Maarif-ul-Quran - Ar-Ra'd : 52
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰذَا١ۚ وَ اِنْ خِفْتُمْ عَیْلَةً فَسَوْفَ یُغْنِیْكُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖۤ اِنْ شَآءَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں الْمُشْرِكُوْنَ : مشرک (جمع) نَجَسٌ : پلید فَلَا يَقْرَبُوا : لہٰذا وہ قریب نہ جائیں الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ : مسجد حرام بَعْدَ : بعد عَامِهِمْ : سال هٰذَا : اس وَاِنْ : اور اگر خِفْتُمْ : تمہیں ڈر ہو عَيْلَةً : محتاجی فَسَوْفَ : تو جلد يُغْنِيْكُمُ : تمہیں غنی کردے گا اللّٰهُ : اللہ مِنْ : سے فَضْلِهٖٓ : اپنا فضل اِنْ : بیشک شَآءَ : اللہ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا حَكِيْمٌ : حکمت والا
اے ایمان والو مشرک جو ہیں سو پلید ہیں سو نزدیک نہ آنے پاویں مسجد الحرام کے اس برس کے بعد اور اگر تم ڈرتے ہو فقر سے تو آئندہ غنی کردے گا تم کو اللہ اپنے فضل سے اگر چاہے، بیشک اللہ سب کچھ جاننے والا حکمت والا ہے۔
خلاصہ تفسیر
اے ایمان والو مشرک لوگ (بوجہ عقائد خبیثہ کے) نرے ناپاک ہیں سو (اس ناپاکی پر جو احکام متفرع ہوئے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ) یہ لوگ اس سال کے بعد مسجد حرام (یعنی حرم) کے پاس (بھی) نہ آنے پائیں (یعنی حرم کے اندر داخل نہ ہوں) اور اگر تم کو (اس حکم کے جاری کرنے سے بدیں وجہ) مفلسی کا اندیشہ ہو (کہ لین دین انہی سے زیادہ متعلق ہے جب یہ نہ رہیں گے تو کام کیسے چلے گا) تو (تم خدا پر توکل رکھو) خدا تم کو اپنے فضل سے اگر چاہے گا (ان کا) متحاج نہ رکھے گا، بیشک اللہ تعالیٰ (احکام کی مصلحتوں کو) خوب جاننے والا ہے (اور ان مصلحتوں کی تکمیل کے باب میں) بڑا حکمت والا ہے (اس لئے یہ حکم مقرر کیا اور تمہارے افلاس کے انسداد کا سامان بھی کردے گا)۔

معارف و مسائل
سورة توبہ کے شروع میں کفار و مشرکین سے اعلان براءت کیا گیا تھا، مذکورۃ الصدر آیت میں اس اعلان براءت سے متعلقہ احکام کا ذکر ہے، اعلان براءت کا حاصل یہ تھا کہ سال بھر کے عرصہ میں تمام کفار کے معاہدایت ختم یا پورے کردیئے جائیں، اور اعلان کے ایک سال بعد کوئی مشرک حدود حرم میں نہ رہنے پائے۔
اس آیت میں اسی کا بیان ایک خاص انداز میں کیا گیا جس میں اس حکم کی حکمت و مصلحت بھی بتلا دی اور اس کی تعمیل میں جو بعض مسلمانوں کو خطرات تھے ان کا بھی جواب دیدیا، اس میں لفظ نجس بفح جیم استعمال فرمایا ہے جو نجاست کے معنی میں ہے، اور نجاست کہا جاتا ہے ہر گندگی کو جس سے انسان کی طبیعت نفرت کرے، امام راغب اصفہانی نے فرمایا کہ اس میں وہ نجاست بھی داخل ہے جو آنکھ ناک یا ہاتھ وغیرہ سے محسوس ہو، اور وہ بھی جو علم و عقل کے ذریعہ معلوم ہو، اس لئے لفظ نجس اس غلاظت اور گندگی کو بھی شامل ہے جو ظاہری طور پر سب محسوس کرتے ہیں، اور اس معنوی نجاست کو بھی جس کی بنا پر شرعاً وضو یا غسل واجب ہوتا ہے، جیسے جنابت یا حیض و نفاس کے ختم ہونے کے بعد کی حالت، اور وہ باطنی نجاست بھی جس کا تعلق انسان کے قلب سے ہے جیسے عقائد فاسدہ اور اخلاق رذیلہ۔
