Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Ibrahim : 52
هٰذَا بَلٰغٌ لِّلنَّاسِ وَ لِیُنْذَرُوْا بِهٖ وَ لِیَعْلَمُوْۤا اَنَّمَا هُوَ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ وَّ لِیَذَّكَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ۠ ۧ
هٰذَا بَلٰغٌ
: یہ پہنچادینا (پیغام)
لِّلنَّاسِ
: لوگوں کے لیے
وَ
: اور
لِيُنْذَرُوْا
: تاکہ وہ ڈرائے جائیں
بِهٖ
: اس سے
وَلِيَعْلَمُوْٓا
: اور تاکہ وہ جان لیں
اَنَّمَا
: اس کے سوا نہیں
هُوَ
: وہ
اِلٰهٌ
: معبود
وَّاحِدٌ
: یکتا
وَّلِيَذَّكَّرَ
: اور تاکہ نصیحت پکڑیں
اُولُوا الْاَلْبَابِ
: عقل والے
یہ پیغام ہے لوگوں کے لیے تاکہ ان کو ڈرایا جائے اس کے ساتھ اور تاکہ وہ جان لیں کہ بیشک وہ ایک ہی معبود ہے اور تاکہ نصیحت حاصل کریں عقلمند لوگ۔
(خلاصہ مضامین) یہ سورة ابراہیم کی آخری آیت ہے مکی سورة ہونے کی بناء پر اس میں بھی زیادہ تر اسلام کے چار بنیادی عقائد ہی کا ذکر ہے ، پہلی بات قرآن کی صداقت وحقانیت اور اس کا وحی الہی ہونا ہے ، اس سورة میں قرآن پاک کی ضرورت اور اس پر اعتراض کرنے والوں کا خاص طور رد کیا گیا ہے ، اس کی غرض وغایت اس کے ابتدائی حصے میں ہی بیان کی گئی ہے ، (آیت) ” لتخرج الناس من الظلمت الی النور “۔ کہ آپ اس قرآن کے ذریعے لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لائیں کفر ، شرک ، نفاق ، بدعقیدگی ، اور بداعمالی سب اندھیرے ہیں جن کی وجہ سے انسان کی روح اور عقل تاریک ہوجاتی ہے ، اور انسان بصیرت سے محروم ہوجاتے ہیں اس کے برخلاف ایمان ، توحید ، اخلاص اور نیکی روشنی ہے ، جس کی دعوت یہ قرآن حکیم دیتا ہے ۔ اسلام کا دوسرا بنیادی عقیدہ معاد بھی اس سورة میں بیان ہوا ہے ، قیامت پر ایمان ، اس کا وقوع ، بعث بعد الموت اور جزائے عمل اس عقیدہ کی جزئیات ہیں ، اس سورة میں ان موضوعات پر بھی بحث کی گئی ہے اور معترضین کے اعتراضات کے شافی جوابات دیے گئے ہیں ۔ اس کے بعد تیسرا بنیادی عقیدہ رسالت ہے ، اللہ تعالیٰ نے اس سورة مبارکہ میں بعض انبیاء کے تذکرہ میں ان کی اقوام کی نافرمانی اور پھر ان پر آنے والے عذاب کی طرف اشارہ کیا ہے ، آخر میں حضور ﷺ کی نبوت و رسالت کا تذکرہ بھی آگیا ہے ۔ اسلام کا چوتھا اور اہم ترین بنیادی عقیدہ توحید پر ایمان ہے توحید تمام مسائل کی جڑ اور بنیاد ہے ، اللہ تعالیٰ نے عقلی اور نقلی دلائل کے ذریعے یہ مسئلہ سمجھایا ہے ، پھر ابراہیم کی دعاؤں کا ذکر ہے جن میں ملت حنیفہ کے اصول ہیں اور آخر میں اللہ نے محاسبہ اعمال کا ذکر کیا ہے ، یہ تمام باتیں بنیادی عقائد سے تعلق رکھتی ہیں ، اس کے علاوہ اللہ نے بدنی اور مالی دونوں قسم کی عبادات کا ذکر بھی اس سورة مبارکہ میں کیا ہے (آیت) ” قل لعبادی الذین امنوا یقیموا الصلوۃ وینفقوا مما رزقنھم “۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے اس سورة میں مذکورہ چار بنیادی باتوں کا ذکر کیا ہے ، اکثر سورتوں کے آخر میں ان کا خلاصہ بیان ہوتا ہے اس سورة کے آخر میں بھی اللہ تعالیٰ نے خلاصے کے طور پر چار باتوں کا ذکر فرمایا ہے ۔ (1) (پیغام خداوندی) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ھذا بلغ للناس “۔ یہ پیغام ہے لوگوں کے لیے اس سے مراد اس سورة مبارکہ کے مندرجات بھی ہوسکتے ہیں اور پورا قرآن پاک بھی ہو سکتا ہے یعنی جو کچھ اس سورة یعنی پورے قرآن حکیم میں ہے وہ لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک پیغام ہے مفسرین کرام بلاغ کے دو معانی بیان کرتے ہیں ، پہلا معنی تو کفایت ہے اور مطلب یہ ہے کہ سورة مبارکہ یا قرآن پاک میں جو کچھ بھی ہے وہ انسان کی نصیحت حاصل کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کے لیے کافی ہے ، اس کے علاوہ کسی چیز کی ضرورت باقی نہیں رہتی ، اور دوسرا معنی جیسا کہ میں نے ترجمے میں عرض کیا پیغام ہے تمام لوگوں کے لیے ظاہر ہے کہ اگر یہ پیغام ہے تو پھر اس کو پہنچانے والے بھی ہونے چاہئیں تاکہ اس کی تعلیمات تمام متعلقین تک پہنچ سکیں ، قرآن پاک اللہ نے اپنے نبی پر براہ راست نازل فرمایا اور پھر اہل ایمان کو پابند کیا ہے کہ وہ اس پیغام کو آگے پہنچائیں ۔ اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے انسان خود اس پر عمل پیرا ہو ، اس کے قول وفعل میں تضاد نہ ہو ، اس کی صحت پر یقین ہو کیونکہ خود قرآن پاک کا بیان ہے کہ اس کلام الہی پر یقین نہیں رکھو گے ، (آیت) ” فبای حدیث بعدہ یؤمنون “۔ (المرسلات) تو پھر اس کے بعد کون سی چیز آنیوالی ہے جس پر ایمان لاؤ گے غرضیکہ انسان کو یقین ہوجائے کہ یہ اللہ کا آخری اور جامع کلام ہے اور حدیث رسول مقبول ﷺ اس کی شرح ہے اس کا متن وحی جلی ہے اور اس کی تشریح وحی خفی ہے ، مولانا رشید احمد گنگوہی (رح) بھی فرماتے ہیں کہ ” تمام احادیث صحیحہ قرآن کی شرح میں ، اور یہی بات شاہ ولی اللہ (رح) امام شافعی (رح) اور امام ابن تیمیہ (رح) نے اپنے فتاوی میں لکھی ہے ، الغرض ! اس یقین ایمان اور عمل کے ساتھ اگر اس پیغام کو پہنچانا ہی اپنی ذمہ داری کی تکمیل ہے ۔ تو میں نے عرض کیا کہ بلاغ کا لفظ عام ہے اور اس پیغام کو لے جانے کے لیے ضروری ہے کہ اس بات پر یقین ہو کر یہی پروگرام صحیح ہے چناچہ سورة بقرہ کی ابتداء میں ہے (آیت) ” ذلک الکتب لاریب فیہ “۔ یہ وہ کتاب ہے جو شک وشبہ سے پاک ہے ، پھر اس کی تعلیمات اور پروگرام پر عمل پیرا ہونے والوں کے متعلق فرمایا (آیت) ” اولیک ھم المفلحون “۔ یہی لوگ ہیں کہ جن کو فلاح نصیب ہوگی ، اور جو قوم قرآن پاک کے پروگرام کو قبول نہیں کرے گی ، وہ کبھی فلاح نہیں پاسکتی ، اگر اس کتاب کے پیروکار اس پر عمل کرتے ہوئے بغیر شک وتردد کے اسے آگے لے جائیں گے تو اس کا یقینا اثر ہوگا ، اور اگر اس کی تعلیمات کا علم ہی نہ ہو یا اس پر یقین ہی نہ ہو ، اس کی شرح اور اپنے اعمال سے ناواقفیت ہو اور اس کے عقائد اور فکر کا علم نہ ہو ، تو یہ قرآن موثر نہیں ہو سکتا ، بلاغ کے لفظ سے یہ ساری بات سمجھ میں آتی ہے ، اور اگر قرآن کے ماننے والوں کے پاس کوئی سلطنت اور ملک ہی نہ ہو جہاں اس کے پروگرام کو عملی طور پر نافذ کرسکیں تو وہ اس کی دعوت دوسروں کو کیسے دے سکتے ہیں ، دوسرے لوگ اس کی حقانیت کو جبھی سمجھیں گے جب کہ وہ دنیا کے کسی خطے میں اس پر عمل ہوتا اور اس کے متبعین کو فیض یاب ہوتا دیکھیں گے ۔ امیر شکیب ارسلان نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ جب میں روس گیا تو میں نے سٹالن اور اس کے حواریوں کے سامنے اسلام کی حقانیت پر تقریر کی ، انہوں نے کہا کہ یہ تو واقعی بڑا اچھا پروگرام ہے مگر یہ بتائیں کہ اس پروگرام پر عمل کہاں ہو رہا ہے اور اس کے ثمرات کیا مرتب ہو رہے ہیں کہتے ہیں کہ اس سوال کا جواب میرے پاس نہیں تھا ، کیونکہ دنیا کی پچاس سے زیادہ مسلم ریاستوں میں سے کسی ایک میں بھی اسلام کے پروگرام پر عمل نہیں ہو رہا ہے ، اسلام کی ترویج کے لیے اور اس کی تبلیغ کے لیے انفرادی طور پر تو کوشش طور پر تو کوشش ہو رہی ہے اور یہ بھی مبارک بات ہے کہ تبلیغی جماعتوں کے گشت دنیا بھر میں ہو رہے ہیں مگر یہ اجتماعی فریضہ کہاں ادا ہو رہا ہے وہ کون سا ملک ہے جس نے قرآنی پروگرام کو اپنے ملک میں نافذ کیا ہو اللہ تعالیٰ نے حدود وتعزیر کے قوانین نازل فرمائے ہیں مگر کہاں ہیں وہ لوگ جو ان کو اپنے سینوں ، معاشرے اور ملک میں جگہ دیں ، جب یہ بات نہیں ہے تو ہم ابلاغ کا فریضہ ادا نہیں کر رہے ہیں اور قرآن کے پیغام حق ہونے کا حق ادا نہیں کر رہے ہیں ۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ اسلام میں دونوں باتیں پائی جاتی ہیں ، اخلاقی تعلیم اور تعزیرات ، اگر کوئی اخلاقی تعلیمات سے مستفید نہیں ہوتا اور قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے تو پھر اس کے لیے تعزیرات کا نظام ہے تاکہ معاشرے میں فساد برپا نہ ہو ، مگر تعزیرات کا نظام اجتماعیت اور حکومت کے بغیر قائم نہیں ہوسکتا ، اور جو حکومتیں اس وقت موجود بھی ہیں ان کے کار پر دازان بھی اسلامی تعزیرات نافذ کرنے کی بجائے من مانی کاروائیاں کر رہے ہیں کافروں کی شاگردی اختیار کرتے ہیں ، ان سے سکی میں بنواتے ہیں اور پھر انہی کے مطابق دولت خرچ کرتے ہیں ، نتیجہ ظاہر ہے کہ نہ تو قرآنی پروگرام پر عمل ہوتا ہے اور نہ اس کے بہتر