Dure-Mansoor - At-Tawba : 25
لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ فِیْ مَوَاطِنَ كَثِیْرَةٍ١ۙ وَّ یَوْمَ حُنَیْنٍ١ۙ اِذْ اَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَیْئًا وَّ ضَاقَتْ عَلَیْكُمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّیْتُمْ مُّدْبِرِیْنَۚ
لَقَدْ : البتہ نَصَرَكُمُ : تمہاری مدد کی اللّٰهُ : اللہ فِيْ : میں مَوَاطِنَ : میدان (جمع) كَثِيْرَةٍ : بہت سے وَّ : اور يَوْمَ حُنَيْنٍ : حنین کے دن اِذْ : جب اَعْجَبَتْكُمْ : تم خوش ہوئے (اترا گئے كَثْرَتُكُمْ : اپنی کثرت فَلَمْ تُغْنِ : تو نہ فائدہ دیا عَنْكُمْ : تمہیں شَيْئًا : کچھ وَّضَاقَتْ : اور تنگ ہوگئی عَلَيْكُمُ : تم پر الْاَرْضُ : زمین بِمَا رَحُبَتْ : فراخی کے باوجود ثُمَّ : پھر وَلَّيْتُمْ : تم پھرگئے مُّدْبِرِيْنَ : پیٹھ دے کر
یہ واقعی بات ہے کہ اللہ نے بہت سے مواقع میں تمہاری مدد فرمائی اور حنین کے دن بھی، جب تمہیں اپنی کثرت پہ گھمنڈ ہوگیا۔ پھر اس کثرت نے تمہیں کچھ بھی فائدہ نہ دیا اور زمین میں اپنی فراخی کے باوجود تم پر تنگ ہوگئی۔ پھر تم پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوئے
1:۔ فریابی نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” لقد نصرکم اللہ فی مواطن کثیرۃ “ کے بارے میں فرمایا یہ پہلی آیت ہے جو اللہ تعالیٰ نے سورة براۃ میں نازل فرمائی۔ 2:۔ ابن ابی شیبہ و سعید ابن جبروابن منذروابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ پہلی آیت سورة براۃ میں ہے (آیت) ” لقد نصرکم اللہ فی مواطن کثیرۃ “ نازل ہوئی انہوں نے مدد کو پہچان لیا اور ان کو غزوہ تبوک کے لئے آمادہ کرلیا۔ 3:۔ ابوالشیخ نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” لقد نصرکم اللہ فی مواطن کثیرۃ “ کے بارے میں فرمایا کہ یہ ان کاموں میں سے ہے کہ جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ان پر احسان فرمایا خاص طور پر انکی مدد سے بہت مواقد ہیں۔ 4:۔ ابن ابی حاتم وابوالشیخ نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ حنین طائف اور مکہ کے درمیان ایک پانی ہے نبی کریم ﷺ نے ھوازن اور ثقیف والوں سے قتال کیا اور ھوازن کا سردار مالک بن عوف اور ثقیف کا سردار عید یا لیل بن عمروالتقضی تھا۔ 5:۔ ابن ابی حاتم نے عروہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ فتح کے بعد آدھا مہینہ ٹھہرے ابھی اس سے زائد دن نہیں گزرے تھے یہاں تک ھوازن اور ثقیف حنین کے مقام پر اترے۔ حنین ایک وادی ہے۔ ذی المجاز کے پہلو کی طرف۔ 6:۔ ابن منذر نے حسن ؓ سے روایت کیا کہ جب اہل مکہ اور اہل مدینہ جمع ہوئے تو انہوں نے کہا رب اللہ تعالیٰ کی قسم اب ہم لڑیں گے جب ہم اکھٹے ہوگئے ہیں رسول اللہ ﷺ نے انکے اس قول کو ناپسند فرمایا جو انہوں نے کہا کیونکہ انہوں نے اپنی کثرت کا اظہار کیا آپس میں جنگ ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو شکست دیدی حتی کہ ان میں سے ایک بھی کسی کے مقابلہ میں نہ ٹھہرا یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ نے عرب کے قبائل کو آواز دینی شروع کی کہ میری طرف آجاؤ اللہ کی قسم ان کی طرف کوئی بھی اوپر نہ چڑھا یہاں تک کہ آپ نے اپنی جگہ خالی کردی آپ نے انصار کی طرف توجہ فرمائی اور وہ اطراف میں تھے آپ نے ان کو آواز دی اے اللہ کی مدد کرنے والے اے اس کے رسوک کی مدد کرنے والے اللہ کے بندو ! میری طرف آؤ میں اللہ کا رسول ہوں وہ لوگ امڈ آئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ کعبہ کے رب کی قسم ہم ایک ساتھ ہیں اللہ کی قسم انہوں نے اپنے سروں کو جھکا دیا اور رونے لگے۔ اور اپنی تلواروں کو آگے کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کے آگے دشمن کو مارنے لگے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو فتح عطا فرمائی۔ 7ـ:۔ بیہقی نے دلائل میں ربیع ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے حنین کے دن کہا ہم ہرگز قلت تعداد کے سبب مغلوب نہیں ہوسکے۔ یہ بات رسول اللہ ﷺ کو ناگوار گزری تو اللہ تعالیٰ (یہ آیت) ” ویوم حنین اذا عجبتکم کثرتکم “ اتاری ربیع نے فرمایا اور (اس وقت) ہم بارہ تھے ان میں سے دوہزار مکہ والوں میں سے تھے۔ 8:۔ ابن سعد وابن ابی شیبہ واحمد والبغوی نے اپنی معجم میں وابن مردویہ نے والبیہقی نے دلائل میں ابو عبدالرحمن فہری ؓ سے روایت کیا کہ حنین میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شدید گرمی کے دن میں ہم چلے ہم ایک درخت کے سائے کے نیچے اترے جب سورج ڈھل گیا میں نے اپنی زرہ پہنی اور اپنے گھوڑے پر سوار ہوا پھر رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور میں نے اسلام علیکم یا رسول اللہ روحمتہ اللہ وبرکاتہ روانہ ہونے کا وقت قریب آگیا یا رسول اللہ آپ نے فرمایا ہاں پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے بلال وہ درخت کے نیچے سے اٹھے جس کا سایہ ایک پرندہ کے سائے (کے برابر) تھا عرض کیا میں نے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کے حکم کے مطابق موافقہ کرنے والا ہوں۔ اور میں آپ پر فدا ہوں پھر آپ نے فرمایا میرے گھوڑے کو زین پہنا دو ۔ چناچہ کھجور کی چھال کے دو تکیے لائے۔ جن میں تکبر ونخر نام کا نہ تھا۔ راوی نے کہا کہ آپ اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے پھر ہم نے ان سے لڑنا شروع کردیا۔ مسلمان پیٹھ پھیر کر بھاگے جیسے عزوجل نے فرمایا۔ رسول اللہ ﷺ نے پکارنا شروع کیا اے اللہ کے بندو ! میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں رسول اللہ ﷺ اپنے گھوڑے سے نیچے اترے۔ مجھ سے بیان کیا اس آدمی نے جو آپ کی طرف مجھ سے زیادہ قریب تھا آپ نے مٹی سے ایک لب بھری اور اس کو قوم کے چہروں میں پھینکا۔ اور فرمایا (آیت) ” شاھت ولوجوہ “ یعلی بن عطا نے فرمایا ہم کو ان کے بیٹوں نے اپنے بوپوں کی طرف سے یہ خبر دی کہ ان کافروں نے کہا ہم میں سے کوئی باقی نہیں بچا اس کی آنکھیں اور اس کا منہ مٹی سے بھرا اور ہم نے آسمانوں سے گھنٹی کی آواز اس طرح سنی جیسے لوہا لگنے سے لوہے کے طشت پر اور اللہ عزوجل نے ان کو شکست دی۔ غزوہ حنین میں مشرکین کی طرف مٹھی پھینکنا : 9:۔ طبرانی والحاکم وابو انعیم والبیہقی نے دلائل میں عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ حنین کے دن میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا لوگ آپ سے پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے یہاں تک کہ آپ کے ساتھ صرف اسی آدمی رہ گئے مہاجرین اور انصار میں سے ہم تقریبا اسی قدموں کا فاصلہ پر کھڑے ہوئے۔ اور ہم نے پیٹھ نہیں پھیری (یعنی ہم نہیں بھاگے اور اپنی جگہ پر کھڑے رہے) اور یہ وہ لوگ تھے کہ ان پر اللہ تعالیٰ نے سکینہ کو نازل فرمایا اور رسول اللہ ﷺ اپنے خچر پر سوار تھے آپ چند قدم چلے اور فرمایا مٹی سے ایک ہتھیلی بھر کر مجھ کو دو ۔ میں نے آپ کو دی تو آپ نے ان کے چہروں پر پھینکی تو ان کی آنکھیں مٹی سے بھر گئیں اور مشرکین پیٹھ پھیر کر الٹے پاوں بھاگ گئے۔ 10:۔ ابن ابی شیبہ واحمد والحاکم اور آپ نے اس کو صحیح کہا وابن مردویہ والبیہقی نے دلائل میں انس ؓ سے روایت کیا کہ حنین کے دن (قبیلہ) ہوازن عورتوں کو، بچوں کو، اونٹوں کو اور بھیڑ بکریوں کے ریوڑوں کو لے کر آئے انہوں نے ان کی صفیں بنائیں تاکہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے ہماری کثرت ہوجائے پھر مسلمان اور مشرک آپس میں ملے (یعنی جنگ کی) تو مسلمان پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوئے جیسے اللہ عزوجل نے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے آواز دی۔ اے اللہ کے بندو ! میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ پھر فرمایا اے انصار کی جماعت ! میں اللہ کا بندہ ہوں اور اس کا رسول ہوں اللہ تعالیٰ نے مشرکین کو شکست دی نہ کسی نے تلوار چلائی اور نہ نیزہ مارا۔ 11:۔ عبدالرزاق وابن سعد واحمد ومسلم والنسائی وابن منذر وابن ابی حاتم والحاکم (اور آپ نے اس کو صحیح کہا) وابن مردویہ نے عباس بن عبدالمطلب ؓ سے روایت کیا کہ میں حنین کے دن رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حاضر ہوا اور میں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا کہ آپ کے ساتھ کوئی نہیں تھا صرف میں اور ابوسفیان بن حرث بن عبدالمطلب کے ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہے۔ اور ہم آپ سے جدا نہیں ہوئے۔ اور آپ اپنے خچر شہباد پر سوار تھے جس کو فروہ بن معاویہ جذامی نے آپ کو ہدیہ کیا تھا جب مسلمان اور مشرک آپس میں لڑے تو مسلمان پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے اور نبی کریم ﷺ اپنے خچر کو کافروں کی طرف دوڑانے لگے اور میں آپ کی لگام پکڑے ہوئے تھا میں اس کو روک رہا تھا تاکہ وہ جلدی اور تیز رفتاری سے نہ چلے حالانکہ آپ تو مشرکین کی طرف بہت تیزی سے بڑھنے میں کوئی تاخیر نہیں فرما رہے تھے ابو سفیان بن حارث رسول اللہ ﷺ کی رکاب کو پکڑے ہوئے تھے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے عباس ؓ ! ببول والوں کو بلاؤ اے اصحاب البقرہ اللہ کی قسم ! پس ان پر بہت مہربان ہوں جیسے گائے مہربان ہوتی ہے اپنی اولاد پر جب وہ میری آواز کو سنیں گے تو پکارنے لگیں گے ہم مہاجرین ہم حاضر ہیں مسلمان آگئے اور کفار کے ساتھ جنگ شروع ہوگئی۔ آوازیں بلند ہوئیں اور وہ کہہ رہے تھے اے انصار کا گروہ اے انصار کا گروہ پھر بلاوا بنوالحارث بن الخزاج پر محدود ہوگیا رسول اللہ ﷺ کو اپنے خچر پر ٹھہرنا لمبا ہوگیا۔ اور آپ نے فرمایا کہ اب جنگ کے شعلے بھڑک اٹھے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے کنکریوں کو لیا اور ان کو کافروں کے چہروں پر مارا پھر فرمایا کعبہ کے رب کی قسم (کافر) شکست کھاگئے۔ میں نے دیکھا شروع کیا اتنے میں جنگ ٹھنڈی پڑگئی۔ اور یہ جب ایسا ہوا کہ جب رسول اللہ ﷺ نے ان پر کنکریوں پھینکی تھیں (جو ان کی آنکھیں اور منہ میں بھرگئیں) میں برابر دیکھ رہا تھا کہ ان کی (تلواروں کی) دھاریں کند ہوگئیں۔ اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگنے لگے یہاں تک کہ اللہ عزوجل نے ان کو شکست دے دی۔ انصارکا آپ ﷺ پر جانثار کرنا :۔ 12:۔ حاکم نے اور آپ نے اس کو صحیح کہا جابر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے حنین کے دن انصار کو آواز دی اور فرمایا اے انصار کا گروہ انہوں نے جواب دیا ہم حاضر ہیں ہمارے ماں باپ آپ پر قربان ہوں یا رسول اللہ آپ نے فرمایا پوری توجہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی طرف آجاؤ وہ تم کو ایسے باغات میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں وہ لوگ آگئے اور معرکہ حنین انہی کا شکار ہوگیا یہاں تک کہ انہوں نے گھیرے میں لے لیا ایک جماعت کو جو متکبرانہ انداز میں کندھوں کو ہلاک جنگ پڑتے تھے اور (برابر) لڑتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مشرکین کو شکست دی۔ 13:۔ ابوالشیخ والحاکم (اور آپ نے اس کو صحیح کہا) وابن مردویہ نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ حنین کے دن جب مکہ والے اور مدینہ والے جمع ہوئے تو ان کو اپنی کثرت خوش لگی اور قوم نے کہا آج اللہ کی قسم ہم (دشمن سے خوب) لڑیں گے جب (دشمن سے) جنگ ہوئی اور لڑائی سخت ہوئی اور پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے تو رسول اللہ ﷺ نے انصار کو آواز دی اور فرمایا اے مسلمان کے لشکر اللہ کے بندوں کی طرف آؤ میں اللہ کا رسول ہوں انہوں نے کہا آپ کی طرف آئے اللہ کی قسم ہم آرہے ہیں انہوں نے اپنے سروں کو جھکا لیا پھر لڑے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو فتح عطا فرمائی۔ 14:۔ حاکم نے عبادہ بن صامت ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے حنین کے دن اونٹ کے بالوں کو لیا پھر فرمایا اے لوگو میرے لئے حلال نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو تم کو مال غنیمت عطا فرمایا ہے اس میں خمس کے سوا اتنی مقدار بھی حلال نہیں میرے لئے اور پھر پانچواں حصہ بھی تم پر لوٹا دیا جائے۔ لہذا دھاگے اور سوئی تک سب پہنچا دو ۔ اور تم مال غنیمت میں سے چوری کرنے سے بچو کیونکہ یہ باعث ننگ وعار ہوگا قیامت کے دن ایسا کرنے والے کے لئے اور تم پر لازم ہے اللہ تعالیٰ کے راستے پر جہاد کرنا کیونکہ یہ جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ رنج وغم کو دور فرماتے ہیں اور رسول اللہ ﷺ مال غنیمت کو پسند فرماتے تھے چاہئے کہ خوشحال اور مضبوط مومن اپنے کمزور پر لوٹا دے (اپنے مال غنیمت کو) 15:۔ ابن مردویہ نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ ہم نے حنین کے دن دیکھا کہ دونوں جماعتیں (مسلمان اور کافر) بھاگ رہے ہیں عکرمہ نے فرمایا جب حنین کا دن تھا مسلمان اور مشرک پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے۔ رسول اللہ ﷺ ثابت قدم رہے اور فرمایا میں محمد اللہ کا رسول ہوں تین مرتبہ فرمایا اور ان کے پہلو میں آپ کے چچاعباس ؓ تھے نبی کریم ﷺ نے اپنے چچا عباس ؓ سے فرمایا اے عباس آواز لگاؤ اے شجرہ والو (یعنی) بیت رضوان میں شریک ہونے والو ! تو ہر جگہ سے انہوں نے جواب دیا ہم حاضر ہیں ہم حاضر ہیں یہاں تک کہ انہوں نے اپنے نیزوں کے ساتھ آپ پر سایہ کردیا پھر آپ مسلسل جنگ لڑتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو کامیابی عطا فرمائی اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ( آیت) ” ویوم حنین اذا عجبتکم کثرتکم “ 16:۔ ابوالشیخ نے محمد بن عبید اللہ بن عمیر الیثی سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ انصار میں سے چار ہزار جہینہ میں سے ایک ہزار مزینہ میں سے ایک ہزار اور قبیلہ اسلم میں ایک ہزار غفار میں سے ایک ہزار اشجع میں سے ایک ہزار مہاجرین اور ان کے علاوہ دوسرے لوگوں میں سے ایک ہزار اس طرح آپ کے ساتھ دس ہزار کا لشکر تھا اور آپ بارہ ہزار کا لشکر لے کر حنین کی طرف روانہ ہوئے۔ اور اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا ( آیت) ” ویوم حنین اذا عجبتکم کثرتکم فلم تغن عنکم شیئا “ 17:۔ ابن سعد وابن ابی شیبہ والبخاری ومسلم وابن مردویہ نے براء بن عازب ؓ سے روایت کیا کہ ان سے کہا گیا کہ تم بھی حنین کے دن پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے تھے فرمایا اللہ کی قسم رسول اللہ ﷺ نے پیٹھ نہیں پھیری لیکن آپ کے صحابہ میں سے نوجوان اور ان کے پیچھے کچھ تھکے ماندے لوگ نکلے (کیونکہ) ان کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا اور ان کا سامنا ھوازن اور بنونظر کے تیر اندازوں کے ایک گروہ سے ہوگیا ان پر تیر برسنے لگے اور جو تیر مارتے وہ خطا ہوجاتے۔ پھر وہ رسول اللہ ﷺ کی طرف آئے اور آپ اپنے سفید خچر پر تھے اور آپ کے چچا کا بیٹا ابو سفیان بن حرث بن عبدالمطلب اس کی لگام پکڑے ہوئے تھا پھر آپ نیچے اترے اور دعا فرمائی اور مدد طلب فرمائی اللہ تعالیٰ سے پھر فرمایا ” انا النبی لا کذب انا ابن عبدالمطلب “ یعنی میں نبی ہوں اس میں کھوٹ نہیں اور میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں پھر آپ کے صحابہ کرام ؓ نے صف بندی کی۔ 18۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” وانزل جنودا لم تروھا وعذب الذین کفروا “ کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مراد ہے کہ ان کو تلوار سے قتل کیا۔ غزوہ حنین کے موقع پر فرشتوں کی مدد : 19:۔ ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ حنین کے دن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ ﷺ کی مدد فرمائی پانچ ہزار فرشتوں کے ساتھ نشان لگے ہوئے اس دن اللہ تعالیٰ نے انصار کو مومنین کے نام سے پکارا اور ارشاد فرمایا (آیت) ” ثم انزل اللہ سکینتہ علی رسولہ وعلی المومنین “ 20:۔ ابن اسحاق وابن منذر وابن مردویہ و ابونعیم والبیہقی نے جبیر بن مطعم ؓ سے روایت کیا کہ میں نے قوم کی شکست سے پہلے دیکھا اور لوگ ایک دوسرے کو قتل کررہے تھے کہ آسمان سے ایک چیز دھاری دار کمبل کی طرح اتر رہی ہے یہاں تک کہ وہ قوم کے درمیان اتر پڑی میں نے دیکھا اچانک سیاہ رنگ کی چینٹیوں پھیل گئی اور اس میں وادی کو بھر دیا میں نے اس بات میں شک نہیں کیا وہ ملائکہ (علیہم السلام) تھے پھر (اس مدد سے) قوم کو شکست ہوگئی۔ 21:۔ ابن ابی شیبہ وابن منذر وابن ابی حاتم وابوالشیخ نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وعذب الذین کفروا “ سے شکست مراد ہے۔ 22:۔ ابن منذر وابن ابی حاتم نے ابن زہری (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وعذب الذین کفروا “ سے مراد ہے شکست اور قتل اور اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے (آیت) ” ثم یتوب اللہ من بعد ذلک علی من یشآء “ یعنی اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی توبہ قبول فرمائے گا جنہوں نے حنین کے دن نبی کریم ﷺ سے شکست کھائی۔ 23:۔ ابن سعد البخاری نے تاریخ میں اور حاکم اور آپ نے اس کو صحیح کہا والبیہقی نے دلائل میں عبداللہ بن عیاض بن حرص (رح) سے روایت کیا کہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ قبیلہ ھوازن کے پاس بارہ ہزار کے لشکر کے ساتھ تشریف لائے اور آپ نے حنین کے دن طائف کے لوگ بدر کے دن کے مقتولین کے برابر قتل کئے اور رسول اللہ ﷺ نے ایک مٹھی کنکریوں میں سے لی اور ان کو ہمارے چہروں پر پھینکا جس سے ہم کو شکست ہوگئی۔ 24:۔ احمد ومسلم نے سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حنین میں جنگ کی جب ہم دشمن کے سامنے ہوئی تو میں آگے بڑھا تو وہ لوگ گھاٹی پر چڑھے ہوئے تھے دشمن کا ایک آدمی سامنے آیا میں نے اس پر تیر چلایا تو وہ مجھ سے چھپ گیا میں نہیں جانتا پھر اس نے جو کچھ کیا میں نے قوم کی طرف دیکھا کہ اچانک گھاٹی سے نکل آئے اور ان کی نبی ﷺ کے اصحاب کے ساتھ جنگ چھڑگئی اور میں چادر باندھے ہوئے تھا اور شکست کھاتے ہوئے پیچھے لوٹا اور میں دو چادریں پہنے ہوئے تھا ان میں سے ایک تو نیچے باندھے ہوئے تھا اور دوسرے کو اوڑھے ہوئے تھا میری چادر کھل گئی میں نے ان دونوں کو اکھٹا کیا اور شکست کھاتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کے پاس سے گزرا اور آپ اپنے خچر شہباپرسوار تھے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں نے ابن الاکوع کو گھبرائے ہوئے دیکھا جب انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو گھیر لیا تو آپ خچر سے اتر آئے پھر آپ نے زمین کی مٹی میں ایک مٹھی بھری ان کے چہروں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا (آیت) شاھۃ الوجہ “ بدشکل ہوگئے اور مٹی ان پر پھینک دی ان میں سے جس انسان کو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا اس کی آنکھیں مٹی سے بھر گئیں اس مٹی کے ساتھ وہ لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگے اللہ تعالیٰ نے ان کو شکست دی اور رسول اللہ ﷺ نے ان کی غنیمت کے مال کو مسلمانوں میں تقسیم فرمایا۔ 25:۔ بخاری نے تاریخ میں اور بیہقی نے دلائل میں عمروبن سفیان سقفی ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے حنین کے دن کنکریوں میں سے ایک مٹھی بھری اور ہمارے چہروں پر پھینکی تو ہم شکست کھا گئے ہماری طرف کوئی گھوڑا سوار نہیں تھا مگر یہ کہ ہر پتھر پر اور ہر درخت گھوڑ سوار تھا جو ہم کو تلاش کررہا تھا۔ 