Tafseer-e-Mazhari - Al-Maaida : 66
وَ لَوْ اَنَّهُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰىةَ وَ الْاِنْجِیْلَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْهِمْ مِّنْ رَّبِّهِمْ لَاَكَلُوْا مِنْ فَوْقِهِمْ وَ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِهِمْ١ؕ مِنْهُمْ اُمَّةٌ مُّقْتَصِدَةٌ١ؕ وَ كَثِیْرٌ مِّنْهُمْ سَآءَ مَا یَعْمَلُوْنَ۠   ۧ
وَلَوْ : اور اگر اَنَّهُمْ : وہ اَقَامُوا : قائم رکھتے التَّوْرٰىةَ : توریت وَالْاِنْجِيْلَ : اور انجیل وَمَآ : اور جو اُنْزِلَ : نازل کیا گیا اِلَيْهِمْ : ان کی طرف (ان پر مِّنْ : سے رَّبِّهِمْ : ان کا رب لَاَكَلُوْا : تو وہ کھاتے مِنْ : سے فَوْقِهِمْ : اپنے اوپر وَمِنْ : اور سے تَحْتِ : نیچے اَرْجُلِهِمْ : اپنے پاؤں مِنْهُمْ : ان سے اُمَّةٌ : ایک جماعت مُّقْتَصِدَةٌ : سیدھی راہ پر (میانہ رو وَكَثِيْرٌ : اور اکثر مِّنْهُمْ : ان سے سَآءَ : برا مَا يَعْمَلُوْنَ : جو وہ کرتے ہیں
اور اگر وہ تورات اور انجیل کو اور جو (اور کتابیں) ان کے پروردگار کی طرف سے ان پر نازل ہوئیں ان کو قائم رکھتے (تو ان پر رزق مینہ کی طرح برستا کہ) اپنے اوپر سے پاؤں کے نیچے سے کھاتے ان میں کچھ لوگ میانہ رو ہیں اور بہت سے ایسے ہیں جن کے اعمال برے ہیں
ولو انہم اقاموا التوراۃ والانجیل اور اگر وہ توریت و انجیل کو قائم رکھتے یعنی ان کے ضوابط و احکام کی پابندی رکھتے اور ان پر عمل کرتے ان میں بگاڑ نہ پیدا کرتے اور نہ ان کی کوئی آیت (وحکم) پوشیدہ رکھتے انہی احکام میں سے ایک حکم یہ بھی تھا کہ محمد ﷺ پر ایمان لائیں گے اور آپ ﷺ کے جو اوصاف اللہ نے توریت میں بیان کردیئے ہیں ان کو کھول کر بیان کریں گے۔ وما انزل الیہم من ربہم اور ان کتابوں کو بھی قائم رکھتے جو اللہ نے ان کے پاس بھیجی ہیں یعنی قرآن ‘ زبور اور تمام آسمانی کتابیں چونکہ اہل کتاب سب ہی کتابوں پر ایمان لانے پر مامور تھے اس لئے گویا سب کتابیں انہی کے پاس بھیجی گئیں۔ لاکلوا من فوقہم ومن تحت ارجلہم تو اپنے اوپر سے اور اپنے قدموں کے نیچے سے کھاتے ‘ فراء نے کہا اس سے مراد ہے رزق کی انتہائی فراخی ‘ عرب کہتے ہیں فلاں شخص از سر تا پا خیر میں ہے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا اوپر سے بارش ہوتی اور نیچے زمین سرسبز ہوجاتی اور کھیتیاں پیدا ہوتیں۔ اسی کی طرح دوسری آیت میں آیا ہے وَلَوْ اَنَّ اَہْلَ الْقُریٰ اٰمَنُوْا وَاتَّقُوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْہِمْ بَرَکَاتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِاگر بستیوں والے ایمان لے آتے اور ممنوعات سے بچتے تو ہم آسمان و زمین سے ان کے لئے برکتوں کے دروازے کھول دیتے ‘ حاصل مطلب یہ ہے کہ ان پر رزق کی تنگی اللہ کے بخیل بن جانے کی وجہ سے نہیں ہوئی بلکہ ان کے کفر و معاصی کی نحوست کی وجہ سے ہوئی۔ منہم امۃ مقتصدۃ ان میں کچھ لوگ تو عادل ہیں نہ افراط میں مبتلا ہیں نہ تفریط میں ‘ حضرت عبداللہ بن سلام اور آپ جیسے دوسرے مؤمنین اہل کتاب کا یہ گروہ تھا۔ وکثیر منہم سآء ما یعملون اور ان میں سے بہتوں کے اعمال خراب ہیں ‘ یعنی حق سے عناد ‘ اللہ کی کتاب میں تحریف اور اس سے روگردانی اور رسول اللہ ﷺ سے عداوت یہ سب ان کی بری حرکتیں ہیں۔ ابوالشیخ نے حسن (بصری) کا قول نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ‘ اللہ نے اپنا پیام دے کر مجھے مبعوث فرمایا میں نے اپنے دل میں بڑی تنگی محسوس کی اور خیال کیا کہ لوگ ضرور میری تکذیب کریں گے لیکن اللہ نے مجھے وعید آمیز حکم دیا کہ یا تو پیام پہنچاؤ ورنہ میں تم کو عذاب دوں گا۔ اس وقت آیت ذیل نازل ہوئی۔
Top