Urwatul-Wusqaa - Al-A'raaf : 170
وَ الَّذِیْنَ یُمَسِّكُوْنَ بِالْكِتٰبِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ١ؕ اِنَّا لَا نُضِیْعُ اَجْرَ الْمُصْلِحِیْنَ
وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ يُمَسِّكُوْنَ : مضبوط پکڑے ہوئے ہیں بِالْكِتٰبِ : کتاب کو وَاَقَامُوا : اور قائم رکھتے ہیں الصَّلٰوةَ : نماز اِنَّا : بیشک ہم لَا نُضِيْعُ : ضائع نہیں کرتے اَجْرَ : اجر الْمُصْلِحِيْنَ : نیکو کار (جمع)
اور جو لوگ کتاب اللہ کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے ہیں اور نماز میں سرگرم ہیں تو ہم کبھی سنوارنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتے
بنی اسرائیل کے بعض مصلحین کی حوصلہ افزائی : 194: سابقہ آیات میں عہد و میثاق کا ذکر تھا جو علمائے یہود سے تورات کے متعلق کیا گیا تھا کہ اس میں تغیر و تبدل نہ کریں گے اور اللہ تعالیٰ کی طرف بجز حق اور صحیح بات کے کوئی چیز منسوب نہ کریں گے اور پھر بیان فرما یا کہ ان علماء بنی اسرائیل نے عہد شکنی کی اور اہل غرض سے رشوتیں لے کر تورات کے احکام بدلے اور ان کی غرض کے مطابق کر کے بتلائے اور پھر یہ آیت اس مضمون کا تکملہ ہے کہ علمائے بنی اسرائیل سب کے سب ایسے نہیں ان میں سے بعض وہ بھی ہیں جنہوں نے تورات کے احکام کو مضبوطی سے تھاما اور ایمان کے ساتھ عمل کے بھی پابند ہوئے اور کتاب کو سمجھ سوچ کر پڑھا اور نماز کو پورے آداب کے ساتھ قائم کیا ۔ فرمایا ان لوگوں کا اجر اللہ تعالیٰ کبھی ضائع نہیں کرے گا ۔ اس سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوگئی کہ کتاب کو صرف اپنے پاس احتیاط اور تعظیم کے ساتھ رکھ لینے اور اس کو صبح اٹھ کر منہ ہاتھ دھو کر منہ سے چوم کر ماتھے پر لگانے سے کوئی مقصد حاصل نہیں ہوتا بلکہ اصل جو کچھ مطلوب ہے وہ اس کے احکام کی پابندی ہے یہی وجہ ہے کہ اس جگہ یمسکون کا لفظ اختیار کیا گیا جس کے معنی مضبوطی کے ساتھ پوری طرح تھامنا تھا یعنی اس کے احکام کی تعمیل کرنا ہے جو اس کو سمجھنے کے سوا ممکن ہی نہیں ۔ احکام کا ذکر فرما کر صرف ایک حکم نماز پر اکتفا کرنے سے بھی یہ بات واضح ہوگئی کہ کتاب اللہ کے احکام میں اولیت نماز کو ہی ہے اور نماز کی پابندی احکام الٰہی کی پابندی کی نشانی ہے گویا جو نماز کا پابند ہوگیا اس کے لئے دوسرے احکام کی پابندی آسان ہوگئی۔
Top