آیت مذکورہ میں کلمہ اِنَّمَا لایا گیا ہے جو حصر کے لئے استعمال ہوتا ہے اس لئے اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ کے معنی یہ ہوگئے کہ مشرکین نری نجاست ہی ہیں، اور صحیح بات یہ ہے کہ عام طور پر مشرکین میں تینوں قسم کی نجاستیں ہوتی ہیں، کیونکہ بہت سی ظاہری ناپاک چیزوں کو وہ ناپاک نہیں سمجھتے اس لئے ان ظاہری نجاستوں سے بھی نہیں بچتے جیسے شراب اور اس سے بنی ہوئی چیزیں، اور معنوی نجاست سے غسل جنابت وغیرہ کے تو وہ معتقد ہی نہیں، اسی طرح عقائد فاسدہ اور اخلاق رذیلہ کو بھی وہ کچھ نہیں سمجھتے۔
اسی لئے آیت مذکورہ میں مشرکین کو نری نجاست قرار دے کر یہ حکم دیا گیا (آیت) فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰذَا یعنی ایسا کرنا چاہئے کہ اس سال کے بعد یہ مشرکین مسجد حرام کے پاس نہ جاسکیں“۔
مسجد حرام کا لفظ عام طور پر تو اس جگہ کے لئے بولا جاتا ہے جو بیت اللہ کے گرد چہار دیواری سے گھری ہوئی ہے، لیکن قرآن و حدیث میں بعض اوقات یہ لفظ پورے حرم مکہ کے لئے بھی استعمال ہوا ہے، جو کئی میل مربع کا رقبہ اور چاروں طرف حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوٰة والسلام کی قائم کردہ حدود سے گھرا ہوا ہے، جیسا کہ واقعہ معراج میں مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ سے باتفاق یہی معنی مراد لئے گئے ہیں، کیونکہ واقعہ معراج معروف مسجد حرام کے اندر سے نہیں بلکہ حضرت ام ہانی کے مکان سے ہوا ہے، اسی طرح آیت کر یمہ (آیت) اِلَّا الَّذِيْنَ عٰهَدْتُّمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ، میں مسجد حرام سے پورا حرم ہی مراد ہے، کیونکہ جس واقعہ صلح کا اس میں ذکر ہے وہ مقام حدیبیہ پر ہوا ہے، جو حدود حرم سے باہر اس کے متصل واقع ہے (جصاص)
اس لئے معنے آیت کے یہ ہوگئے کہ اس سال کے بعد مشرکین کا داخلہ حدود حرم میں ممنوع ہے، اس سال سے مراد کونسا سال ہے بعض حضرات نے فرمایا کہ 10 ہجری مراد ہے، مگر جمہور مفسرین کے نزدیک 9 ہجری راجح ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اعلان براءت حضرت صدیق اکبر اور علی مرتضیٰ کے ذریعہ موسم حج میں اسی 9 ھ میں کرایا ہے، اس لئے 9 ھ سے 10 ھ تک مہلت کا سال ہے، 10 ہجری کے بعد یہ قانون نافذ ہوا۔
مشرکین کے مسجد حرام میں داخلے کی ممانعت کا مطلب اور یہ کہ مسجد حرام کی خصوصیت ہے یا سب مساجد کے لئے عام ہے
آیت مذکورہ میں جو حکم دیا گیا ہے کہ 10 ھ میں بعد سے کوئی مشرک مسجد حرام کے پاس نہ جانے پائے اس کے متعلق تین باتیں غور طلب ہیں کہ یہ حکم مسجد حرام کے ساتھ مخصوص ہے یا دنیا کی دوسری مسجدیں بھی اسی حکم میں داخل ہیں، اور اگر مسجد حرام کے ساتھ مخصوص ہے تو کسی مشرک کا داخلہ مسجد حرام میں مطلقا ممنوع ہے، یا صرف حج وعمرہ کیلئے داخلہ کی ممانعت ہے ویسے جاسکتا ہے، تیسرے یہ کہ آیت میں یہ حکم مشرکین کا بیان کیا گیا ہے کفار اہل کتاب بھی اس شامل ہیں یا نہیں۔
ان تفصیلات کے متعلق چونکہ الفاظ قرآن ساکت ہیں اس لئے اشارات قرآن اور روایات حدیث کو سامنے رکھ کر ائمہ مجہتدین نے اپنے اپنے اجتہاد کے مطابق احکام بیان فرمائے، اس سلسلہ میں پہلی بحث اس میں ہے کہ قرآن کریم نے مشرکین کو نجس کس اعتبار سے قرار دیا ہے، اگر ظاہری نجاست یا معنوی جنابت والے شخص یا حیض و نفاس والی عورت کا داخلہ کسی مسجد میں جائز نہیں، اور اگر اس میں نجاست سے مراد کفر و شرک کی باطنی نجاست ہے تو ممکن ہے کہ اس کا حکم ظاہری نجاست سے مختلف ہو۔