نتائج برآمد ہوتے ہیں ، چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان خود اپنی عقل کو استعمال کرتے ، سلف صالحین کی طرح ہر کام کے خود بانی مبانی بنتے دوسروں سے راہنمائی حاصل کرنے کی بجائے خود دنیا کے استاد بنتے تو انہیں عزت کا مقام حاصل ہوتا ، مگر انہوں نے قرآن کریم کے پروگرام کو نہ خود سمجھا ہے اور نہ اس پر عمل کیا ہے حالانکہ یہ تمام لوگوں کے لیے پیغام ہے اور اس کی تبلیغ کام خود اس کے پیروکاروں کو آگے بڑھ کر کرنا چاہئے تھا ، (2) (انذار بذریعہ قرآن) بہرحال اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کے متعلق پہلی بات تو یہ فرمائی کہ یہ لوگوں کے لیے پیغام ہے اور دوسری بات یہ (آیت) ” ولینذروا بہ “۔ تاکہ اس کے ساتھ ڈرایا جائے ، لوگوں کو خبردار کیا جائے ، منذر انبیاء کی صفت ہے اور لوگوں کو محاسبہ عمل اور برے انجام سے خبردار کرنا ان کے فرائض منصبی میں شامل ہے ، اس وقت جب کہ دنیا فسق وفجور سے بھری پڑی ہے ، انذار کی زیادہ ضرورت ہے ، لوگوں کو خبردار کرنا چاہئے کہ اگر قرآن پاک میں مذکورہ اصولوں کو تسلیم نہیں کریں گے تو انجام بہت برا ہوگا ، انذار ایک عظیم مقصد ہے ، اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو بھی فرمایا (آیت) ” قم فانذر “ (المدثر) آپ اٹھیں اور لوگوں کو ان کے انجام بد سے خبردار کردیں ۔ اب صورت حال یہ ہے کہ دنیا کی پانچ ارب آبادی میں سے سوا چار ارب کفر ، شرک اور معاصی میں مبتلا ہیں ، لہذا قرآن کے پیروکاروں کا فرض ہے کہ وہ اس پروگرام کو لے کر اٹھیں اور لوگوں کو ان کے برے انجام سے خبردار کریں اور ڈرائیں ۔ (3) (دعوت توحید) سورة ہذا کی آخری آیت میں اللہ نے تیسری بات یہ بیان کی ہے ، (آیت) ” ولیعلموا انما ھو الہ واحد “۔ تاکہ وہ جان لیں کہ بیشک وہ ایک ہی معبود ہے ، خدا تعالیٰ کی وحدانیت کی پہچان نہایت ہی ضروری ہے یہ پورے دین کی جڑ اور بنیاد ہے ، اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری پیغام میں توحید کے بیشمار عقلی اور نقلی دلائل پیش کر کے توحید کی بات سمجھائی ہے امام رازی (رح) فرماتے ہیں کہ یاد رکھو ! انسان کی سعادت دو باتوں میں ہے ایک انسان کی فکری قوت پاک ہو اور دوسرے اس کی عملی قوت کمال درجے کی ہو ، اگر انسان کو فکری یا نظری قوت میں کمال حاصل ہوجائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس نے خدا تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کو صحیح طور پر پہچان لیا ہے اور یہی چیز انسان کے عروج اور سعادت کی انتہا ہے ، اور یہی چیز قرآن پاک پیش کرتا ہے ۔ جہاں تک انسان کی قوت عملی کا تعلق ہے تو یہ بھی کمال درجے کی ہو تاکہ وہ بدنی اور مالی عبادت انجام دے سکے ، اور ان دونوں چیزوں کا تذکرہ اس سورة مبارکہ میں ہوچکا ہے (آیت) ” لیقیموا الصلوۃ وینفقوامما رزقنھم “۔ وہ نماز قائم کریں کہ یہ بدنی عبادت ہے اور ہمارے دیے ہوئے مال میں سے انفاق فی سبیل اللہ کرکے مالی عبادت کا حق بھی ادا کریں ، بہرحال اس آیت کریمہ میں تیسری بات یہ ہے کہ اللہ کی وحدانیت کو پہچاننا ہی سعادت ہے جس کو یہ چیز حاصل نہیں ، وہ سعادت مند نہیں بلکہ شقی اور بدبخت ہے ۔ (4) (نصیحت برائے اہل عقل) چوتھی چیز کے متعلق اللہ کا ارشاد ہے (آیت) ” ولیذکر اولوا الالباب “۔ تاکہ عقلمند لوگ نصیحت حاصل کریں ، یہ بھی قوت عملی کا کمال ہے کہ لوگ اچھی بات سے نصیحت حاصل کریں اور تمام عبادات منجملہ بدنی اور مالی ، نماز ، روزہ ، زکوۃ حج ، تبلیغ ، اور جہاد وغیرہ انجام دیں اور یہی چیز قرآن پاک انسانوں میں پیدا کرنا چاہتا ہے ، کہ انسانوں کی قوت فکری اور عملی دونوں درست ہوں تاکہ وہ اللہ کی وحدانیت کو پہچان سکیں ، یہ چاروں باتیں ہوگئیں ۔ (خلاصہ کلام) اب آپ اس سورة مبارکہ کے تمام مضامین پر نظر ڈالیں گے تو خلاصہ یہی نکلے گا جو اس آخری آیت کریمہ میں ذکر کردیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ قرآن پاک اللہ کا آخری پیغام ہے ، اس کے ذریعے لوگوں کو ان کے برے انجام سے خبردار کردیا جائے کہ آگے محاسبے کی منزل آنے والی ہے ، نیز یہ بھی کہ لوگ اللہ کی وحدانیت پر یقین کرلیں کہ معبود برحق ایک ہی ہے ، جب وہ قرآنی دلائل ، شواہد اور انعامات الہی میں غور کریں گے تو انہیں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا یقین آجائے گا ، اور پھر یہ بھی کہ اس نصیحت پر عمل کرنا عقل مندوں کا کام ہے ، اللہ تعالیٰ نے سورة آل عمران میں عقل مندوں کی یہ صفت بیان کی ہے (آیت) ” الذین یذکرون اللہ قیما وقعودا وعلی جنوبھم “۔ جو کھڑے ، بیٹھے اور لیٹے ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں حضور ﷺ کا فرمان (1) (ترمذی ص 486) بھی ہے ” لایزال لسانک رطبا من ذکر اللہ “۔ تمہاری زبان ہمیشہ ذکر الہی سے تر رہنی چاہئے ، اگر دلائل قدرت میں غور وفکر کرو گے تو روح اور قلب کا ذکر ہوگا اور زبان کا ذکر تو عام ہے اور ہر شخص کے لیے ضروری ہے ، حضرت ام المؤمنین فرماتی ہیں (2) (ابو داؤد ص 4 ج 1) ” کان رسول اللہ یذکر اللہ فی کل احیان “۔ حضور ﷺ ہر حالت میں اللہ کا ذکر کرتے تھے کہ عقلمندوں کا یہی کام ہے ، دھوکہ ، فریب اور برائی عقلمندوں کا کام ہرگز نہیں ۔ یہ بات عقل معاش تو ہو سکتی ہے مگر عقل معاد نہیں ہو سکتی ، تو فرمایا صحیح معنوں میں عقلمند وہ لوگ ہیں جو اللہ کا ذکر کرتے ہیں ، بدنی اور مالی عبادات انجام دیتے ہیں اور قرآن پاک کے پروگرام پر یقین رکھتے ہیں ، اللہ نے سورة کے آخر میں خلاصے کے طور پر چار باتیں فرمائی ہیں ۔
Top