Urwatul-Wusqaa - At-Tawba : 25
لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ فِیْ مَوَاطِنَ كَثِیْرَةٍ١ۙ وَّ یَوْمَ حُنَیْنٍ١ۙ اِذْ اَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَیْئًا وَّ ضَاقَتْ عَلَیْكُمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّیْتُمْ مُّدْبِرِیْنَۚ
لَقَدْ : البتہ نَصَرَكُمُ : تمہاری مدد کی اللّٰهُ : اللہ فِيْ : میں مَوَاطِنَ : میدان (جمع) كَثِيْرَةٍ : بہت سے وَّ : اور يَوْمَ حُنَيْنٍ : حنین کے دن اِذْ : جب اَعْجَبَتْكُمْ : تم خوش ہوئے (اترا گئے كَثْرَتُكُمْ : اپنی کثرت فَلَمْ تُغْنِ : تو نہ فائدہ دیا عَنْكُمْ : تمہیں شَيْئًا : کچھ وَّضَاقَتْ : اور تنگ ہوگئی عَلَيْكُمُ : تم پر الْاَرْضُ : زمین بِمَا رَحُبَتْ : فراخی کے باوجود ثُمَّ : پھر وَلَّيْتُمْ : تم پھرگئے مُّدْبِرِيْنَ : پیٹھ دے کر
یہ حقیقت ہے کہ اللہ بہت سے موقعوں پر تمہاری مدد کرچکا ہے اور جنگ حنین کے موقعہ پر بھی جب کہ تم اپنی کثرت پر اترا گئے تھے تو دیکھو وہ کثرت تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین اپنی ساری وسعت کے باوجود تمہارے لیے تنگ ہوگئی ، بالآخر ایسا ہوا کہ تم میدان کو پیٹھ دکھا کر بھاگنے لگے
اللہ نے کتنے نازک موقعوں پر تمہاری مدد فرمائی اور خصوصاً حنین کے دن : 37: حنین کیا ہے اور حنین کا دن کیسا دن تھا ؟ حنین ایک وادی کا نام ہے جو مکہ سے تین دن کی مسافق شمال میں واقع ہے۔ اس وادی کے نواح میں تفیف و ہوازن آباد تھے۔ جب نبی اعظم و آخر ﷺ 6 شوال 8 ہجری کو بارہ ہزار مجاہدین جن میں سے دس ہزار مدنی اور دو ہزار مکی تھے کہ ہمراہ مکہ سے نکلے تو 10 شوال کو وادی حنین میں پہنچے۔ وہاں تفیف و ہوازن تقریباً ایک لاکھ کی تعداد میں پہلے ہی مقیم تھے جن کی قیادت مالک بن عوف کے ہاتھ میں تھی۔ ان لوگوں نے وہاں پہنچ کر تمام موزوں مقامات پر قبضہ کرلیا تھا اور تیر اندازوں کے دستے گھاٹیوں میں جا بجا جما دیئے تھے۔ جب 11 شوال کی صبح طلوع ہوئی اور صحابہ کرام ؓ کی صفیں درست ہوئیں اور دشمن کی طرف پیش قدمی کی تو سامنے سے ہزاروں جوان ٹوٹ بڑے اور تیرو کا مینہ برسنے لگا باوجود اس کے اسلامی لشکر کی تعداد بھی ایک کافی تعداد تھی اگرچہ مخالفین کے لحاظ سے بہت ہی کم تھی تاہم مسلمانوں کو اپنی کثرت پر ناز ضرور تھا۔ بنی تفیف اور ہوازن کی طرف سے حملہ اتنا شدید ہوا اور اتنا بھاری تھا کہ صحابہ کرام ؓ ادھر ادھر بھاگ نکلے اور کسی کی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ کیا ہوا ؟ نبی کریم ﷺ کے ساتھ بعض روایات کے مطابق کل سات آدمی رہ گئے۔ عباس ؓ ، علی ؓ ، فضل بن عباس ؓ ، ابوبکر صدیق ؓ ، اسامہ بن زید ؓ اور ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب۔ یہ حالت دیکھ کر نبی کریم ﷺ نے پورے زور سے آواز دی یا معذر الانصار ، انا ابن عبدالمطلب ، انا النبی لا کذب ۔ اور اسی طرح حضرت عباس ؓ نے بھی لوگوں کو آواز دی چناچہ وہ سب لوٹ کر دشمن پر ٹوٹ پڑے اور اس شجاعت و بےجگری سے لڑے کہ انجام کار دشمن بھاگ کھڑا ہوا اور اس طرح اسلام کی شکست ہوتے ہوتے فتح میں بدل گئی دشمنوں کی فوج تقریباً ستر لاشیں میدان میں چھوڑ گئی۔ صحابہ کرام ؓ میں صرف چار لوگوں کو شہادت ملی۔ اسیروں کی تعداد تقریباً چھ ہزار کے قریب تھی اور مال غنیمت میں 24 ہزار اونٹ اور چالیس ہزار بکریاں اور چار ہزار اوقیہ چاندی آئی۔ نبی کریم ﷺ نے تالیف قلوب کے لئے تقریباً سارا مال غنیمت قریش مکہ میں تقسیم کردیا اور خصوصاً سردار ان قریش کو بہت مال دیا۔ چونکہ میدان حنین میں حالات بہت نازک ہوگئے تھے اور خصوصاً صحابہ کرام ؓ کی اکثریت بھاگ نکلی تھی اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس مدد کا خصوصاً ذکر فرمایا کہ اللہ نے تمہاری شکست خوردہ حالت کو مکمل طور پر فتح میں بدل کر رکھ دیاحالان کہ تمہاری ایسی حالت ہوچکی تھی کہ زمین اپنی ساری کشادگیوں کے باوجود تم پر تنگ ہو کر رہ گئی تھی اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کی ناگفتہ بہ حالت کا ذکر فرمایا تاکہ مسلمان سمجھ لیں کہ اپنی کثرت پر ناز کرنے کی بجائے سارا زور صرف کرنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے فضل پر انحصار رکھنا نہایت ضروری ہے اور غرور اور تکبر کا سر ہمیشہ نیچا ہوتا ہے۔
Top