26:۔ بخاری نے تاریخ میں وابن مردویہ والبیہقی نے یزید بن عامر سوائی سے روایت کیا کہ وہ حنین میں مشرکین کے ساتھ حاضر ہوئی پھر اسلام لے آئے حنین کے دن رسول اللہ ﷺ نے زمین میں ایک مٹھی بھری اور اس کو مشرکین کے چہروں پر پھینک دی اور فرمایا ” ارجعو شاھۃ الوجوہ “ لوٹ جاؤ منہ بدشکل ہوئے جس سے بھی کوئی بھاگ ملا وہ یہ شکایت کررہا تھا کہ اس کی آنکھوں میں تنکا پڑگیا اور وہ اپنی آنکھوں کو مسل رہا تھا۔ غزوہ حنین میں مشرکین کا پلٹ کر حملہ کرنا :۔ 27:۔ مسدد نے اپنی مسند میں والبیہقی وابن عساکر نے عبدالرحمن مولیٰ ام برثن سے روایت کیا کہ مجھے مشرکین میں سے ایک جماعت نے حنین کے دن بیان کیا کہ جب ہم اور رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام آپس میں لڑے تو وہ لوگ (یعنی صحابہ) ایک بکری کے دوہنے تک بھی ہمارے ساتھ نہیں ٹھہرسکے مگر یہ کہ ہم ان پر غالب آگئے اس درمیان کہ ہم ان کو پیچھے دھکیلے جارہے تھے کہ اچانک ہم ملے ایک سفید خچر والے سے اور وہ رسول اللہ ﷺ تھے ہم ان کے پاس خوبصورت سفید چہرے والے سردیکھتے انہوں نے ہم سے کہا ” شاھت الوجوہ ارجو “ یعنی منہ بدشکل ہوئے لوٹ جاؤ ہم لوٹ گئے اور ہمارے کندھوں پر سوار ہوگئے حالانکہ وہ وہی تھے کہ (ہم پر غالب آگے ہم تھک ہار گئے تھے) 28:۔ بیہقی نے ابن اسحاق کے راستے سے امیہ بن عبداللہ بن عمر وبن عثمان بن عفان سے روایت کیا کہ مالک بن عوف نے جاسوس بھیجے پس وہ آپ کے پاس آئے (اس حال میں) کہ ان کے جوڑ کاٹ دیئے گئے تھے۔ انہوں نے دیکھ کر پوچھا افسوس ہے تم کو کیا ہوا انہوں نے کہا ہمارے پاس سفید آدمی سیاہ سفید داغوں والے گھوڑوں پر آئے اللہ کی قسم انہوں نے ہم کو مضبوط پکڑ لیا اور وہی ہمارے ساتھ یہ کچھ ہوگیا۔ جو تم دیکھتے ہو۔ 29:۔ ابن مردویہ والبیہقی وابن عساکر نے مصعب بن شیبہ عن عثمان الجعبی (رح) سے روایت کرتے ہیں کہ میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ حنین کے دن نکلا اللہ کی قسم ! میں مسلمان ہو کر نہیں نکلا تھا لیکن میں یہ ڈرتے ہوئے نکلا تھا کہ کہیں ہوازن قریش پر غالب آجائیں اللہ کی قسم میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کھڑا ہوا تھا اچانک میں نے کہا اے اللہ کے نبی میں نے ایک سیاہ سفید داغوں والے گھوڑا دیکھا ہے آپ نے فرمایا اے شیبہ اس کو نہیں دیکھے گا مگر کافر آپ نے اپنے ہاتھ مبارک میرے سینے کے پاس مارا یہاں تک کہ میں نے اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے کسی کو اپنے نزدیک آپ سے بڑھ کر زیادہ محبوب نہیں پایا راوی نے کہا مسلمان لڑے جو قتل ہونا تھا وہ قتل ہوا پھر نبی کریم ﷺ تشریف لائے اور عمر ؓ لگام پکڑے ہوئے تھے اور حضرت عباس ؓ رکاب تھامے ہوئے تھے عباس نے آواز لگائی مہاجرین کہاں ہیں سورة بقرہ والے کہاں ہیں اونچی آواز کے ساتھ یہ رسول اللہ ﷺ ہیں لوگ متوجہ ہوئے اور نبی کریم ﷺ یہ فرما رہے تھے میں نبی ہوں اس میں جھوٹ نہیں ہے اور میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں مسلمان متوجہ ہوئے اور وہ تلواروں سے لڑنے لگے نبی کریم ﷺ نے فرمایا اب جنگ کے شعلے بھڑک اٹھے۔
Top