Fi-Zilal-al-Quran - At-Tawba : 28
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰذَا١ۚ وَ اِنْ خِفْتُمْ عَیْلَةً فَسَوْفَ یُغْنِیْكُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖۤ اِنْ شَآءَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں الْمُشْرِكُوْنَ : مشرک (جمع) نَجَسٌ : پلید فَلَا يَقْرَبُوا : لہٰذا وہ قریب نہ جائیں الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ : مسجد حرام بَعْدَ : بعد عَامِهِمْ : سال هٰذَا : اس وَاِنْ : اور اگر خِفْتُمْ : تمہیں ڈر ہو عَيْلَةً : محتاجی فَسَوْفَ : تو جلد يُغْنِيْكُمُ : تمہیں غنی کردے گا اللّٰهُ : اللہ مِنْ : سے فَضْلِهٖٓ : اپنا فضل اِنْ : بیشک شَآءَ : اللہ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا حَكِيْمٌ : حکمت والا
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، مشرکین ناپاک ہیں ، لہذا اس سال کے بعد یہ مسجد حرام کے قریب نہ پھٹکنے پائیں۔ اور اگر تمہیں تنگ دستی کا خوف ہے تو بعید نہیں کہ اللہ چاہے تو تمہیں اپنے فضل سے غنی کردے ، اللہ علیم و حکیم ہے
مشرکین نجس عین ہیں ، ان کی روح اس قدر ناپاک ہے کہ یہ ناپاکی ان کے خون اور گوشت میں بھی سرایت کرگئی ہے۔ لہذا وہ کلیۃً نجس ہیں۔ پاکیزہ احساس ان کا تصور کرتے ہی ابا کرتا ہے۔ کراہت محسوس کرتا ہے اور پاکیزہ مزاج لوگ ان سے دور رہنا پسند کرتے ہیں۔ یہ معنوی نجاست ہے جو حسی نجاست سے زیادہ تیز ہے۔ ان کے اجسام نجس نہ ہوگے یہ قرآن کریم کا نہایت ہی موثر انداز تعبیر ہے جو روحانیات کو بھی حسی بنا دیتا ہے۔ جب نجس ہیں تو پھر کیا حکم ہے ؟ يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰذَا۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، مشرکین ناپاک ہیں ، لہذا اس سال کے بعد یہ مسجد حرام کے قریب نہ پھٹکنے پائیں۔ چونکہ مسجد حرام پاک ہے اور یہ ناپاک ہیں اس لیے ان کو مسجد حرام کے قریب نہ پھٹکنے دیا جائے۔ حکم کو ان کی شخصیت سے متعلق کردیا گیا۔ لیکن اس اقدام کے معاشی نتائج بھی تو بھیانک تھے۔ موسم حج اور موسم تجارت آنے ہی والا تھا ، جس پر ان کا سالانہ بجٹ چلتا تھا۔ جزیرۃ العرب کے اکثر لوگ اس میں تجارت کرتے تھے اور ان کی گرمیوں اور سردیوں کے سفر بھی اسی نظام پر موقوف تھے۔ اور یہ ان کی معاشی زندگی کا خلاصہ تھا۔ اگر مشرکین کو یوں یکلخت منع کردیا جائے تو پوری زندگی کا متاثر ہونا لازمی ہے۔ پھر جب کفار اور مشرکین کے خلاف اعلان جنگ بھی کردیا جائے۔ یہ سب واقعات و حقائق درست ہیں لیکن اس مسئلے کا تعلق نظریات سے ہے۔ اللہ چاہتا ہے کہ تم اس نظرئیے کے لیے مخلص ہوجاؤ اور قربانی کے لیے تیار ہوجاؤ۔۔ رہا رزق اور تجارتی مفادات تو اس کا کفیل کوئی نظام نہیں ہے ، اللہ ہے اور اللہ ایسے اسباب کے ذریعے رزق پہنچاتا ہے جو عادی اور معروف نہیں ہوتے۔ و ان خفتم عیلۃ فسوف یغنیکم اللہ من فضلہ ان شاء ان اللہ علیم حکیم۔ (9:28) اور اگر تمہیں تنگ دستی کا خوف ہے تو بعید نہیں کہ اللہ چاہے تو تمہیں اپنے فضل سے غنی کردے ، اللہ علیم و حکیم ہے۔ اللہ جب چاہتا ہے ، اسباب بدل دیتا ہے اور وہ ایک دروازہ بند کرکے دوسرے دروازے کھول دیتا ہے ، وہ علیم و حکیم ہے وہ اپنے علم اور اپنی حکمت کی وجہ سے اور اپنے اندازے اور حساب کی وجہ سے یہ انتظامات کرتا رہتا ہے۔ ۔۔۔ غرض اب اسلامی نظام ایک ایسے معاشرے میں کام کر رہا تھا جو فاتح تھا اور اس کے اندر مختلف درجات ایمانیہ کے لوگ شامل ہوگئے تھے اور جیسا کہ اس پورے سبق میں ہم نے بتایا کہ اس معاشرے میں مختلف مقامات پر کمزور پہلو موجود تھے اور قرآن کریم ان کمزوریوں کو دور کرکے اس سوسائٹی کی ترتبیت کر رہا تھا۔ اس طرح قرآن کریم امت مسلمہ کی اصلاح میں اپنے منہاج کے مطابق مسلسل جدو جہد کر رہا تھا تاکہ یہ کمزور پہلو مضبوط ہوجائیں۔ قرآن کریم اس امت کو پاکیزگی اور اخلاص کے اعلی ترین مقام اور بلندی تک لے جانے کی جدوجہد کر رہا تھا تاکہ وہ اس دین اور اس نظام کے لیے مخلص ترین امت بن جائے۔ اس کی محبتیں ، اس کے روابط اور اس کی ترجیحات مکمل طور پر اس نظام کے لیے علیحدہ ہوجائیں اور یہ کام صرف اس صورت میں ممکن تھا کہ ایک ایسا سیاسی نظام قائم کیا جائے جس میں لوگ اپنے جیسے انسانوں کی بندگی کے نظام سے نکل کر اسلامی نظام میں داخل ہوجائیں جس میں صرف رب ذوالجلا کی بندگی ہم اور لوگ مکمل طور پر دو کیمپوں میں تقسیم ہوجائیں چونکہ ان ہی دو کیمپوں کے درمیان ملاپ ممکن ہی نہیں ہے۔
Top