Fi-Zilal-al-Quran - An-Nisaa : 2
وَ اٰتُوا الْیَتٰمٰۤى اَمْوَالَهُمْ وَ لَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِیْثَ بِالطَّیِّبِ١۪ وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَهُمْ اِلٰۤى اَمْوَالِكُمْ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ حُوْبًا كَبِیْرًا
وَاٰتُوا : اور دو الْيَتٰمٰٓى : یتیم (جمع) اَمْوَالَھُمْ : ان کے مال وَلَا : اور نہ تَتَبَدَّلُوا : بدلو الْخَبِيْثَ : ناپاک بِالطَّيِّبِ : پاک سے وَلَا : اور نہ تَاْكُلُوْٓا : کھاؤ اَمْوَالَھُمْ : ان کے مال اِلٰٓى : طرف (ساتھ) اَمْوَالِكُمْ : اپنے مال اِنَّهٗ : بیشک كَانَ : ہے حُوْبًا : گناہ كَبِيْرًا : بڑا
” یتیموں کے مال ان کو واپس دو ‘ اچھے کو برے مال سے نہ بدل لو ‘ ان کے مال اپنے مال کے ساتھ ملا کر نہ کھاو ‘ یہ بہت بڑا گناہ ہے ۔
اور اگر تم یتیموں کے ساتھ بےانصافی کرنے سے ڈرتے ہو تو جو عورتیں تم کو پسند آئیں ان میں سے دو دو ‘ تین تین ‘ چار چار سے نکاح کرلو لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ ان کے ساتھ عدل نہ کرسکو گے تو پھر ایک ہی بیوی کرو یا ان عورتوں کو زوجیت میں لاو جو تمہارے قبضہ میں آئی ہیں ۔ بےانصافی سے بچنے کیلئے یہ زیادہ قرین ثواب ہے ۔ اور عورتوں کے مہر خوشدلی کے ساتھ ادا کرو ‘ البتہ اگر وہ خود اپنی خوشی سے مہر کا کوئی حصہ تمہیں معاف کردیں تو اسے تم مزے سے کھا سکتے ہو ۔ اور اپنے وہ مال جنہیں اللہ نے تمہارے لئے قیام زندگی کا ذریعہ بنایا ہے ‘ نادان لوگوں کے حوالے نہ کرو البتہ انہیں کھانے اور پہننے کیلئے دو اور انہیں نیک ہدایات کرو ۔ اور یتیموں کی آزمائش کرتے رہو ‘ یہاں تک کہ وہ نکاح کے قابل عمر کو پہنچ جائیں پھر اگر تم ان کے اندر اہلیت پاو تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو ‘ ایسا بھی نہ کرنا کہ حد انصاف سے تجاوز کر کے اس خوف سے ان کے مال ہی جلدی جلدی کھا جاو کہ وہ بڑے ہو کر اپنے حق کا مطالبہ کریں گے ۔ یتیم کا جو سرپرست مالدار ہو وہ پرہیز گاری سے کام لے اور جو غریب ہو وہ معروف طریقہ سے کھائے پھر جب ان کے مال ان کے حوالے کرنے لگو تو لوگوں کو اس پر گواہ بناو اور حساب لینے کے لئے اللہ کافی ہے ۔ “ جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا درج بالا موکد ہدایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عربوں کے جاہلی معاشرے میں عورتوں اور بچوں اور ضعفاء کو بری طرح پامال کیا جاتا تھا ، مدینہ طیبہ کے اسلامی معاشرے میں دور جاہلیت کے یہ آثار ابھی تک باقی تھے ‘ اس لئے کہ مدینہ کا اسلامی معاشرہ اصلا عرب کے جاہلی معاشرے سے کٹ کر وجود میں آیا تھا اور قرآن مجید اس کی تہذیت وتربیت کر رہا تھا ‘ اور اسلامی جماعت کو نئی اقدار اور نئے تصورات سے مزین کیا جارہا تھا ‘ مسلمانوں کو نیا شعور دیا جارہا تھا ‘ ان کے اندر نئے خدوخال پیدا کئے جارہے تھے اور جدید رسم و رواج پیدا کئے جارہے تھے ۔ (آیت) ” واتوا الیتمی اموالھم ولا تتبدلوا الخبیث بالطیب ولا تاکلوا اموالھم الی اموالکم ، انہ کان حوبا کبیرا “۔ (2) ترجمہ : ” یتیموں کے مال ان کو واپس دو ‘ اچھے کو برے مال سے نہ بدل لو ‘ ان کے مال اپنے مال کے ساتھ ملا کر نہ کھاو ‘ یہ بہت بڑا گناہ ہے ۔ “ یتیموں کو وہ مال دیدو جو تمہارے تصرف میں ہیں ‘ اور یہ نہ کرو کہ یتیموں کو مال دیتے وقت ردی اموال ان کو دیدو اور قیمتی اپنے پاس رکھ لو ۔ مثلا یہ کہ ان کی اچھی اراضی خود لے لو اور اپنی کم درجے کی اراضی انہیں دیدو ‘ اسی طرح اچھے مویشی خود لے لو اور انہیں بےکار مویشی دیدو ‘ یا تقسیم کرکے وہ انہیں گھٹیا حصہ دیدو ‘ یا نقد مال میں انہیں کھوٹے سکے دیدو کیونکہ نقد میں قیمتی اور کھوٹے دونوں سکے ہوتے ہیں ۔ نیز ان کی دولت کو اپنی دولت کے اندر ملا کر بھی نہ کھاو ۔ سب کا سب یا اس کا کوئی حصہ ۔ اللہ کے نزدیک یہ گناہ کبیرہ ہے ۔ اللہ تمہیں اس گناہ کبیرہ سے متنبہ کرتا ہے ۔ یہ سب واقعات اس وقت سوسائٹی میں بالعموم ہوا کرتے تھے جب اسلام آیا اور لوگوں کو ان ہدایات سے خطاب کیا گیا ۔ اس خطاب ہی سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ مخاطبین کے اندر ایسے لوگ موجود تھے ‘ جن سے اس قسم کی غلطیاں سرزد ہوا کرتی تھیں ۔ اور یہ امور جاہلیت کے آثار باقیہ میں سے تھے ۔ ہر جاہلی نظام میں ایسے ہی امور بالعموم پائے جاتے ہیں ۔ آج ہم گاؤں اور شہروں میں جاہلیت جدیدہ کے نظاموں میں روز ان امور کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔ آج بھی مختلف طریقوں سے یتیموں کے مال کھائے جاتے ہیں ‘ اور اس کیلئے مختلف حیلے اور بہانے تراشے جاتے ہیں ۔ آج کل مفصل قانونی تدابیر اور افسران حکومت کی جانب سے یتیموں کے اموال کی کڑی نگرانی کے باوجود اولیاء زیر کفالت لوگوں کے مال و جائیداد میں خرد برد کرتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے میں جو مشکلات ہیں انہیں قانون سازی اور حکومتی نگرانی کے ذریعہ سے حل نہیں کیا جاسکتا ‘ اس مسئلہ میں یہ چیزیں کبھی بھی کامیاب نہیں سکتیں اس لیے اس کا کوئی حل ہے تو وہ صرف تقوی اور خدا خوفی میں ہے ۔ یہ تقوی ہی ہے جو دل اور ضمیر کے اندر ایک چوکیدار بٹھا دیتا ہے ۔ اور اس کے بعد ہی قانون سازی اور عمال حکومت کی نگرانی موثر ہو سکتی ہے ۔ یہ تقوی ہی تھا جس کی وجہ سے اس آیت کے نزول کے بعد حیران کن واقعات وجود میں آئے ۔ یتیموں کے اولیاء نے اس قدر احتیاط شروع کردی کہ یتیموں کے اموال کو اپنے مالوں سے علیحدہ کردیا گیا ‘ ان کا کھانا پینا جدا کردیا گیا ‘ تاکہ صحابہ کرام اس گناہ کبیرہ میں مبتلا ہونے سے پوری طرح بچ نکلیں ۔ جس کی بابت اللہ تعالیٰ نے ڈراتے ہوئے فرمایا ” یہ بہت بڑا گناہ ہے ۔ “ اس کرہ ارض پر صرف قانون سازی اور اجتماعی تنظیم کے ذریعہ کوئی اصلاحی اسکیم کامیاب نہیں ہوسکتی ۔ قانون سازی اور تنظیم سے پہلے دلوں کے اندر خدا خوفی اور تقوی کا چوکیدار بٹھانا ضروری ہے ۔ جس کا دل پر قبضہ ہو اور ضمیر خود نظم قائم کرنے اور قانون پر عمل کرنے پر آمادہ ہو ‘ اور یہ تقوی اس وقت تک کسی نظم اور قانون کے بارے میں پر جوش نہیں ہوسکتا ۔ جب تک یہ قانون ایسے منبع سے صادر نہ ہو جو تمام انسانی خفیہ رازوں سے واقف نہ ہو ‘ وہ منبع ضمیر پر بھی حکمران نہ ہو ‘ صرف ایسے حالات ہی میں ایک فرد کے دل کے اندر شدید احساس پیدا ہوتا ہے کہ ہو قانون کا احترام کرے ۔ وہ اللہ جل شانہ سے خیانت نہ کرے وہ اس کے حکم اور اس کے ارادے کے ساتھ تصادم کا رویہ اختیار نہ کرے ۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ اس فرد کی نیت اور اس کے اعمال دونوں سے اچھی طرح باخبر ہوتا ہے ۔ اس احساس کے دباو میں ارتکاب گناہ کے معاملے میں اس کے قدم متزلزل ہوجاتے ہیں ۔ وہ ڈر کی وجہ سے کانپنے لگتا ہے اور اس کے جذبہ خدا خوفی میں جوش آجاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو خوب جانتا ہے اور ان کی فطرت سے اچھی طرح واقف ہے ۔ وہ خود انسان کے نفس اور اس کے اعصاب کا خالق ہے ۔ اور اسی نے ان کی تخلیق کی مناسبت سے ان کے لئے اپنے قانون کو قانون قرار دیا ہے ۔ اپنی شریعت قرار دیا ہے ۔ اس کیلئے اپنے نظام زندگی کو نظام قرار دیا ہے ۔ اور اس کے نفاذ کیلئے خود اپنا منہاج اور طریق کار دیا ہے ۔ تاکہ لوگوں کے دلوں میں ان چیزوں کا وزن ہو ۔ اور وہ اس قانون اور منہاج کی خلاف ورزی کی جرات نہ کریں ۔ اور اللہ سے ڈریں ۔ اللہ تعالیٰ کو اچھی طرح علم تھا کہ دنیا میں کوئی بھی قانونی نظام اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک اس کی نسبت ذات باری کی طرف نہ ہو ‘ اس لئے کہ لوگوں کے دلوں میں ذات باری کا خوف اور اس کی رحمت کی امید ہوتی ہے ۔ نیز انہیں پورا یقین ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ دل کی خفیہ باتوں سے واقف ہیں اور وہ دلی بھیدوں کے جاننے والے ہیں ۔ نیز انسان کا بنایا ہوا قانون اس وقت تک چلتا ہے اور اس پر عمل ہوتا ہے جب تک پکڑ دھکڑ کا خوف قائم رہتا ہے اور سخت ترین ظاہری نگرانی اپنا کام کر رہی ہوتی ہے ۔ جس کا دخل اور اثر لوگوں کے دلوں پر نہیں ہوتا لیکن جونہی یہ ظاہری نگرانی کمزور ہوتی ہے لوگ اس قانون کی خلاف ورزی شروع کردیتے ہیں یا جب بھی انہیں حیلے اور بہانے کا موقعہ ملتا ہے ‘ باوجود اس کے کہ انہیں پتہ ہو سکتا ہے کہ اگر وہ پکڑے گئے اور ان کی سخت سرزنش ہوگی اور جانی اور مالی نقصان ہوگا ۔
Top