Tafseer-e-Haqqani - An-Nahl : 28
وَ الَّذِیْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَ لَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَاۤ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ۠   ۧ
وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ جَآءُوْ : وہ آئے مِنْۢ بَعْدِهِمْ : ان کے بعد يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں رَبَّنَا : اے ہمارے رب اغْفِرْ لَنَا : ہمیں بخشدے وَلِاِخْوَانِنَا : اور ہمارے بھائیوں کو الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے سَبَقُوْنَا : ہم سے سبقت کی بِالْاِيْمَانِ : ایمان میں وَلَا تَجْعَلْ : اور نہ ہونے دے فِيْ قُلُوْبِنَا : ہمارے دلوں میں غِلًّا : کوئی کینہ لِّلَّذِيْنَ : ان لوگوں کیلئے جو اٰمَنُوْا : وہ ایمان لائے رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اِنَّكَ : بیشک تو رَءُوْفٌ : شفقت کرنیوالا رَّحِيْمٌ : رحم کرنے والا
(اور وہ ان لوگوں کے لئے بھی ہے) جو ان اگلوں کے بعد آئے ہیں ، جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں اور ہمارے ان سب بھائیوں کو بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں اور ہمارے دلوں میں اہل ایمان کے لئے کوئی بغض نہ رکھ ، ہمارے رب ، تو بڑا مہربان اور رحیم ہے۔ “
والذین .................... رءوف رحیم (95 : 01) ” جو ان اگلوں کے بعد آئے ہیں ، جو کہتے ہیں کہ ” اے ہمارے رب ہمیں اور ہمارے ان سب بھائیوں کو بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں اور ہمارے دلوں میں اہل ایمان کے لئے کوئی بغض نہ رکھ ، ہمارے رب ، تو بڑا مہربان اور رحیم ہے۔ “ یہ تیسری تصویر ہے جو نہایت پاکیزہ ، راضی رضا اور سمجھنے والے لوگوں کی تصویر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو مہاجرین وانصار کے بعد آئے۔ اس آیت کے نزول کے وقت وہ تو مدینہ میں موجود نہ تھے ؟ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کے ازلی علم میں آچکے تھے جو زمان ومکان کے حدود سے وراء ہے اور یہ دنیا میں بعد میں آنے والے تھے۔ اللہ نے پیشگی ان کی صفات بیان کردی کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو اللہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ وہ اپنی ذات کے لئے نہیں بلکہ سلف صالحین کے لئے طلب مغفرت کرتے ہیں اور وہ تمام مومنین کے لئے اپنے دل صاف رکھنے والے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ ان کے دل صاف ہوں۔ کیونکہ دونوں کے درمیان ایمانی رشتہ موجود ہے۔ وہ دونوں پر اللہ کی رحمت ہوئی ہے کہ ان کو مومن بنایا ہے۔ اور اللہ تو رؤف رحیم ہے۔ ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس امت کا چہرہ کس قدر روشن ہے اور وہ اس کائنات میں کس قدر روشنی بکھیرنے والی امت ہے۔ اس کا رشتہ ایمانی اس قدر مضبوط ہے کہ اس کا آغاز اس کے انجام سے منسلک ہے اور بندھا ہوا ہے۔ اور اس کا آخری حصہ اول حصے سے بندھا ہوا ہے۔ وہ ایک دوسرے کے ضامن ، کفیل ، محب اور رحم کرنے والے ہیں۔ اور بلالحاظ قوم ونسب ، اور بلالحاظ دوری زمان ومکان وہ ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہیں۔ یہ امت مسلمہ مسلمانوں کے شعور پر مسلسل چھائی رہی۔ یوں اہل ایمان قیامت تک گزشتہ لوگوں۔ الذین ................ بالایمان (95 : 01) کو یاد کرتے رہیں اور اس امت کو مسلمان اس طرح یاد کرتے ہیں جس طرح کوئی اپنے بھائیوں کو یاد کرتا ہے ، نہایت اعزاز ، عزت اور محبت میں ، قدماء نے آنے والوں کا خیال رکھا اور آنے والے اگلوں کو یاد کرتے ہیں۔ یہ سب ایک صف ہیں ، ایک ہی رجمنٹ ہیں ، اور زمانے گزر گئے ہیں۔ ایک ہی جھنڈا ہے۔ ایک ہی ہدف ہے۔ ایک ہی افق ہے۔ اور ان کا ایک ہی رب ہے جو رؤف ورحیم ہے۔ یہ اسی روشن تصویر ہے جس سے آنکھیں چندھیاجاتی ہیں۔ لیکن وہ ایک زندہ حقیقت کی طرح کھڑی ہے۔ اور یہ امت انسانیت کے لئے ایک بہترین مثال ہے۔ ایک نہایت شریفانہ کریمانہ مثال پوری انسانیت کے لئے۔ ایسی خوبصورت مثال جس حد تک کوئی تصور کرسکتا ہے۔ یہ تصویر اس وقت بہت ہی خوبصورت لگتی ہے جب ہم اپنے دور کی ایک امت کے ساتھ اس کا تقابلی مطالعہ کریں۔ ہمارے دور کی یہ امت کارل مارکس کی انجیل ” کیپٹل “ کی اساس پر وجود میں آئی ہے۔ یہ ایک ایسی امت ہے جس کے دلوں میں بغض وعداوت جوش مارتی ہے۔ طبقات ایک دوسرے کے خلاف لڑتے اور کشت وخون کرتے نظر آتے ہیں اس امت کے تصور کے مطابق انسانی تاریخ جنگ اور کشمکش اور نفرت کی تصویر ہے اور پھر اس امت کو تمام اہل دین کے ساتھ نفرت ہے۔ ذرا دوبارہ امت محمدیہ اور امت کارل مارکس کے درمیان تقابل کیجئے۔ امت محمدیہ انسانیت کو اس کے اعلیٰ مراتب تک بلند کرتی ہے ۔ جبکہ یہ دوسری امت انسانیت کو ذلت کی انتہائی پستیوں تک گراتی ہے۔ امت محمدیہ کی تصویر یہ ہے کہ زمان ومکان کی حدود سے ماوراء ، نسل اور وطن کی حد بندیوں سے آزاد نسب اور خاندان کے محدد دائروں سے باہر ، تمام انسانوں کو ایک دوسرے کا ضامن ، کفیل ، دوست اور واقف کار بناتی ہے اور سب کو ایک اونچے ہدف کی طرف بلند کرتی ہے اور ہدف ہے اللہ کی بندگی .... ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود وایاز .... جن کے دل صاف ہیں اور بگلوں پچھلوں کے درمیان کوئی دشمنی نہیں ہے ایک دوسرے کے ہمدرد ہیں اور ایک دوسرے کے حوالے سے دل صاف ہیں۔ جبکہ دوسری تصویر یہ ہے کہ اس میں لوگ ایک دوسرے کو ذبح کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ، بعض دوسروں کو دھوکہ دیتے ہیں ، ان کا استحصال کرتے ، سازشیں کرتے ہیں اس کے مقابلے میں دوسرے ان سے بغض ، حسد اور نفرت کرتے ہیں۔ پوری انسانی تاریخ عبارت ہے ، اظہار نفرت سے۔ یہاں تک کہ عبادت گاہوں میں بھی نفرت ہے۔ ان کے نزدیک نماز بھی دراصل ایک جال ہے۔ اور مذہب ایک دھوکہ ہے جس کے ذریعہ مالدار لوگ غریبوں کا استحصال کرتے ہیں۔ اور ان دو تصاویر کو دیکھتے ہوئے اس آیت کو پھر پڑھئے : ربنا اغفرلنا ................ رءوف رحیم (95 : 01) ” اے ہمارے رب ہمیں اور ہمارے ان سب بھائیوں کو بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں اور ہمارے دلوں میں اہل ایمان کے لئے کوئی بغض نہ رکھ ، اے ہمارے رب ، تو بڑا مہربان اور رحیم ہے “۔ یہ ہے قافلہ ایمان اور یہ ہے دعائے اہل ایمان۔ یہ نہایت ہی معزز قافلہ ہے اور یہ نہایت ہی کشادہ آدمی کی دعا ہے۔ اس خوبصورت تصویر کشی اور اسے نہایت ہی بلند مقام پر نور کے فریم میں نصب کرنے کے بعد ، اب مضمون اس موضوع پر آتا ہے جس کے بارے میں یہ سورت نازل ہوئی ہے۔ اب یہاں ایک دوسرے گروہ کی کریمہ تصویر سامنے آتی ہے۔ یہ ہے گروہ منافقین :
Top