآن کی یہ آیت تلاوت فرماتے تھے یعنی لفظ آیت ولو ان اھل الکتب امنوا واتقوا سے لے کر لفظ آیت ساء ما یعملون تک اور یہ آیت بھی تلاوت فرماتے لفظ آیت وممن خلقنا امۃ یھدون بالحق وبہ یعدلون یعنی محمد ﷺ کی امت۔
Top