Fi-Zilal-al-Quran - Al-A'raaf : 170
وَ الَّذِیْنَ یُمَسِّكُوْنَ بِالْكِتٰبِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ١ؕ اِنَّا لَا نُضِیْعُ اَجْرَ الْمُصْلِحِیْنَ
وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ يُمَسِّكُوْنَ : مضبوط پکڑے ہوئے ہیں بِالْكِتٰبِ : کتاب کو وَاَقَامُوا : اور قائم رکھتے ہیں الصَّلٰوةَ : نماز اِنَّا : بیشک ہم لَا نُضِيْعُ : ضائع نہیں کرتے اَجْرَ : اجر الْمُصْلِحِيْنَ : نیکو کار (جمع)
جو لوگ کتاب کی پابندی کرتے ہیں اور جنہوں نے نماز قائم کر رکھی ہے ، یقیناً ایسے نیک کردار لوگوں کا اجر ہم ضائع نہیں کریں گے
وَالَّذِيْنَ يُمَسِّكُوْنَ بِالْكِتٰبِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ ۭاِنَّا لَا نُضِيْعُ اَجْرَ الْمُصْلِحِيْنَ ۔ جو لوگ کتاب کی پابندی کرتے ہیں اور جنہوں نے نماز قائم کر رکھی ہے ، یقیناً ایسے نیک لوگوں کا اجر ہم ضائع نہیں کریں گے " یہ ان لوگوں پر ایک طنز ہے جن سے یہ عہد لیا گیا تھا کہ وہ کتاب کو مضبوطی سے پکڑیں اور اسے پڑھیں اور انہوں نے عہد کے باوجود کتاب کو مضبوطی سے نہ پکڑا حالانکہ وہ اسے پکڑ تو لیتے ہیں لیکن عمل نہیں کر تھے اور اپنے نظریہ و عمل میں اسے نافذ نہیں کرتے ، نہ اپنے نظام زندگی میں اسے جاری کرتے ہیں۔ اگرچہ یہ ایک تعریض ہے لیکن آنے والی تمام نسلوں کے لیے اس میں طے کردہ اصول باقی ہے۔ تمسک کے لفظ سے ایسے مفہوم کا اظہار ہوتا ہے جو ذہن کے سامنے ایک عملی نقشہ اسکرین پیش کردیتا ہے۔ ایک معنوی چیز کو قرآن نے تمسک کے ذریعے حسی بنا دیا ہے۔ معنی یہ ہیں کہ قوت کے ساتھ اس کتاب کو پکڑ لو اور سختی اور سنجیدگی کے ساتھ اس کے اصولوں کو رائج کرو۔ جس طرح اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے کہ اس کی کتاب کو لیا جائے ، بغیر ہٹ دھرمی کے ، بغیر شکن کے اور بغیر گھٹن کے۔ اس لیے سنجیدگی ، قوت اور پختگی اور چیز ہے اور ہٹ دھمری اور گھٹن اور دل گرفتگی اور چیز ہے۔ سنجیدگی ، قوت اور پختگی یسر کے متضاد نہیں ہے البتہ سہل انگاری اور کردار کے بودے پن سے متضاد ہے۔ یہ صورت حال وسعت قلبی کے متضاد نہیں ہے۔ البتہ بےدینی کے متضاد ہے ، حالات کی رعایت اور حکمت کے متضاد نہیں البتہ وہ حالات اور واقعات کی رو میں نہیں بہتی۔ واقعات کو شریعت کے مطابق ہونا تو پالیسی ہے۔ یہ پالیسی نہیں ہے کہ ہم شریعت کو واقعی صورت حالات کے مطابق بناتے چلے جائیں۔ کتاب اللہ کو پختگی سے پکڑ لینا ، نماز اور دوسرے مراسم عبودیت کی پابندی کرنا یہ اسلامی نظام حیات کے دو اہم پہلو ہیں۔ یہاں تمسک بالکتاب کو ایک خاص رنگ یعنی مراسم عبودیت کے ساتھ معتین کیا گیا یعنی پورے اسلامی نظام حیات کے ساتھ ساتھ مراسم عبودیت کو لوگوں کی اصلاح کے لیے لازم کیا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اسلام معاشرے کی اصلاح اس کے بغیر ممکن نہیں کہ اس میں تمسک بالکتاب ہو اور اس میں عبادات کی پابندی ہو ، اس کی طرف اشارہ ان الفاظ میں ہے۔ لا نضیع اجر المصلحین۔ ہم نیک اور مصلحین کا اجر ضائع نہیں کرتے۔ یعنی کتاب کو مضبوطی سے پکڑنا پوری کتاب کو اور عبادات پر عمل پیرا ہونا ہی اصلاح معاشرہ کا ذریعہ ہے۔ کسی معاشرے میں ان دو باتوں میں سے کوئی ایک مفقود ہوجائے تو وہ بگاڑ کا شکار ہوجات ہے۔ یعنی اس میں کتاب اللہ کو مضبوطی سے نہ پکڑا جائے اور لوگ اپنے فیصلے کتاب اللہ کے مطابق نہ کریں۔ دوسرے یہ کہ اس سے عبادت الٰہی مفقود ہوجائے جو دلوں کی صفائی کا ذریعہ ہے۔ اس لیے کہ اگر دل صاف نہ ہوں تو لوگ اللہ کے احکام کے ساتھ یہودیوں جیسی حیلہ سازی کریں گے۔ اس لیے کہ ان کے دلوں میں تقویٰ اور خدا خوفی نہ ہوگی۔ اسلامی نظام ایک مکمل نظام ہے ، وہ باہم مربوط ہے۔ عبادات کے ذریعے دلوں کا زنگ صاف ہوتا ہے اور پھر انسانی جسم احکام کتاب کو درستگی سے مانتے ہیں یوں عملی اور روحانی اصلاحی مکمل ہوتی ہے۔ یہ اللہ کا طریقہ اصلاح ہے اور اس کے سوا ہم اصلاح کا کوئی اور طریقہ اختیار نہیں کرسکتے۔ اگر کوئی ایسا کرے گا تو بدبختی اور عذاب اس کی قسمت میں ہوگا۔
Top