Dure-Mansoor - Ar-Rahmaan : 24
وَ لَهُ الْجَوَارِ الْمُنْشَئٰتُ فِی الْبَحْرِ كَالْاَعْلَامِۚ
وَلَهُ الْجَوَارِ : اور اسی کے لیے ہیں جہاز الْمُنْشَئٰتُ : اونچے اٹھے ہوئے فِي الْبَحْرِ : سمندر میں كَالْاَعْلَامِ : اونچے پہاڑوں کی طرح
اور اسی کے لئے کشتیاں ہیں جو بلند کی ہوئی ہیں سمندروں میں پہاڑوں میں کی طرح
1:۔ الفریابی وعبد بن حمید (رح) وابن جریر (رح) نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) '' ولہ الجوار المنشئت '' (اور اس کے ہیں جہاز کھڑے ہوئے) (آیت ) '' المنشئت '' سے مراد وہ جہاز ہیں جن کے بادبان بلند ہوتے ہیں اور وہ جہاز جن کے بادبان بلند نہ ہوں وہ '' منشئت '' نہیں کہلاتے۔ کشتیوں کا چلنا قدرت کی نشانی ہے : 2:۔ عبد بن حمید (رح) وابن المنذر (رح) نے حسن (رح) سے (آیت ) '' ولہ الجوار المنشئت '' کے بارے میں روایت کیا کہ اس سے مراد ہے سفن (یعنی جہاز اور کشتیاں) اور '' المنشئت '' سے مراد ہیں وہ کشتیاں جو بادبان والی ہوں (آیت) '' کالاعلام '' یعنی پہاڑوں کی طرح۔ 3:۔ عبد بن حمید (رح) وابن جریر (رح) نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) '' ولہ الجوار المنشئت '' سے مراد ہے کشتیاں (آیت ) '' کالاعلام '' سے مراد ہیں پہاڑوں کی طرح۔ 4:۔ عبد بن حمید عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) '' ولہ الجوار المنشئت '' سے مراد ہے کشتیاں۔ 5:۔ عبد بن حمید (رح) وابن المنذر (رح) والمحاملی نے اپنی امالی میں عمیر بن سعد (رح) سے روایت کیا کہ ہم حضرت علی ؓ کے ساتھ فرات کے کنارے پر تھے ان کے ساتھ ایک کشتی گزری تو انہوں نے یہ آیت پڑھی (آیت ) '' ولہ الجوار المنشئت فی البحر کالاعلام ''۔ 6:۔ عبد بن حمید (رح) وابن المنذر (رح) نے ابراہیم نخعی اور ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ وہ دونوں حضرات اس طرح پڑھتے تھے (آیت ) '' ولہ الجوار المنشئت فی البحر کالاعلام '' یعنی الفاعلات۔ 7:۔ عبد بن حمید (رح) نے اعمش (رح) سے روایت کیا کہ وہ اس آتی (آیت ) '' ولہ الجوار المنشئت '' کو پڑھتے تھے یعنی البادیات جس سے مراد ہے صحرائی۔ 8:۔ عبد بن حمید (رح) نے عاصم (رح) سے روایت کیا کہ وہ اس (المنشئت) کو دو طریقے پر پڑھتے تھے شین کے کسرہ اور اس کے فتحہ کے ساتھ۔
Top