Fi-Zilal-al-Quran - Ibrahim : 52
هٰذَا بَلٰغٌ لِّلنَّاسِ وَ لِیُنْذَرُوْا بِهٖ وَ لِیَعْلَمُوْۤا اَنَّمَا هُوَ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ وَّ لِیَذَّكَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ۠   ۧ
هٰذَا بَلٰغٌ : یہ پہنچادینا (پیغام) لِّلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَ : اور لِيُنْذَرُوْا : تاکہ وہ ڈرائے جائیں بِهٖ : اس سے وَلِيَعْلَمُوْٓا : اور تاکہ وہ جان لیں اَنَّمَا : اس کے سوا نہیں هُوَ : وہ اِلٰهٌ : معبود وَّاحِدٌ : یکتا وَّلِيَذَّكَّرَ : اور تاکہ نصیحت پکڑیں اُولُوا الْاَلْبَابِ : عقل والے
یہ ایک پیغام ہے سب انسانوں کے لئے ، اور یہ بھیجا گیا ہے اس لیے کہ ان کو اس کے ذریعہ سے خبردار کردیا جائے اور وہ جان لیں کہ حقیقت میں خدا بس ایک ہی ہے اور جو عقل رکھتے ہیں وہ ہوش میں آجائیں ”۔
آیت نمبر 52 اس اعلان عام کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ لوگ جان لیں کہ اللہ ایک ہی الٰہ اور حاکم ہے۔ یہ وہ بنیادی اصول ہے جس کے اوپر اسلامی نظام قائم ہے۔ لیکن اس اعلان عام سے اصل غرض وغایت مجرد نہیں ہے بلکہ اصل مقصود یہ ہے کہ لوگ اپنی زندگی کا پورا نظام اس اصول پر قائم کریں اور اپنی پوری زندگی میں اللہ کی اطاعت اختیار کریں۔ اگر وہ اللہ کو واحد الٰہ اور حاکم سمجھتے ہیں۔ کیونکہ اگر کسی کو الٰہ اور خالق ومالک سمجھا جاتا ہے تو وہی حاکم اور رب بھی ہوگا۔ وہی سربراہ ، متصرف فی الامور ، ڈائریکٹر اور قانون ساز ہوگا۔ اس ایمان و اعلان پر اگر انسانی زندگی کو عملاً قائم کیا جائے تو وہ عملی نظام اس نظام کے سراسر متضاد ہوگا جو اس اصول اور اعلان پر قائم کیا جائے کہ کچھ لوگ اپنے جیسے کچھ لوگوں کے غلام ہوں گے۔ اور انسانوں میں سے کچھ حاکم ، قانون ساز اور ظالم ہوں گے۔ یہ ایک بنیادی اختلاف ہے ، جس کی وجہ سے عقائد و تصورات مختلف ہوجاتے ہیں۔ شعائر اور مراہم عبادت مکتلف ہوجاتے ہیں۔ اخلاق اور طرز عمل مختلف ہوجاتے ہیں۔ حسن و قبح کی قدریں بدل جاتی ہیں ، اور سیاسی اور اقتصادی نظام بدل جاتے ہیں۔ غرض کسی سوسائٹی کو ان میں سے کسی قاعدے پر منظم کیا جائے تو اس کے انفرادی اور اجتماعی خدو خال ہی بدل جائیں گے۔ یہ نظریہ کہ اللہ ایک ہے اور وہی حاکم ہے اس کی بنیاد پر ایک مکمل نظام حیارت تعمیر ہوتا ہے۔ یہ نظریہ صرف ذہنوں میں بیٹھے رہنے والا نظریہ نہیں ہے۔ اسلامی نظریہ حیات محض عقائد تک محدود نہیں ہے ، اس کی حدود بہت آگے چلی جاتی ہیں۔ یہ نظریہ انسان کی پوری عملی زندگی کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ اللہ کی حاکمیت کا نظریہ اسلامی عقائد کا ایک حصہ ہے۔ اسلامی اخلاق کا قیام بھی ہمارے عقائد کا حصہ ہے۔ اور یہ ایک ایسا عقیدہ اور نظریہ حیات ہے جس سے ایک مکمل نظام پھوٹ کر نکلتا ہے۔ نئی قدریں وجود میں آتی ہیں اور یہ دنیا میں نئے حالات اور نیا دستوری اور قانونی نظام پیش کرتا ہے۔ ہم اس وقت تک قرآنی ، مقاصد و اہداف کو ادراک نہیں کرسکتے ، جب تک ہم قرآنی عقائد و نظریات کو اچھی طرح نہ سمجھ لیں اور جب تک ہم کلمہ شہادت کے مفہوم کو اچھی طرح نہ سمجھ لیں کہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا اصلی مفہوم کیا ہے اور جب تک ہم اس کے مفہوم کو اس کی وسعتوں کے ساتھ نہ سمجھ لیں ۔ جب تک ہم یہ نہ سمجھ لیں کہ اسلام میں ” عبادت “ کا مفہوم کیا ہے۔ اور جب تک ہم عبادت کی تعریف میں یہ نہ شامل کرلیں کہ اس سے مراد پوری زندگی میں اللہ کی اطاعت و غلامی ہے۔ صرف نماز کے اوقات میں نہیں ، بلکہ زندگی کے تمام امور میں۔ عرب بت پرستی جس کے بارے میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے اور اپنی اولاد کے بارے میں دعا کی کہ اللہ ہمیں اس سے بچائیو ، یہ اس قدر سادہ نہ تھی جس طرح عرب حضور اکرم ﷺ کے دور میں اس پر عامل تھے یا جس طرح دوسری جاہلیتوں میں مختلف انداز میں اس پر عمل ہوتا تھا ، کہ درختوں اور پتھروں کی پوجا ہو رہی ہے ، حیوانوں اور پرندوں کو پوجا جا رہا ہے ، ستاروں اور سیاروں کو پوجا جا رہا ہے ، ارواح اور اوہام کو پوجا جا رہا ہے۔ یہ سادہ شکلیں ہی شرک نہ تھا ، اور نہ بتوں کی عبادت کی فقط یہ سادہ شکلیں تھیں ، نہ شرک ان سادہ شکلوں میں محدود تھا۔ نہ اس بت پرستی کا یہی مفہوم تھا اور اس سے آگے ہم شرک کی دوسری شکلیں دریافت نہیں کرسکتے یا ہیں ہی نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ شرک کی لاتعداد صورتیں ہیں ، ہم اپنی فکر کو ان صورتوں تک محدود نہیں کرسکتے یا ہیں ہی نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ شرک کی لاتعداد صورتیں ہیں ، ہم اپنی فکر کو ان صورتوں تک محدود نہیں کرسکتے ، بلکہ جاہلیت جدیدہ میں شرک کی بیشمار جدید صورتیں بھی پیدا ہوگئی ہیں۔ لہٰذا اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم شرک کو سمجھیں اور شرک کے ساتھ بت پرستی کے تعلق کو بھی سمجھیں ، نیز بتوں کی حقیقت پر بھی غور کرنا ضروری ہے ، اور دور جدید میں ، جاہلیت جدیدہ نے جو نئے اصنام گھڑ لیے ہیں ان کا بت پرستی کے ساتھ تعلق دریافت کرنا بھی ضروری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ لا الٰہ الا اللہ کے مخالف شرک کا دائرہ ہر اس صورت حال تک وسیع ہوتا ہے جس میں زندگی کے محاملات میں سے کسی ایک حال میں اللہ وحدہ کی اطاعت نہ ہو ، یہ حال بھی شرک کی تعریف میں آتا ہے کہ ایک انسان زندگی کے بعض معاملات میں مطیع فرمان ہوتے ہوئے بھی دوسرے معاملات میں غیر اللہ کا مطیع ہو ، شرک صرف مراسم عبودیت کے اندر محدود نہیں ہے ، یہ تو شرک کی ایک مخصوص صورت ہوتی ہے۔ جدید دور میں ہماری زندگیوں میں بعض ایسی واضح مثالیں موجود ہیں جو ہمیں بتاتی ہیں کہ یہ شرک صریح کی واضح مثالیں ہیں۔ ایک شخص جو اللہ کو وحدہ لا شریک تسلیم کرتا ہے۔ پھر وضو ، طہارت ، نماز ، روزے ، حج اور تمام دوسری عبادات میں اللہ کی طرف رخ رکھتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی وہ اقتصادی معاملات اور اجتماعی قوانین میں ، غیر اللہ کی اطاعت کرتا ہے اور وہ اپنی اجتماعی قدروں میں ایسے تصورات ایسی صطلاحات کا تابع ہے جو غیر اللہ کی جاری کردہ ہیں اور اپنے اخلاق ، اپنی عادات اور رسم و رواج میں ، اپنے لباس میں ، ایسے لوگوں کی اطاعت کرتا ہے ، جو اللہ کے احکام کے بالمقابل اس پر یہ تصورات ، اخلاق ، عادات اور لباس مسلط کرتے ہیں اور یہ ایسے ہیں جو صراحتہ شریعت کے مخالف ہیں ، اللہ کے احکام کے خلاف ہیں ، اور حقیقتاً اسلام کے خلاف ہیں تو یہ عمل اس کلمہ شہادت کے خلاف ہے جو وہ شخص پڑھتا ہے ، لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ ۔ یہ ہے وہ اصل بات جس سے ہمارے دور کے مسلمان غافل ہیں۔ حالانکہ یہ شرک ہے ، آج کے مسلمان نہایت بھونڈے انداز میں غیر اللہ یہ اطاعت کرتے ہیں اور یہ محسوس ہی نہیں کرتے کہ یہ شرک ہے اور ہر دور کے مشرک یہی کام کرتے رہے ہیں۔ بت کیا ہیں ، یہ ضروری نہیں ہے کہ بت ہی مجسمے ہوں جو پتھروں سے بنے ہوں۔ یہ بت تو دراصل رمز ہیں طاغوت کے لئے ، ان بتوں کے پیچھے اصل طاغوت ہوتا ہے جو ان بتوں کے نام اور عنوان سے لوگوں سے اپنی بندگی کراتا ہے۔ اور ان بتوں کے نام سے اپنا اور اپنی بندگی کا نظام جاری کرتا ہے۔ بت تو نہ بات کرتے تھے ، نہ سنتے تھے اور نہ دیکھتے تھے ، دراصل مجاور ، ۔۔۔۔۔۔ اور حاکم وقت ان کی پشت پر ہوتے تھے۔ ان میں سے کچھ لوگ ان کے نام سے تعویذ اور گنڈے کرتے تھے ، دم درود کرتے تھے اور اس طرح وہ جمہور عوام کو اپنا غلام بنائے رکھتے تھے۔ اب اگر کسی جگہ ایسے ہی شعار اٹھ کھڑے ہوں۔ کچھ ادارے ہوں اور ان اداروں کے نام سے کچھ کاہن اور کچھ مہنت اور کچھ احکام اپنے تصورات ، اپنے قوانین اور اپنے اعمال و تصرفات عوام پر مسلط کرتے ہوں تو اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ بھی شرک باللہ ہوگا۔ اگر قومیت کو ایک بت بنا لیا جائے۔ اگر کسی وطن کو بت بنا لیا جائے ، یا کسی مملکت کو بت بنا لیا جائے ، یا کسی طبقے کو بت بنا لیا جائے اور لوگوں سے یہ مطالبہ کیا جائے کہ وہ اس بت کو پوجیں ، اور اللہ کے علی الرغم پوجیں اور ان کی راہ میں جان ، مال ، اخلاق اور اپنی عزت سب کچھ قربان کریں ، یوں کہ جب ان بتوں کے مطالبات اور شریعت کے مطالبات کے درمیان تعارض آجائے تو اللہ کی شریعت اس کے قوانین اور اس کے مطالبات کو پس پشت ڈال دیا جائے اور ان نئے بتوں کے مطالبات ، تقاضوں ، قوانین اور اخلاق کو نافذ کردیا جائے یا صحیح الفاظ میں ان مفادات اور جدید بتوں کی پشت پر موجود طاغوتی قوتوں کی اطاعت کی جائے تو یہ صریح شرک ہوگا ۔ اور ایسے لوگ بت پرست ہوں گے ، مشرک ہوں کیونکہ بت کے لئے ضروری نہیں ہے کہ وہ پتھر اور لکڑی کا بت ہو ، ہر مذہب اور ہر شعار بت ہوتا ہے۔ اسلام صرف اس لیے نہیں آیا تھا کہ وہ لکڑیوں اور پتھروں کے بنے ہوئے بتوں کو توڑ دے اور یہ مسلسل مشقتیں جو رسولان کرام کے طویل سلسلہ نے برداشت کیں ، اور اس کے سلسلے میں ناقابل برداشت اور ناقابل تصور تکالیف برداشت کیں ، یہ محض پتھر اور لکڑی کے بتوں کے ختم کرنے کے لئے نہ تھیں بلکہ مقصد ہر قسم کی بت پرستی کو ختم کرنا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام آیا ہی اس لیے ہے کہ وہ زندگی کے تمام معاملات میں اللہ کی اطاعت کا نظام قائم کر دے۔ ہر شکل اور ہر صورت میں اور زندگی کے تمام معاملات میں سے ، چاہے اس کی شکل و صورت جو بھی ہو ، غیر اللہ کی اطاعت کو ختم کر دے لہٰذا زندگی کے ہر طور طریقے اور نظام میں ہمیں معلوم کرنا چاہیے کہ اس کی کون سی صورت توحید ہے اور کون سی صورت شرک ہے ، اس میں اطاعت اور بندگی اللہ وحدہ کی ہے یا کسی اور طاغوتی قوت کی ہے ، کسی اور رب یا بت کی ہے۔ وہ لوگ جو محض اس لیے اپنے آپ کو اللہ کے دین میں سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی زبان سے کلمہ طیبہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ ادا کرتے ہیں اور وہ بھی محض اس لیے کہ وہ طہارت ، مراسم عبودیت ، نماز ، روزہ ، حج اور نکاح و طلاق میں یا مسئلہ میراث میں اللہ کے قانون کو مانتے ہیں۔ جب کہ اس سے آگے ان کی پوری زندگی ان قوانین کے مطابق ہے جو اللہ کے قوانین کے خلاف ہیں اور ان قوانین کی اکثریت ایسی ہے جو قرآن و سنت کے صریح خلاف ہیں ، اور وہ ان قوانین اور اس نظام کے لئے اپنے نفس ، اپنے مال اور اپنے اخلاق اور کلچر کو قربان کرتے ہیں ، خواہ وہ چاہیں یا نہ چاہیں ، اور یہ کام وہ اس لیے کرتے ہیں کہ یہ جدید بت ان سے راضی ہوں ، اور صورت حالات یہ ہو کہ کسی مرحلے میں اللہ کے احکام اور قوانین کا ان بتوں کے احکام کو نافذ کریں تو یہ صریح بت پرستی ہے۔ جو لوگ اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں اور اللہ کے دین میں سمجھتے ہیں اور ان کا حال وہ ہے جو ابھی بتا یا گیا ، ان کو چاہئے کہ وہ اس شرک سے باز آجائیں جس میں وہ ہیں۔ دین اسلام ایسا مزاح نہیں ہے جو یہ لوگ سمجھتے ہیں جو مشرق و مغرب میں اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں۔ دین اسلام روزمرہ کی جزئیات حیات کو بھی اپنے دائرہ میں لیتا ہے اور یہ مطالبہ کرتا ہے کہ زندگی کی تمام جزئیات میں اللہ وحدہ کی اطاعت کی جائے ، اصول اور کلیات اور دستور و قانون تو بڑی بات ہے۔ یہ ہے وہ اسلام جس کے سوا خدا کسی ” دین “ کو قبول نہیں کرتا۔ شرک اس کے اندر محدود نہیں ہے کہ کوئی اللہ کو ایک نہ سمجھے بلکہ شرک کا آغاز یہاں سے ہوتا ہے کہ کوئی کسی غیر اللہ کو حاکم سمجھے۔ پتھروں اور لکڑیوں کے بنے ہوئے بتوں کو پوجنا بت پرستی کا بہت سادہ تصور ہے ، اصل بت پرستی خلاف اسلام اداروں کی پرستش ہے۔ سادہ ترین الفاظ میں ، میں یوں کہتا ہوں کہ لوگوں کو چاہیے کہ وہ اس بات پر غور کریں کہ ان کی زندگی میں اہم کون ہے ؟ وہ کس کی مکمل اطاعت کرتے ہیں ؟ وہ کس کی مکمل اطاعت کرتے ہیں ؟ وہ کس کی پیروی ، اتباع کرتے ہیں ؟ کس کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں ؟ اگر وہ یہ سب کام اللہ کے لئے کرتے ہیں تو وہ مسلم ہیں ، اگر وہ یہ کام کسی اور کے لئے کرتے ہیں تو یہ ان کے دین پر ہیں۔ بت ہیں تو بتوں کے دین پر۔ طاغوت میں تو طاغوت کے دین ہو۔ یہ ہے پیغام ! سب انسانوں کو اس سے ڈرایا جائے ! ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ ان معنوں میں وحدہ لا شریک ہے ! اگر عقل ہے تو ان باتوں کو سمجھو ! ھذا بلاغ ھذا بلاغ صدق اللہ العظیم
Top