Kashf-ur-Rahman - Al-Maaida : 66
وَ لَوْ اَنَّهُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰىةَ وَ الْاِنْجِیْلَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْهِمْ مِّنْ رَّبِّهِمْ لَاَكَلُوْا مِنْ فَوْقِهِمْ وَ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِهِمْ١ؕ مِنْهُمْ اُمَّةٌ مُّقْتَصِدَةٌ١ؕ وَ كَثِیْرٌ مِّنْهُمْ سَآءَ مَا یَعْمَلُوْنَ۠   ۧ
وَلَوْ : اور اگر اَنَّهُمْ : وہ اَقَامُوا : قائم رکھتے التَّوْرٰىةَ : توریت وَالْاِنْجِيْلَ : اور انجیل وَمَآ : اور جو اُنْزِلَ : نازل کیا گیا اِلَيْهِمْ : ان کی طرف (ان پر مِّنْ : سے رَّبِّهِمْ : ان کا رب لَاَكَلُوْا : تو وہ کھاتے مِنْ : سے فَوْقِهِمْ : اپنے اوپر وَمِنْ : اور سے تَحْتِ : نیچے اَرْجُلِهِمْ : اپنے پاؤں مِنْهُمْ : ان سے اُمَّةٌ : ایک جماعت مُّقْتَصِدَةٌ : سیدھی راہ پر (میانہ رو وَكَثِيْرٌ : اور اکثر مِّنْهُمْ : ان سے سَآءَ : برا مَا يَعْمَلُوْنَ : جو وہ کرتے ہیں
اور اگر یہ لوگ توریت کی اور انجیل کی اور جو کتاب ان کے لئے ان کے رب کی جانب سے بھیجی گئی ہے اس کی پوری پوری ب پابندی کرتے تو وہ یقینا اوپر سے بھی اور نیچے سے بھی خوب رزق حاصل کرتے اگرچہ ان میں سے کچھ لوگ میانہ رو بھی ہیں لیکن اکثر ان میں سے وہ ہیں جن کے کام بہت ہی برے ہیں۔2
2 اور اگر یہ اہل کتاب لے آتے اور تقویٰ اور پرہیز گاری کی روش اختیار کرتے تو ہم ضرور ان کی گزشتہ برائیاں ان سے دور کردیتے اور ان کے گناہ معاف کردیتے اور ہم ضرور ان کو چین و آرام اور عیش و عشرت کے باغوں میں داخل کرتے اور اگر یہ اہل کتاب توریت اور انجیل اور اس کتاب کی جواب ان کی ہدایت کے لئے ان کے رب کی جان بسے نازل ہوئی ہے پوری پابندی کرتے تو یقینا یہ لوگ اوپر سے بھی یعنی آسمان سے اور نیچے سے بھی یعنی زمین سے خوب رزق حاصل کرتے کچھ لوگ ان میں سے درمیانہ و یعنی سیدھی راہ پر چلنے والے ہیں اور بہت سے ان میں ایسے ہیں جن کے کام بہت برے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں کھاویں اوپر اور نیچے سے یعنی آسمان میں سے ان کو رزق فراخ آوے۔ (موضح القرآن) اوپر کی آیت میں ایمان اور تقویٰ کا ذکر فرمایا جس کا فائدہ یہ ہوتا کہ گناہ معاف ہونے کے بعد جنت ملتی ہے ۔ حدیث شریف میں ہے ان الاسلام یھدم ما کان قبلہ یعنی اسلام قبول کرنے سے پہلیت مام گناہ زائل ہوجاتے ہیں اور تقویٰ کی شرط اس لئے لگائی کہت قویٰ میسر نہ ہو تو جنت ملنے میں تاخیر ہو اور دوزخ کا منہ دیکھنا پڑے۔ سورئہ مریم میں ہے تلک الجنۃ التی نورث من عبادنا من کان تقیا یعنی جنت کا وارث ہم اس شخص کو بنائیں گے جو پرہیز گار اور متقی ہوگا دوسری آیت میں دنیوی برکات کا بھی وعدہ فرمایا کہ اگر یہ لوگ ایمان وتقویٰ اختیار کرتے یعنی تمام کتب سماویہ پر جس میں قرآن کریم بھی داخل ہے ایمان لے آتے تو آسمان سے خوب بارشیں ہوتیں اور زمین سے خوب پیداوار ہوتی اور یہ بافراغت کھاتے۔ جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد ہے۔ ولوانھم امنواتقوا الفتحنا علیھم برکات من السمآء والارض یعنی اگر ایمان اور تقویٰ کی راہ اختیار کرتے تو ہم آسمان و زمین کی برکتوں کے دروازے ان پر کھول دیتے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پھل اور کھیتی کی طرفاشارہ ہو کیونکہ پھل اوپر کی سمت ہوتے ہیں اور کھیتی زمین کے قریب ہوتی ہے۔ امۃ مقتصدہ سے مراد یہود ہیں۔ عبداللہ بن سلام ؓ اور ان کے ساتھی ہوسکتے ہیں اور نصاریٰ میں نجاشی اور ان کے اصحاب ہوسکتے ہیں لیکن عام طور سے اکثریت انہی لوگوں کی ہے جن کے اعمال و کردار بہت ہی برے اور ناپسندیدہ ہیں چونکہ برے لوگوں کی اکثریت عام طور سے حوصلہ شکن ہوتی ہے اور جب مذمت کرنیوالوں اور برا کہنے والوں کی کثرت ہو اور ہر پہلو سے تبلیغ اسلام میں مزاحمت کی جاتی ہو بلکہ بدبخت انسان تبلیغ میں ہر قسم کی رکاوٹ پیدا کر رہے ہوں تو ایسے موقع پر نبی کریم ﷺ کو خطاب کر کے فرماتے ہیں کہ تم اپنا کام جاری رکھو اور اعدائے اسلام سے بےنیاز ہو کر تبلیغ کرتے رہو۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)
Top