Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 165
وَ لَوْ اَنَّهُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰىةَ وَ الْاِنْجِیْلَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْهِمْ مِّنْ رَّبِّهِمْ لَاَكَلُوْا مِنْ فَوْقِهِمْ وَ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِهِمْ١ؕ مِنْهُمْ اُمَّةٌ مُّقْتَصِدَةٌ١ؕ وَ كَثِیْرٌ مِّنْهُمْ سَآءَ مَا یَعْمَلُوْنَ۠   ۧ
وَلَوْ : اور اگر اَنَّهُمْ : وہ اَقَامُوا : قائم رکھتے التَّوْرٰىةَ : توریت وَالْاِنْجِيْلَ : اور انجیل وَمَآ : اور جو اُنْزِلَ : نازل کیا گیا اِلَيْهِمْ : ان کی طرف (ان پر مِّنْ : سے رَّبِّهِمْ : ان کا رب لَاَكَلُوْا : تو وہ کھاتے مِنْ : سے فَوْقِهِمْ : اپنے اوپر وَمِنْ : اور سے تَحْتِ : نیچے اَرْجُلِهِمْ : اپنے پاؤں مِنْهُمْ : ان سے اُمَّةٌ : ایک جماعت مُّقْتَصِدَةٌ : سیدھی راہ پر (میانہ رو وَكَثِيْرٌ : اور اکثر مِّنْهُمْ : ان سے سَآءَ : برا مَا يَعْمَلُوْنَ : جو وہ کرتے ہیں
اور اگر وہ توراۃ انجیل کو اور جو کچھ ان کے پروردگار کی جانب سے نازل ہوا ہے قائم رکھتے تو ضرور ایسا ہوتا کہ ان کے اوپر سے بھی اور ان کے قدموں کے نیچے سے بھی انہیں برکت ملتی ، ان میں سے ایک گروہ ضرور میانہ رو ہے لیکن زیادہ تر ایسے ہیں کہ جو کچھ کرتے ہیں برائی ہی برائی ہے
جو بھی احکام الٰیہ کی پابندی کرے وہ انعامات الٰہی کا مستحق قرار پاتا ہے : 178: اس آیت میں اس بات کی وضاحت فرما دی گئی کہ اگر تورات ، انجیل اور ازیں بعد جو آخری کتاب قرآن کریم بھیجی گئی اس کے مطابق عمل شروع ہوجاتا تو امن بھی قائم ہوجاتا اور اس کے مطابق اعمال کرنے والے اللہ تعالیٰ کے انعامات کے مستحق بھی قرار پاتے جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ زمین کی برکتیں بھی ان پر کھول دی جاتیں اور آسمان کی برکتوں سے بھی وہ مستفید ہوتے۔ ایسا کیوں ہوتا ؟ اس لئے کہ جس اللہ نے ان ساری کتابوں کو نازل کیا وہی اللہ آسمان و زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے وہ سب ان میں ہے سب کا منتظم ہے کتب الٰہی اگر اس کا کلام ہیں تو آسمان و زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے وہ سب اس کا کام یعنی فعل ہے اور جب اس کے کلام کے مطابق لوگ اعمال کرتے تو یقینا ان اعمال کا وہی نتیجہ نکلتا جس نتیجے کا اس نے اعلان کیا تھا کیونکہ ہر عمل کے ساتھ اس کا نتیجہ لازم ہے اور یہی اسکا اعلان ہے پھر اس کے حکم اور لوگوں کے عمل کی مطابقت ہوتی تو نتائج میں اختلاف کیوں ہوتا ہے ؟ دنیوی ترقیوں کا سارا راز بھی حقیقت میں یہی ہے جو اس وقت آپ کو نظر آرہی ہیں اور اسوقت سب لوگ ان سے مستفید ہو رہے ہیں۔ اختلاف تو محض اس لئے پیدا ہوا کہ کلام الٰہی کے پڑھنے والوں نے اس کو سمجھ کر نہ پڑھا اور اس کے مطابق عمل نہ کیا وہ پڑھتے کچھ رہے اور عمل کچھ کرتے رہے پھر اس کا نتیجہ درست کیونکہ ہوتا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کلام الٰہی کے ساتھ زیادتی ہر دور میں کیوں روا رکھی گئی ؟ اور کیوں مسلمانوں نے بھی وہی کچھ کیا جو ان کے پیش رو کرتے آرہے تھے ؟ اس کی وجہ شایدیہ ہوئی کہ ہر قوم و ملت نے کلام الٰہی میں تحریف و تاویل جو کی تو وہ صرف دنیا پرستی اور حرص مال ہی کی وجہ سے کی لیکن اس طرح ان کو اصل مقصود بھی ہاتھ نہ آیا کیونکہ وہ تو اس صورت میں میسر آسکتا تھا جب کہ وہ کلام الٰہی کے مطابق عمل کرتے جو چیز کلام الٰہی کے مطابق عمل کرنے سے لازم و لابد تھی اس کی تلاش کلام الٰہی کی مخالفت میں وہ کرتے رہے یہی وہ غلطی تھی جس نے پہلی قوموں یعنی یہود ونصاریٰ کو ہلاک کیا اور بدقسمتی سے یہی وہ غلطی ہے جس نے مسلمانوں کو کلام الٰہی کی نعمتوں سے صحیح معنوں میں مستفید نہ ہونے دیا اور جو لوگ آج دنیوی لحاظ سے ترقی کر رہے ہیں انہوں نے قانون الٰہی کے اس نقطہ کو یقینا سمجھا ہے اور آج وہ اسلام کی پیش کردہ اس روشنی سے خوب فوائد حاصل کر رہے ہیں اور یہ وہی بات ہوئی کہ جن کے لئے کھانا تیار کیا گیا تھا انہوں نے کھانے سے انکار کردیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ اس کھانے کو اور لوگ کھا گئے اور ظاہر ہے کہ کھانا تو کبھی انکار نہیں کرتا کہ میں آپ کے لئے تیار نہیں کیا گیا بلکہ جس جس نے اس کو کھایا وہ سیر ہوگیا۔ کچھ لوگ حالات کے ہمہ گیر بگاڑ کے باوجود حق پر قائم رہے اگرچہ وہ بہت تھوڑے تھے : 179: آیت کے آخر میں بتقاضائے عدل و انصاف صاف صاف اعلان کردیا کہ جو کج ردی اور بد عملی یہود کی بیان کی گئی ہے یہ سارے یہود کا حال نہیں چند معدودے آدمی یقینا راہ راست پر بھی تھے چناچہ فرمایا ” ان میں سے ایک گروہ ضرور درمیانہ رو ہے۔ “ اگرچہ وہ بہت ہی کم ہیں لیکن ” زیادہ تر ایسے ہیں کہ جو کچھ کرتے ہیں برائی ہی کرتے ہیں۔ “ راہ راست پر ہونے والوں سے کون لوگ مراد ہیں یا وہی جو نبی اعظم و آخر ﷺ کی تشریف آوری سے پہلے یہودی یا نصرانی تھے لیکن اپنی کتب سماوی کی پیش گوئیوں کے مطابق اس نبی اعظم و آخر ﷺ کی آمد کے منتظر تھے۔ جب وہ نبی ﷺ آگئے تو انہوں نے دیر نہ لگائی اور آپ ﷺ کی نبوت کو قبول ومنظور کرلیا اور دل وجان سے آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے دین کے حامی و ناصر ہوگئے اس طرح انہوں نے آپ ﷺ کی تصدیق کر کے اپنی کتب سماوی کی پیش گوئیوں کو قبول کرلیا اور یہی وہ لوگ ہیں جو صحیح معنوں میں اہل کتاب کہلانے کے حق دار ہوئے اور انہی کے مناقب قرآن کریم نے بیان کئے اور ان کو صحیح معنوں میں اللہ کے بندے قرار دیا ۔ یہی وہ لوگ تھے جن کو اہل کتاب کہہ کر ان کی عورتوں سے مناکحت اور ان کے طعام وکھانے کو جائز و حلال اور طیب قرار دیا اور جن کے ذبیحہ کو حلال ہونے کا اعلان فرمایا ۔ ان کو اہل اللہ کہہ کر ان سے ہر طرح کا تعاون کرنے کی تاکید فرمائی لیکن افسوس کہ علمائے اسلام نے اس گروہ کو چھوڑ کر اہل کتاب کے گمراہ شدہ گروہ کے ساتھ مناکحت اور دوستی کے سارے رشتے قائم کرانے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی اور ہر ممکن انہی کے ساتھ روابط قائم کرنے کی تلقین کی اور یہ وہ غلطی تھی جس نے امت مسلہ کا بہت بڑا نقصان کیا اس کا جتنا ماتم کیا جائے اتنا ہی کم ہے ۔ اس کی تفصیل پیچھے گزر چکی ہے اس سورت کی آیت نمبر 5 کی تفسیر ملاحظہ کرلیں۔
Top