تفسیر قرطبی میں ہے کہ فقہائے مدینہ امام مالک وغیرہ رحمہم اللہ نے فرمایا کہ مشرکین ہر معنی کے اعتبار سے نجس ہیں، ظاہری نجاست سے بھی عموماً اجتناب نہیں کرتے اور جنابت وغیرہ کے بعد غسل کا بھی اہتمام نہیں کرتے، اور کفر و شرک کی باطنی نجاست تو ان میں ہے ہی، اس لئے یہ حکم تمام مشرکین اور تمام مساجد کے لئے عام ہے، اور اس کی دلیل میں حضرت عمر بن عبد العزیز کا یہ فرمان پیش کیا جس میں انہوں نے امراء بلاد کو ہدایت کی تھی کہ کفار کو مساجد میں داخل نہ ہونے دیں، اس فرمان میں اسی آیت مذکورہ کو تحریر فرمایا تھا
نیز یہ کہ حدیث میں رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہے
لا احل المسجد لحائض ولا جنب " یعنی مسجد میں داخل ہونا کسی حائضہ عورت یا جنبی شخص کیلئے میں حلال نہیں سمجھتا "۔
اور مشرکین و کفار عموماحالت جنابت میں غسل کا اہتمام نہیں کرتے، اس لئے ان کا داخلہ مساجد میں ممنوع ہے۔
امام شافعی نے فرمایا کہ یہ حکم مشرکین اور کفار اہل کتاب سب کے لئے عام ہے، مگر مسجد حرام کے لئے مخصوص ہے دوسری مساجد میں ان کا داخلہ ممنوع نہیں، (قرطبی) اور دلیل میں ثمامہ ابن اثال کا واقعہ پیش کرتے ہیں کہ مسلمان ہونے سے پہلے جب یہ گرفتار ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے ان کو مسجد نبوی کے ایک ستون سے باندھ دیا تھا۔
امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک آیت میں مشرکین کو مسجد حرام کے قریب جانے سے منع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ سال سے ان کو مشرکانہ طرز پر حج وعمرہ کرنے کی اجا زت نہ ہوگی، اور دلیل یہ ہے کہ جس وقت موسم حج میں حضرت علی مرتضیٰ کے ذریعہ اعلان براءت کردیا گیا تو اس میں اعلان اسی کا تھا کہ لا یحجن بعد العام مشرک، جس میں ظاہر کردیا گیا تھا کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرسکے گا، اس لئے اس آیت میں (آیت) فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ کے معنی بھی اس اعلان کے مطابق یہی ہیں کہ ان کو حج وعمرہ کی ممانعت کردی گئی، اور کسی ضرورت سے باجازت امیر المومنین داخل ہو سکتے ہیں، وفد ثقیف کا واقعہ اس کا شاہد ہے کہ فتح مکہ کے بعد جب ان کا ایک وفد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے ان کو مسجد میں ٹھہرایا حالانکہ یہ لوگ اس وقت کافر تھے، صحابہ کرام نے عرض بھی کیا یا رسول اللہ یہ نجس قوم ہے، تو آپ نے فرمایا کہ مسجد کی زمین پر ان لوگوں کی نجاست کا کوئی اثر نہیں پڑتا (جصاص) اس روایت نے یہ بات بھی واضح کردی کہ قرآن کریم میں مشرکین کو نجس کہنے سے انکی نجاست کفر و شرک مراد ہے، جیسا کہ امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک ہے اسی طرح حضرت جابر بن عبداللہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کوئی مشرک مسجد کے پاس نہ جائے، بجز اس کے کہ وہ کسی مسلمان کا غلام یا کنیز ہو تو بضرورت اس کو داخل کرسکتے ہیں (قرطبی)
یہ حدیث بھی اسی کی شاہد ہے کہ نجاست ظاہری کو سبب قرار دے کر مشرکین کو مسجد حرام سے نہیں روکا گیا ورنہ اس میں غلام اور جاریہ کی کوئی تخصیص نہ تھی، بلکہ بنیاد اصل کفر و شرک اور ان کے غلبہ کا خطرہ ہے، غلام و کنیز میں یہ خطرہ نہیں، ان کو اجازت دے دیگئی، اس کے علاوہ ظاہری نجاست کے اعتبار سے تو مسلمان بھی اس میں داخل ہیں کہ نجاست یا حدث اکبر کی حالت میں ان کے لئے بھی مسجد حرام داخلہ ممنوع ہے۔
نیز جمہور کی تفسیر کے مطابق مسجد حرام سے اس جگہ جب پورا حرم مراد ہے تو وہ بھی اسی کا مقتضی ہے کہ یہ ممانعت ظاہری نجاست کی بنیاد پر نہیں، بلکہ کفر و شرک کی نجاست کی بناء پر ہے اسی لئے صرف مسجد حرام میں ان کا داخلہ ممنوع نہیں کیا گیا بلکہ پورے حرم محترم میں ممنوع قرار دیا گیا، کیونکہ وہ اسلام کا حمی اور ایک قلعہ ہے، اس میں کسی غیر مسلم کو رکھنا گوارا نہیں کیا جاسکتا۔
