بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Fi-Zilal-al-Quran - An-Nisaa : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّ خَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَ بَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِیْرًا وَّ نِسَآءً١ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْ تَسَآءَلُوْنَ بِهٖ وَ الْاَرْحَامَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلَیْكُمْ رَقِیْبًا
يٰٓاَيُّھَا : اے النَّاسُ : لوگ اتَّقُوْا : ڈرو رَبَّكُمُ : اپنا رب الَّذِيْ : وہ جس نے خَلَقَكُمْ : تمہیں پیدا کیا مِّنْ : سے نَّفْسٍ : جان وَّاحِدَةٍ : ایک وَّخَلَقَ : اور پیدا کیا مِنْھَا : اس سے زَوْجَهَا : جوڑا اس کا وَبَثَّ : اور پھیلائے مِنْهُمَا : دونوں سے رِجَالًا : مرد (جمع) كَثِيْرًا : بہت وَّنِسَآءً : اور عورتیں وَاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ الَّذِيْ : وہ جو تَسَآءَلُوْنَ : آپس میں مانگتے ہو بِهٖ : اس سے (اس کے نام پر) وَالْاَرْحَامَ : اور رشتے اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے عَلَيْكُمْ : تم پر رَقِيْبًا : نگہبان
” لوگو ! اپنے سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیئے ، اسی خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو ۔ اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔ یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے
درس 03 ایک نظر میں : سورت کا یہ پہلا پیراگراف اپنی افتتاحی آیت کے ساتھ ‘ لوگوں کو صرف رب واحد اور خالق واحد کی طرف رجوع کرنے کی دعوت سے شروع ہوتا ہے ۔ اس میں بتایا جاتا ہے کہ تمام لوگوں کو ایک ہی ماں باپ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ وہ ایک ہی خاندان سے بکھرے ہیں ‘ انسانی نفس ہی دراصل اصل انسانیت ہے ۔ اور انسانی خاندان ہی دراصل انسانی معاشرے کی اکائی ہے ۔ اس لئے نفس انسانی کے اندر خدا خوفی کے جذبات کو جوش میں لایا جاتا ہے اور خاندانی نظام کو جذبہ صلہ رحمی سے مستحکم کیا جاتا ہے تاکہ اس مستحکم اساس پر ایک خاندان کے اندر باہم تکافل (Social Security) اور باہم محبت کے فرائض پر وان چڑھیں ۔ اس کے بعد پوری انسانیت کے اندر باہم محبت اور باہم پشتیبانی کے اصول رائج کئے جاسکیں ۔ غرض اس سورت کے اندر کی جانے والی تمام قانون سازی اور انسانیت کی تمام شیرازہ بندی اسی اصول پر کی گئی ہے ۔ آیات کا یہ حصہ درج بالا اصول وقوانین کے ساتھ ساتھ کسی معاشرے یا کسی خاندان کے اندر پائے جانے والے یتیموں کے بارے میں معاشرتی اور اجتماعی ذمہ داریوں کے حوالے سے بھی ہدایات دیتا ہے ۔ یتیموں کے بارے میں ہدایات دی گئی ہیں کہ ان کی نگرانی کس طرح کی جائے ، ان کے مال کی نگہداشت کس طرح ہو ‘ نیز افراد خاندان کے درمیان میراث کی تقسیم کے اصول بھی وضع کئے گئے ہیں ، جن میں مختلف اطراف کے رشتہ داروں کے حصص کا تعین بھی کیا گیا ہے ۔ مختلف حالات میں حصص کا فرق بھی بتایا گیا ہے ۔ اور یہ سب کچھ اس ہمی گیر انسانی اصول کی روشنی میں کیا گیا ہے جس کا ذکر آیت افتتاحیہ میں بیان ہوا ہے ۔ یہ ہمی گیر انسانی اصول بعض آیات کی ابتدا میں بعض کے در میان میں اور بعض آیات کے خامتہ پر اس سبق میں بار بار دہرایا گیا ہے ۔ اور اس حقیقت کی توثیق کی گئی ہے کہ ان تمام ہدایت اور قانون سازی اس کا خصوصی حق ربوبیت ہے ۔ اسلامی نظام میں ہر قسم کی قانون سازی اللہ جل شانہ کی اس شان ربوبیت کا اظہار ہے ۔ موجودہ آیت کی تفسیر۔ ترجمہ : ” لوگو ! اپنے سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیئے ، اسی خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو ۔ اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔ یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے ۔ “ یہ خطاب تماما نسانیت سے ہے ۔ بحیثیت انسان ان سے خطاب ہے تاکہ وہ سب کے سب رب واحد کی طرف لوٹ آئیں ۔ وہی تو ہے جس نے ان کی تخلیق کی ہے اور پھر اس نے ان سب انسانوں کو ایک ہی جان سے پیدا کیا ہے ۔ پھر اس جان سے اس کیلئے جوڑا تخلیق کیا اور پھر ان دونوں سلسلہ نسب چلا کر بہت سے مرد اور عورتوں کو پوری دنیا میں پھیلا دیا ۔ بظاہر تو یہ باتیں بہت سادہ اور ابتدائی معلوم ہوتی ہیں لیکن درحقیقت یہ عظیم حقائق ہیں ۔ یہ بہت ہی بھاری باتیں ہیں اور انسانی زندگی پر ان کے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں اگر یہ ” لوگ “ ان باتوں پر کان دھریں ‘ اور انہیں سمجھنے کی کوشش کریں تو ان باتوں سے اس کرہ ارض پر حیات انسانی کے اندر عظیم تغیر واقعہ ہوجائے اور لوگ جاہلیت یا مختلف جاہلیتوں سے نکل کر ایمانی زندگی ‘ ہدایت یافتہ زندگی اور انسانیت کے لائق مہذب زندگی کی جانب بسہولت منتقل ہوجائیں ‘ یہ مہذب زندگی نفس انسانی کے حسب حال ہوگی اور اس کے خالق اور رب کی مرضی کے مطابق بھی ہوگی ۔ اس آیت میں وہ ابتدائی حقائق بیان ہوئے ہیں ‘ وہ قلب ونظر کیلئے درج ذیل میدان فراہم کرتے ہیں : (1): ۔ اس میں پوری انسانیت کو یہ بتایا ہے کہ اس کی اصل کیا ہے ؟ اور اسے یہ مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ اپنے اس خالق کی طرف رجوع کرے جس نے اسے پیدا کرکے اس زمین پر بسایا ہے ۔ یہ آیات بتاتی ہے کہ ” انسانیت “ نے چونکہ اپنی اس اصلیت کو فراموش کردیا ہے ۔ اس لئے وہ سب کچھ بھول گئی ہے اور اس کا کوئی کام درست نہیں رہا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ لوگ اس کرہ ارض پر تشریف لائے ‘ جبکہ پہلے وہ اس پر نہ تھے ۔ سوال یہ ہے کہ اس جہاں میں انہیں کون لایا ہے ؟ یہاں وارد ہونے میں ان کے اپنے ارادے کا دخل نہیں ہے ۔ اس لئے کہ یہاں آنے سے قبل وہ معدوم تھے اور کسی معدوم کیلئے ارادے کا تصور ممکن نہیں ہے ۔ اس لئے کہ معدوم تو اس جہاں میں آنے اور نہ آنے کا کوئی فیصلہ کر ہی نہیں سکتا ۔ اس لئے لازما انسان کے علاوہ کسی اور ذات نے انسانوں کو یہاں لا کر بسایا ۔ یہ ارادہ ذات انسان سے علیحدہ ارادہ تھا ۔ ایک بالا ارادہ تھا جس نے تخلیق انسانیت کا فیصلہ کیا ۔ اور یہ ” خالق ارادہ “ انسانی ارادہ نہ تھا ۔ اس بالائی ارادہ نے انسانیت کیلئے یہاں جینے اور زندگی بسر کرنے کے خطوط وضع کئے اسی دوسرے ارادہ نے انسان کو وجود بخشا ‘ انسان کو انسانی خواص عطا کئے ، انسان کو اس کے خواص اور صلاحیتیں دیں ۔ انسان کو وہ قوانین عطا کیے کہ وہ انہیں کام میں لا کر اس کائنات کے ساتھ ہم آہنگی اختیار کرے ۔ اس لئے کہ وہ اس کائنات میں نووارد تھا اور وہ جہاں سے آیا ‘ اس کے بارے میں بھی انسان کو کچھ علم نہ تھا ۔ نہ انسان کے اندر ان کے علاوہ صلاحیتیں تھیں جو اس ارادہ بالا نے انسان کو عطا کیں۔ یہ ہے وہ حقیقت کہ اگر موجودہ انسان اسے ذہن نشین کرلے تو وہ پہلے دن سے راہ راست پالے ۔ جبکہ یہ حقیقت ہے بھی بالکل واضح لیکن افسوس یہ ہے کہ انسان اس بدیہی حقیقت کبری سے مکمل طور پر غافل ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ برتر اور عظیم ارادہ الہیہ جو انسان کو یہاں لایا ‘ یہاں اس نے انسان کو زندگی گزارنے کے خطوط دیئے اور اس کائنات میں زندگی بسر کرنے کی قدرت اور صلاحیت اسے عطا کی ۔ یہی عظیم ارادہ انسان کی پوری کائنات کا مالک ہے ۔ یہی ہے جو انسانی امور میں ہر قسم کا تصرف کر رہا ہے ۔ اور یہی وہ ارادہ ہے جو انسانیت کیلئے ہر قسم کی تدبیر یہاں کرتا ہے ۔ اس لئے یہی ارادہ الہیہ اس بات کا مستحق ہے کہ وہ انسان کیلئے نظام زندگی کے خطوط متعین کرے ۔ انسان کیلئے ضابطے اور قوانین وضع کرے ۔ اس کیلئے اقدار حیات اور حسن وقبح کے اصوال وضع کرے ۔ یہی ارادہ ہے جس کی طرف انسان کو رجوع کرنا چاہئے یہی وہ ارادہ ہے کہ جس کے حسن وقبح کے پیمانوں اور جس کے قوانین کی طرف رجوع کرنا فرض ہے ۔ اس وقت جب کہ اس امر کے بارے میں ان کے درمیان اختلاف واقعہ ہوجائے ۔ اس لئے کہ وہ ارادہ رب العالمین ہے جو وحدہ لا شریک ہے ۔ (2) :۔ یہ حائق جو اس آیت میں بیان ہوئے ہیں اس بات کا مظہر ہیں کہ یہ بشریت ایک ہی ارادے کے نتیجے میں عالم وجود میں آئی ہے ۔ تمام انسان ایک ہی رحم مادر سے پیدا ہوئے ہیں ۔ ان کے درمیان ایک ہی رشتہ ہے ۔ وہ ایک ہی جڑ سے پھیلے ہوئے ہیں اور یہ کہ ان کا نسب نامہ بھی ایک ہے ۔ (آیت) ” یایھا الناس اتقوا ترجمہ : ” لوگو ! اپنے سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیئے ۔ “ اگر لوگ اس ایک حقیقت کو ہی اچھی طرح ذہن نشین کرلیں تو بیشتر فرقہ بندیاں جو ان کے افکار پر چھائی ہوئی ہیں ختم ہو کر رہ جائیں ، جو ان بعد کے ادوار میں انسانوں کی عملی زندگی میں پیدا ہوگئی ہیں ‘ جنہوں نے ایک ہی جان سے پیدا ہونے والے عوام الناس کے اندر فرقے فرقے پیدا کردیئے ہیں ۔ اور ایک ہی ماں سے پیدا ہونے والوں کو ٹکڑے ٹکرے کر کے رکھ دیا ہے ۔ جبکہ انسانوں کے اوپر یہ حالات بعد میں طاری ہوئے اور مناسب نہ تھا کہ یہ حالات انسانوں کے درمیان رحم و محبت کے حقیقی جذبات کو ختم کردیں ، حالانکہ اس رحم و محبت کا پاس ضروری تھا ، ایک جان کی اولاد ہونے کے ناطے باہم انسانی محبت ضروری تھی اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے رب اور خالق کے ساتھ رابطہ اور اس کے حقوق کا لحاظ اور اس کا ڈر اور تقوی دل میں رکھنا ضروری تھا ۔ اگر صرف اسی حقیقت کو مستحکم کر دیاجائے تو تمام فرقہ وارانہ کشیدگیاں ختم ہوجائیں ۔ اس وقت پوری انسانیت فرقہ وارانہ کشیدگی کی تباہ کاریوں کا مزہ اچھی طرح چکھ چکی ہے ۔ اس کرہ ارض پر فرقہ وارانہ کشیدگیاں قائم ہیں اور رنگ ونسل کی اساس پر قومتیں قائم ہیں اور لوگوں کے اپنا انسانی شجرہ نسب پوری طرح بھلا دیا ہے ۔ اور پھر اپنے رب کے ساتھ تعلق ربوبیت کو بھی پس پست ڈال دیا ہے ۔ اگر اس حقیقت کو انسان قبول کرلیں اور اچھی طرح اپنے نظریات میں مستحکم کردیں تو ہندوستان میں جو طبقاتی غلامی کا نظام رائج ہے وہ اس دنیا سے فی الفور مٹ جائے ۔ اسی طرح مشرق کے سوشلسٹ ممالک کے اندر طبقاتی جنگوں میں جو خون پانی کی طرح بہہ رہا ہے وہ ختم ہوجائے اور قومیت کا وہ فتنہ بھی ختم ہوجائے جو جاہلیت جدیدہ کے فکری تصورات اور فلسفوں کا فائدہ اساسی ہے ۔ اور یہ دنیا سے طبقاتی کشمکش کے خاتمے کا نقطہ آغاز بن جائے جن میں ہمیشہ کوشش یہ ہوتی ہے کہ کسی ایک طبقے کو دوسرے طبقات پر قیادت وسیادت کا مقام حاصل ہوجائے ۔ اور جس میں اس حقیقت کو فراموش کردیا جاتا ہے کہ انسان تو سب کے سب دراصل ایک ہی جان سے پیدا ہوئے ہیں اور ان کا پیدا کرنے والا رب ذوالجلال بھی ایک ہی ہے ۔ (3):۔ تیسری حقیقت جس کی طرف یہاں اشارہ کیا گیا ہے ۔ وہ یہ ہے کہ انسانیت نفس واحد سے تخلیق ہوئی ہے ۔ اور اس نفس سے پھر اس کیلئے جوڑا پیدا کیا گیا ‘ اگر انسانیت اس پر غور کرے اور اس کی حقیقت کو پالے تو وہ ہمت کر کے ان غلطیوں اور اذیت ناک تصورات کی تلافی کرلے گی جن میں وہ صنف نازک کے بارے میں مختلف اوقات میں مبتلا رہی ہے ۔ انسانیت نے عورت کے ساتھ عجیب و غریب تصورات وابستہ کئے ۔ اسے گندگی اور گناہ کا منبع سمجھا گیا ۔ اسے ہر مصیبت اور ہر شر کا سبب گردانا گیا ۔ حالانکہ وہ اپنی فطرت اور اپنے مزاج کے اعتبار سے نفس اول یعنی آدم کا جزء تھی ۔ اور اسے اللہ تعالیٰ نے پیدا ہی اس لئے کیا تھا کہ وہ اس کی ہم نشین وہمدم ہو اور اس کے ذریعہ سے انسان کی نسل کشی کی جائے ۔ اسی لئے مرد و عورت کی فطرت میں فرق نہیں ہے بلکہ ان کی استعداد اور ان کی صنفی فرائض میں فرق ہے ۔ اس معاملہ میں ‘ انسانیت ایک عرصہ تک بادیہ پیمائی کرتی رہی اور گمراہ ہوتی رہی ۔ اس نے عورت کو تمام انسانی حقوق سے محروم رکھا اور اس کی خاصیت انسانی سے بھی انکار کیا ۔ ایک عرصہ تک بچاری پر مظالم ہوتے رہے ۔ اور یہ محض ان غلط خیالات و تصورات کی وجہ سے جن کی کوئی حقیقت نہ تھی لیکن جب ان غلط خیالات کی تصحیح کی گئی تو ترازو کے دوسرے پلڑے کو بہت ہی بھاری کردیا گیا ۔ عورت کو شتر بےمہار بنا دیا گیا ۔ وہ اپنی اس حیثیت کو بھول گئی کہ بیشک وہ انسان ہے لیکن اسے دوسرے انسانوں کیلئے پیدا کیا گیا ہے ۔ وہ ایک جان ہے لیکن اسے دوسری جان کے لئے پیدا کیا گیا ہے ۔ وہ انسانیت کا ایک حصہ ہے لیکن وہ دوسرے حصے کیلئے تکمیلی ہے ۔ مرد اور عورت دونوں علیحدہ مکمل شخصیات نہیں ہیں بلکہ وہ جوڑا ہیں اور ایک دوسرے کیلئے تکمیلی حیثیت کے حامل ہیں ۔ اس عظیم اور طویل گمراہی کے بعد اسلامی نظام زندگی نے انسانیت کو واپس لا کر اصل شاہراہ پر ڈالا اور اسے صحیح تصورات دیئے ۔ (4):۔ اس آیت میں اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ پایا جاتا ہے کہ زندگی کا ابتدائی سیل (Cell) خاندان ہے ۔ دنیا میں منشائے الہی یہ ہے کہ یہ انسانی پودا ایک خاندان میں پھلے پھولے ‘ اس لئے ابتداء ایک جان پیدا کی گئی اس کے بعد اس جان ہی سے اس کیلئے جوڑا پیدا کیا گیا ۔ اس طرح یہ ابتدائی خاندان دو افراد پر مشتمل تھا ۔ اور اس کے بعد ” ان دو سے بہت سے مرد اور عورتیں پیدا کی گئیں ۔ “ اگر اللہ کی مرضی ہوتی تو وہ پہلے سے بہت سے مرد اور بہت سی عورتیں پیدا فرما دیتا اور اس کے بعد انہیں بہت سے جوڑوں کی شکل دیدی جاتی ۔ اور ابتداء ہی میں بہت سے خاندان وجود میں آجاتے ۔ اور ابتداء ہی سے ان کے درمیان رحم مادر کا رشتہ نہ ہوتا اور ان کے درمیان صرف یہ رابطہ ہوتا کہ انہیں ایک ہی صانع کی مخلوق کی پہلی کھیپ ہونے کا مشترکہ تعلق حاصل ہے اور بس ۔ اور صرف یہی ان کے درمیان پہلا تعلق اور ربط ہوتا ، لیکن اللہ تعالیٰ علیم وخبیر تھا ‘ اس کے پیش نظر ایک حکمت تھی ‘ اللہ تعالیٰ انسانوں کے درمیان پختہ رابطے قائم کرنا چاہتے تھے ۔ پہلا رابطہ یہ تھا کہ ان کا رب ایک ہی تھا اور یہی تمام انسانی رابطوں کا سرچشمہ تھا اور ہے ۔ اس کے بعد باہم صلہ رحمی کا رشتہ آتا ہے ‘ جس کی وجہ سے ایک خاندان وجود میں آتا ہے ۔ جو ایک مرد اور ایک عورت سے شروع ہوتا ہے ۔ یہ دونوں ایک ہی نفس سے پیدا ہوئے ‘ ان کی طبیعت بھی ایک ہے ۔ فطرت بھی ایک ہے ابتدائی خاندان بھی ایک جس سے پھر بہت سے مرد اور عورت پھیلے ۔ ان تمام افراد کے درمیان پہلا رابطہ وحدانیت ربوبیت ‘ اس کے بعد ان کے درمیان وحدت خاندان کا رابطہ ہے ۔ اور خاندان وہ ابتدائی سیل ہے ‘ جس کے اوپر انسانی معاشرے کی بنیاد رکھی جاتی ہے ۔ لیکن عقیدہ اور نظریہ اس خاندانی رابطے سے بھی پہلے نمبر پر آتا ہے ۔ یہ حکمت ہے کہ اسلامی نظام زندگی میں خاندانی نظام کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے ۔ اور خاندان کی شیرازہ بندی اور پختگی کیلئے تمام تدابیر اختیار کی جاتی ہیں ۔ اس کی اساس کو مستحکم کیا جاتا ہے اور اسے ان تمام عوامل اور موثرات سے بچایا جاتا ہے ‘ جو کسی بھی طرح اس کی کمزوری کا باعث ہوں ، خاندانی نظام کی تباہی میں سب سے پہلا موثر عامل یہ ہوتا ہے کہ انسان فطری روش کے خلاف طریق کار اختیار کرے ۔ اور مرد کی صلاحیتوں اور عورت کی صلاحیتوں کا اچھی طرح ادراک نہ کرے نیز مرد اور عورت دونوں کی صلاحیتوں کے اندر توازن پیدا نہ کیا جائے اور ان قوتوں کو مرد اور عورت پر مشتمل ایک خاندان کی تشکیل اور تعمیر میں استعمال نہ کیا جائے ۔ اس سورت میں اور اس کے علاوہ دوسری سورتوں میں بھی اسلامی نظام میں خاندان کی تشکیل اور تقویت کے سلسلے میں بیشمار تدابیر اختیار کی گئی ہیں ۔ لیکن خاندانی نظام کو اچھی طرح مضبوط بنیادوں پر اس وقت تک استوار نہ کیا جاسکتا تھا ‘ جب تک عورت ذات کے ساتھ دور جاہلیت کا ظالمانہ سلوک روا رکھا جاتا ۔ چاہے یہ جاہلیت قدیمہ ہو یا جدیدہ ہو ‘ اور جب تک عورت کے بارے میں ان توہین آمیز افکار وخیالات کا قلع قمع نہ کردیا جاتا جو دور جاہلیت میں اس سے وابستہ تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے سب سے پہلے عورت پر ہونے والے مظالم کو ختم کیا اور اس کے بعد قرآن نے اسے انسانی معاشرہ میں ایک معزز مقام دیکر اس کے بارے میں فرسودہ تصورات کو دفع کیا ۔ (1) (دیکھئے میری کتاب ” اسلام اور عالم امن “ کا باب ” گھر کی سلامتی “۔ (5): ۔ سب سے آخر میں یہ بات قابل لحاظ ہے کہ ایک ہی جان اور ایک ہی خاندان میں پیدا کرنے کے بعد تمام افراد بنی نوع انسانی کے اندر اشکال اور صلاحیتوں کا یہ عظیم فرق ‘ جس میں کوئی دو فرد ‘ تاریخ انسانی کے پورے عرصے میں ‘ کبھی بھی باہم کلی طور پر مماثل نہیں ہوئے ‘ جبکہ گزشتہ تاریخی ادوار میں آنے اور جانے والے افراد کی تعداد کا بھی علم نہیں ہے ‘ یہ شکلوں کا اختلاف ‘ خدوخال کا تباین ‘ طبیعت اور مزاج کا اختلاف شعور اور اخلاق کا اختلاف استعداد اور صلاحتیوں کا اختلاف ‘ رجحانات اور دلچسپیوں کا اختلاف غرج یہ ہمہ گیر اور ہمہ پہلو اختلاف اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بےمثال خالق اور موجد ہے ۔ وہ حکیم وعلیم ہے اور اس کے اس پیدا کردہ انسانی باغ میں رنگا رنگ پھولوں میں قلب ونظر کا غیر مختتم سامان ہے ۔ ہر بچہ جو پیدا ہوتا ہے وہ ایک نئی شخصیت لئے ہوئے ہے ۔ اور اپنی مثال آپ ہے ‘ اور یہ کام صرف قادر مطلق ہی کا ہے ‘ اور یہ کاریگری ذات باری تعالیٰ کے سوا کسی اور کے حیطہ قدرت میں نہیں ہے ۔ وہ ذات ہے جس کا ارادہ بےقید ہے ۔ اور وہ جو چاہتا ہے ہوتا ہے ۔ وہ کن فیکون ہے اور عظیم ہے اور لاتعداد انسانی شخصیت کے اندر یہ کلی امتیاز وتباین صرف وہی قائم کرسکتا ہے ۔ جبکہ تمام انسان صرف ایک ہی باپ آدم سے پھیلے ہیں ۔ اس نہج پر انسانی شخصیات وافراد پر غور وفکر اس بات کیلئے ضامن ہے کہ تقوی اور ایمان کے اساسی توشہ پر قلب مومن کو انس و محبت کا مزید سامان عطا کرے ۔ یہ غور وفکر نفع کے اوپر مزید نفع ہے اور خیالات کی بلندی پر مزید سربلندی ہے ۔ خیالات و افکار کے اس جم غفیر کے بعد اس آیت افتتاح کے خاتمے پر لوگوں کو خدا خوفی کی دعوت دی جاتی ہے ۔ اس خدا کی خشیت کی طرف لوگوں کو بلایا جاتا ہے جس کے نام پر وہ ایک دوسرے سے سوال کرتے ہیں ۔ اور اس کے نام کا واسطہ دیتے ہیں ‘ نیز لوگوں کو اس طرف متوجہ کیا جاتا ہے کہ وہ باہم تعلقات میں صلہ رحمی کا خیال رکھیں ‘ اس لئے کہ تم سب لوگوں کی اصل تو بہر حال ایک ہی ہے ۔ ” اس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو۔ “ اس خدا سے ڈرو ‘ جس کے نام پر تم ایک دوسرے کے ساتھ معاہدے کرتے ہو ‘ ایک دوسرے کے ساتھ عقد کرتے ہو اور تم میں سے بعض لوگ بعض دوسروں سے اپنے حقوق اور وفاداری کا مطالبہ اس کے نام کے ساتھ کرتے ہیں ‘ تم اس کے نام کے ساتھ قسمیں کھاتے ہو ‘ غرض آپس کے روابط ‘ تعلقات ‘ رشتہ داریوں اور باہمی معاملات میں خدا خوفی کا طرز عمل اختیار کرو ۔ قرآن کریم میں تقوی اور خدا خوفی کا مفہوم واضح ہے ‘ اس لئے کہ قرآن کریم میں بار بار اس کا ذکر ہوا ہے رہی یہ بات کہ رشتہ و قرابت کے تعلقات سے ڈرو ‘ یہ ایک عجیب قسم کا انداز کلام ہے جس کا شعوری سایہ نفس پر سایہ فگن ہوتا ہے ۔ اور اس شعوری پر تو کا نفس انسانی خود بخود مفہوم نکال لیتا ہے یعنی رشتہ قرابت سے ڈرو ‘ ان تعلقات کے بارے میں اپنے احساس کو تیز کرو ‘ ان کے حقوق کا احساس کرو ‘ ان حقوق کی پامالی اور ان میں ظلم سے بچو ‘ ان کو چھونے اور خراش لگانے سے بچو ‘ رشتہ میں اذیت نہ دو ‘ رشتہ داروں کے جذبات مجروح نہ کرو اور ان کے حقوق تلف نہ کرو ‘ غرض رشتہ کے معاملے میں احساس کو تیز رکھو ‘ احترام کرو اور رشتہ کو محبت دو اور محبت کے سایہ میں رہو۔ اختتام اللہ کی نگرانی میں ہوتا ہے ۔ ” یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے “ اور اس کی نگرانی کس قدر ہولناک ہوتی ہے ‘ جب ذات باری خود نگران ہو ! وہ رب ہے ‘ خالق ہے اور اپنی تمام مخلوق کی بابت اچھی طرح باخبر ہے ‘ وہ ایسا علیم وخبیر ہے جس پر کوئی بات مخفی نہیں رہتی ۔ نہ ظاہری افعال اس سے پوشیدہ ہیں اور نہ خفیہ افکار اس سے پوشیدہ ہیں۔ اس پر شوکت اور موثر افتتاحی اور اس کے اندر بیان ہونے والے سادہ فطری حقائق اور پوری انسانیت کیلئے عظیم اساسی اصول کے بیان کے بعد ایسی بنیادی باتوں کا تذکرہ شروع کیا جاتا ہے جن پر کسی معاشرے کا اجتماعی نظام اور اجتماعی زندگی استوار ہوتی ہے ۔ مثلا خاندان اور جماعت کا باہم معاشی تعاون وتکافل ‘ معاشرہ میں ضعیفوں کے حقوق کا تحفظ ‘ معاشرہ میں عورت کے حقوق کا تحفظ اور اس کیلئے مقام شرافت کا تعین ‘ معاشرہ کی عمومی دولت کا تحفظ ‘ میراث اور ترکہ کی ایسی تقسیم جو عدل و انصاف کی کفیل ہو اور جس میں تمام افراد معاشرے کی بھلائی ہو ۔ سب سے پہلے ان لوگوں کو حکم دیا جاتا ہے جو یتیموں کے اموال کے نگران مقرر ہوئے ہیں کہ جب وہ یتیم سن رشد کو پہنچ جائیں تو ان کی پوری دولت انہیں لوٹا دی جائے اور یہ کہ یہ اولیاء ان یتیم لڑکیوں کے ساتھ محض اس لئے نکاح نہ کریں کہ ان کی دولت انکے قبضے میں آجائے ، ہاں یتیموں میں سے ایسے لوگ جن کے بارے میں یہ خوف ہو کہ اگر ان کی دولت ان کے حوالے کردی گئی تو وہ اسے تلف کردیں گے تو اس بات کی اجازت ہے کہ ان کی دولت انہیں نہ دی جائے اس لئے کہ ہر شخص کی دولت دراصل معاشرے کی اجتماعی دولت ہوتی ہے ۔ اس میں معاشرے کی اجتماعی مصلحت ہوتی ہے ۔ اس لئے یہ مال ایسے شخص کے حوالے نہیں کیا جاسکتا جو اسے برباد کر دے ۔ اگرچہ وہ مالک ہو ‘ اور یہ کہ عورتوں کے ساتھ حسن معاشرت عدل و انصاف کے اصولوں کے مطابق کی جائے ۔
Top