Fi-Zilal-al-Quran - Aal-i-Imraan : 128
لَیْسَ لَكَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْءٌ اَوْ یَتُوْبَ عَلَیْهِمْ اَوْ یُعَذِّبَهُمْ فَاِنَّهُمْ ظٰلِمُوْنَ
لَيْسَ لَكَ : نہیں ٓپ کے لیے مِنَ : سے الْاَمْرِ : کام (دخل) شَيْءٌ : کچھ اَوْ يَتُوْبَ : خواہ توبہ قبول کرے عَلَيْھِمْ : ان کی اَوْ : یا يُعَذِّبَھُمْ : انہیں عذاب دے فَاِنَّھُمْ : کیونکہ وہ ظٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع)
اے پیغمبر فیصلے کے اختیارات میں تمہارا کوئی حصہ نہیں ہے ۔ اللہ کو اختیار ہے ‘ انہیں معاف کرے ‘ چاہے سزا دے کیونکہ وہ ظالم ہیں۔
أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ……………” یا انہیں معاف کردے۔ “ اس لئے کہ بعض اوقات اہل اسلام کی فتح کے نتیجے میں کفار کو عبرت حاصل ہوتی ہے اور وہ سبق حاصل کرلیتے ہیں اور اس فتح کے نتیجے میں وہ اسلام قبول کرلیتے ہیں ‘ نتیجتاً اللہ انہیں معاف کردیتا ہے ۔ ان سے صفت کفر چلی جاتی ہے اور وہ راہ ہدایت پاکر اسلام پر جم جاتے ہیں۔ أَوْ يُعَذِّبَهُمْ فَإِنَّهُمْ ظَالِمُونَ……………” چاہے انہیں سزادے کیونکہ وہ ظالم ہیں۔ “ عذاب کی ایک شکل تو یہ ہوتی ہے کہ اہل اسلام ان پر غالب آجاتے ہیں ‘ دوسری صورت قید ہونے کی صورت میں وہ عذاب پاتے ہیں یا ان کا خاتمہ کفر پر ہوجاتا ہے اور انجام کار وہ سزائے جہنم کے مستحق ہوجاتے ہیں ۔ یہ سزا ان کو اس لئے دی جاتی ہے کہ وہ کفر کرکے ظلم کا ارتکاب کرتے ہیں ‘ مسلمانوں کو فتنے میں ڈالتے ہیں اور فساد فی الارض کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ نیز وہ اس اصلاحی نظام حیات کے مقابلے میں اتر کر ظلم کا ارتکاب کرتے ہیں جو اسلامی نظام حیات اور اسلامی شریعت کی صورت میں دنیا میں نافذ ہونے کے لئے آیا ہے ۔ غرض وہ سب مظالم اس میں شامل ہیں جو کفر کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں اور جن کی وجہ سے اللہ کی راہ کو مسدود کیا جاتا ہے ۔ بہرحال یہ سب پروگرام حکمت الٰہی کے تحت ہوتا ہے اور اس میں انسانی ارادے کا کوئی دخل نہیں ہوتا یہاں تک کہ اس آیت کی رو سے خود رسول اللہ ﷺ کی ذات کو بھی اس پروگرام میں دخل انداز ہونے سے خارج کیا جاتا ہے ۔ اور ان امور میں فیصلے کا اختیار صرف اللہ کی ذات کے ساتھ مخصوص ہوجاتا ہے ۔ اس لئے کہ ایسے فیصلے ذات باری کے شایان شان ہیں ۔ ان میں ذات باری منفرد ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے ۔ یوں اہل ایمان کی ذات فتح و کامرانی کے ساتھ اس منظر سے باہر آجاتی ہے ۔ وہ خود فتح و کامرانی کے اسباب کے دائرے سے نکل جاتے ہیں اور اس کے نتائج میں ان کا کوئی دخل نہیں رہتا ۔ یوں وہ اس کبر و غرور سے محفوظ رہتے ہیں جو فاتحین کے دلوں میں بالعموم پیدا ہوجاتا ہے ‘ نیز وہ سخت گیری ‘ غرور اور احساس برتری سے بھی مامون ہوجاتے ہیں جن کی وجہ سے اکثر فاتحین پھولے نہیں سماتے اور ان کے روح اور طرز عمل غیر متوازن ہوتے ہیں ۔ چناچہ اہل ایمان محسوس کرتے ہیں کہ فیصلے کے اختیارات ان کے پاس نہیں ہیں ۔ اختیارات تو سب کے سب اللہ کے پاس ہیں ۔ غرض لوگ مطیع فرمان ہوں یا نافرمان ہوں ان سب کے امور کا مالک اللہ تعالیٰ ہے ۔ یہ کہ لوگوں کی قسمت کے فیصلے ‘ خواہ وہ اچھے لوگ ہوں یا برے ‘ اللہ نے اپنے ہاتھ میں رکھے ہیں ۔ یہ ہے تحریک اسلامی کی حقیقت اور یہ ہے اس میں لوگوں کا مقام چاہے وہ اچھے ہوں یا برے ہوں۔ اس میدان میں خود رسول اکرم ﷺ اور اہل ایمان کا کام صرف یہ ہے کہ وہ اچھے طریقے سے اپنے فرائض سر انجام دیں ۔ اور نتائج اللہ پر چھوڑدیں ۔ وہ اپنے کئے پر صرف اللہ سے اجر کے طلب گار ہوں ‘ وہ انہیں پورا پورا اجردے گا اور ان کا والی اور مددگار ہوگا۔ یہ آیت کہ ” فیصلے کے اختیارات میں تمہارا کوئی دخل نہیں ہے “ اس لئے بھی یہاں لائی گئی ہے کہ آنے والی آیت میں بعض لوگوں کی یہ بات نقل ہونے والی ہے ۔ هَلْ لَنَا مِنَ الأمْرِ مِنْ شَيْءٍ……………” اس کام کو چلانے میں ہمارا بھی کوئی حصہ ہے۔ “ (154 : 3) اور یہ کہ لَوْ كَانَ لَنَا مِنَ الأمْرِ شَيْءٌ مَا قُتِلْنَا هَا هُنَا……………” اگر اختیارات میں ہمارا کوئی حصہ ہوتا تو یہاں ہم نہ مارے جاتے ۔ “ (157 : 3) اور یہ آیت دراصل ان مزعومات کا پیشگی جواب ہے کہ جی ہاں اختیارات الٰہیہ میں کوئی شریک نہیں ہے ‘ نہ فتح کسی کے اختیار میں ہے نہ شکست ۔ تمہارا کام صرف اطاعت امر ہے ‘ ادائے فرض ہے اور مکمل وفاداری ہے ۔ یہی امور تم سے مطلوب ہیں ۔ ان کے بعد نتائج کیا نکلتے ہیں تو بس یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے ۔ ان میں کسی کا دخل نہیں ہے۔ یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کا بھی دخل نہیں ہے ۔ یہ وہ اصلی حقیقت جو اسلامی تصور حیات کے پیش نظر ہے اور اسے نفس انسانی کی گہرائیوں میں جاگزیں ہونا چاہئے اور اسے واقعات ‘ حالات اور افراد کار سے بھی برتر اور بلند ہونا چاہئے ۔ واقعہ بدر کی یہ یاد دہانی اور اسلامی تصور حیات کے ان اساسی حقائق کا اختتامیہ اس عام حقیقت کے اظہار سے ہوتا ہے کہ آخر کار فتح وہزیمت دونوں اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حکیمانہ پالیسی کے تابع ہوتی ہیں اور یہاں آکر اس بیان کے خاتمہ پر ‘ اس سے بھی زیادہ عمومی حقیقت کو سامنے لایا جاتا ہے کہ اس پوری کائنات میں اللہ کا امر جاری وساری ہے ۔ اس لئے جسے وہ چاہتا ہے بخش دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے عذاب میں مبتلا کردیتا ہے ۔
Top