امام اعظم ابوحنیفہ کی اس تحقیق کا حاصل یہ ہے کہ اگرچہ نجاسات سے مساجد کی تطہیر بھی ایک مستقل مسئلہ ہے جو قرآن مجید اور احادیث سے ثابت ہے، لیکن اس آیت کا تعلق اس مسئلہ سے نہیں بلکہ اسلام کے اس سیاسی حکم سے ہے جس کا اعلان سورة براءت کے شروع میں کیا گیا ہے کہ جتنے مشرکین مکہ میں موجود تھے ان سب سے حرم محترم کو خالی کرانا مقصود تھا، لیکن بتقاضائے عدل و انصاف و رحم و کرم مکہ فتح ہوتے ہی سب کو یک قلم خارج کرنے کا حکم نہیں دیا گیا، بلکہ جن لوگوں سے کسی خاص میعاد کا معاہدہ تھا اور وہ لوگ اس معاہدہ پر قائم رہے تو ان کی میعاد معاہدہ پوری کرکے اور باقیوں کو کچھ کچھ مہلت دے کر سال بھر کے اندر اس تجویز کی تکمیل پیش نظر تھی، اسی کا بیان اس آیت مذکورہ میں آیا کہ اس سال کے بعد مشرکین کا داخل حدود حرم میں ممنوع ہوجائے گا وہ مشرکانہ حج وعمرہ نہ کرنے پائیں گے۔
اور جس طرح سورة توبہ کی آیات میں واضح طور پر یہ بیان کردیا گیا ہے کہ 9 ہجری کے بعد کوئی مشرک حدود حرم میں داخل نہ ہوسکے گا، روایات حدیث میں آنحضرت ﷺ نے اس دائرہ کو اور وسیع فرما کر پورے جزیرۃ العرب کے لئے بھی حکم دے دیا تھا، مگر عہد رسالت میں اس کی تکمیل نہ ہونے پائی، پھر صدیق اکبر بھی دوسرے ہنگامی مسائل کی وجہ سے اس پر توجہ نہ دے سکے فاروق اعظم نے اپنے زمانہ میں اس حکم کو نافذ فرمایا۔
اب رہا کفار کی نجاست اور مساجد کی نجاسات سے تطہیر کا مسئلہ وہ اپنی جگہ ہے، جس کے مسائل کتب فقہ میں تفصیل سے مذکور ہیں، کوئی مسلمان بھی ظاہری نجاست یا حالت جنابت میں کسی مسجد میں داخل نہیں ہوسکتا، اور عام کفار و مشرکین ہوں یا اہل کتاب وہ بھی عموماً ان نجاسات سے پاک نہیں ہوتے، اس لئے بلا ضرورت شدیدہ ان کا داخلہ بھی کسی مسجد میں جائز نہیں۔
اس آیت کی رو سے جب کفار و مشرکین کا داخلہ حرم میں ممنوع دیا گیا تو مسلمانوں کے سامنے ایک معاشی مسئلہ یہ پیش آیا کہ مکہ میں کوئی پیداوار نہیں، باہر کے آنے والے ہی اپنے ساتھ ضروریات لاتے تھے، اور موسم حج میں اہل مکہ کے لئے سب ضروریات جمع ہوجاتی تھیں، اب ان کا داخل ممنوع ہوجانے کے بعد کام کیسے چلے گا، اس کا جواب قرآن میں یہ دیا گیا کہ (آیت) وَاِنْ خِفْتُمْ عَيْلَةً فَسَوْفَ يُغْنِيْكُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖٓ اِنْ شَاۗءَ ، یعنی اگر تمہیں معاشی مشکلات کا اندیشہ ہو تو سمجھ لو کہ نظام معاش تمام مخلوق کا اللہ تعالیٰ کے ہاتھ ہے، اگر وہ چاہیں گے تو تمہیں ان سب کفار سے مستغنی کردیں گے، اور یہاں " اگر چاہیں گے " کی قید لگانے کا مطلب یہ نہیں کہ اس میں کوئی شک و تردد ہے بلکہ اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ صرف مادی اسباب پر نظر رکھنے والوں کے لئے اگرچہ یہ بات بہت بعید اور مشکل نظر آتی ہے کہ ظاہری ذریعہ معاش یہی غیر مسلم تھے، ان کا داخلہ ممنوع کرنا اپنے لئے اسباب معاش منقطع کرنے کے مترادف ہے، مگر ان کو معلوم ہونا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ ان مادی اسباب کا محتاج نہیں، جب ان کا ارادہ کسی کام سے متعلق ہوجائے تو سب اسباب مطابق ہوتے چلے جاتے ہیں بس چاہنے کی دیر ہے اور کچھ نہیں، اس لئے اِنْ شَاۗءَ فرما کر اس کی طرف اشارہ کردیا۔
Top