Fi-Zilal-al-Quran - Al-Muminoon : 78
وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْشَاَ لَكُمُ السَّمْعَ وَ الْاَبْصَارَ وَ الْاَفْئِدَةَ١ؕ قَلِیْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ
وَهُوَ : اور وہ الَّذِيْٓ : وہی جس نے اَنْشَاَ لَكُمُ : بنائے تمہارے لیے السَّمْعَ : کان وَالْاَبْصَارَ : اور آنکھیں وَالْاَفْئِدَةَ : اور دل (جمع) قَلِيْلًا : بہت ہی کم مَّا تَشْكُرُوْنَ : جو تم شکر کرتے ہو
وہ اللہ ہی تو ہے جس نے تمہیں سننے اور دیکھنے کی قوتیں دیں اور سوچنے کی دل مگر تم لوگ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو
و ھو الذی تعقلون (78 تا 80) ” انسان اگر اپنی تخلیق اور اپنی شکل و صورت ہی غور کرے ، اور اپنے مفاد اعضاء وجوارح پر غور کرے ، اپنے حواس اور اپنی پہچننا کوئی مشکل امر نہیں ہے۔ ان عجیب امور پر غور کرکے وہ خالق کائنات کی معرفت حاصل کرسکتا ہے کیونکہ اللہ کے علاوہ کون ہے جس نے یہ معجزے دکھائے ہیں ۔ اس کائنات میں بیشمار عجوبے ہیں ، چھوٹے بھی ہیں اور بڑے بھی۔ ذرا انسان صرف اپنی قوت سماعت ہی پر غور کرے۔ یہ قوت کس طرح کام کرتی ہے۔ کس طرح یہ آوازوں کو وصول کرتی ہے اور آوازوں سے معانی اخذ کرتی ہے۔ ذرا قوت باصرہ پر غور کرے۔ انسان کس طرح دیکھتا ہے۔ کس طرح آنکھ روشنی کو لیتی ہے اور تصاویر دیکھتی ہے ۔ پھر انسان کا دماغ اور اس کا ادراک ، اشیاء اور شکر کی قدرو قیمت کا تعین کرتا ہے ۔ مفہوم اور پیمانوں کا تعین کرتا ہے۔ غرض تمام مشاعر و مدرکات اور محسوسات پر اگر غور کیا جائے تو ہر ایک اعجوبہ ہے۔ صرف حواس خمسہ اور ان کے کام کرنے کے طریقے پر ہی اگر غور کیا جائے تو عالم بشریت کے اندر یہ ایک عظیم معجزہ ہے ۔ رہی ان قوتوں کی تخلیق اور پھر موجودہ انداز اور شکل و صورت پر ایمان کی ساخت اور پھر اس پوری کائنات کے ساتھ ان کی ہم اہنگی ، کہ اگر اس کائنات کی قوتوں اور انسانی قوتوں میں جو نسبتیں پائی جاتی ہیں ان میں سے ایک نسبت بھی اگر غائب ہوجائے تو پورا نظام ہی بگڑ جائے ، کان سن نہ سکے ، آنکھ دیکھ نہ سکے لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت مدبرہ نے ان کو ایسا بنا یا ہے۔ لیکن انسان ایسا نا شکرا ہے کہ وہ اللہ کے ان انعامات پر غور ہی نہیں کرتے۔ قلیلا ما تشکروں (23 : 78) ” تم میں سے کم لوگ ایسے ہیں جو شکر کرتے ہیں “ ۔ شکر تب ہی ہو سکتا ہے کہ انسان کسی نعمت کے بخشنے والے کے بارے میں جانتا ہو ۔ اس کی ذات وصفات کو جانتا ہو۔ پھر وہ اللہ وحدہ کی عبادت اور بندگی بھی کرتا ہو اور پھر وہ یہ بات بھی جانتا ہو کہ یہ قوتیں انسان کو اسی ذات و الاصفات نے دی ہیں جن کے ذریعے وہ اس کرہ ارض پر عیش و عشرت سے ہمکنار ہے اور ہر چیز استفادہ کررہا ہے۔
Top