Fi-Zilal-al-Quran - Al-A'raaf : 36
وَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ اسْتَكْبَرُوْا عَنْهَاۤ اُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ النَّارِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو كَذَّبُوْا : جھٹلایا بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیات کو وَاسْتَكْبَرُوْا : اور تکبر کیا عَنْهَآ : ان سے اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ اَصْحٰبُ النَّارِ : دوزخ والے هُمْ : وہ فِيْهَا : اس میں خٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
اور جو لوگ ہماری آیات کو جھٹلائیں گے اور ان کے مقابلے میں سرکشی برتیں گے وہی اہل دوزخ ہوں گے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔
آیت ” وَالَّذِیْنَ کَذَّبُواْ بِآیَاتِنَا وَاسْتَکْبَرُواْ عَنْہَا أُوْلَـَئِکَ أَصْحَابُ النَّارِ ہُمْ فِیْہَا خَالِدُونَ (36) ” اور جو لوگ ہماری آیات کو جھٹلائیں گے اور ان کے مقابلے میں سرکشی برتیں گے وہی اہل دوزخ ہوں گے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ “ کیونکہ اللہ کے عہد ونصیحت کو فراموش کرنے اور استکبار اور تکذیب کی وجہ سے یہ لوگ اپنے دوست شیطان سے مل چکے ہیں اور ان پر اللہ کا یہ فیصلہ نافذ ہوگیا ہے کہ ” جو لوگ تم میں سے اس کی اطاعت کریں گے تو ان سب سے میں جہنم کو بھر دوں گا ۔ “ اب یہاں سے اللہ کے سامنے پیشی کا منظر شروع ہوتا ہے ۔ جس کی طرف سابقہ سبق کے آخر میں اشارہ کیا گیا تھا ۔ آیت ” وَلِکُلِّ أُمَّۃٍ أَجَلٌ فَإِذَا جَاء أَجَلُہُمْ لاَ یَسْتَأْخِرُونَ سَاعَۃً وَلاَ یَسْتَقْدِمُونَ (34) ” ہر قوم کے لئے مہلت کی ایک مدت مقرر ہے ‘ پھر جب کسی قوم کی مدت آن پوری ہوتی ہے تو ایک گھڑی بھر کی تاخیر وتقدیم بھی نہیں ہوتی ۔ “ اس کے بعد یوم و حساب کا منظر شروع ہوتا ہے ‘ فیصلے اور سزا وجزاء کے مناظر آتے ہیں ۔ گویا یہ متقین اور مستکبرین کے انجام کی تفصیل ہے ۔ یہ منظر اسی طرح ہے جس طرح قرآن کریم مناظر قیامت کو پیش کرتا ہے ،۔ قارئین کو یوں نظر آتا ہے کہ واقعات عملا رونما ہو رہے ہیں ۔ قرآن کریم نے مناظر قیامت کے بیان میں ایک خاص اسلوب اپنایا ہے ۔ حشر ونشر ‘ حساب و کتاب ‘ انعام واکرام اور عذاب اور سزا کے بیان میں نہایت ہی موثر اسلوب اپنایا ہے ۔ یہاں صرف یہ نہیں ہے کہ قرآن نے موجودہ دنیا کے بعد آنے والے جہان کچھ اوصاف گنوا دیئے ہیں بلکہ اس کے مناظر کو اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ وہ مناظر محسوس اور مجسم نظر آتے ہیں ۔ انکے اندر افراد چلتے پھرتے اور زندہ نظر آتے ہیں اور نہایت ہی واضح شکل و صورت میں ۔ قرآن کریم کی دنیا میں جب ایک مسلم زندگی بسر کرتا ہے تو وہ ان مشاہدات اور مناظر کو اپنی آنکھوں سے جگہ جگہ دیکھتا ہے ۔ وہ ان سے متاثر ہوتا ہے ۔ کبھی اس کا دل دھڑکتا ہے ‘ کبھی اس کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ‘ کبھی وہ بری طرح خوفزدہ ہوجاتا ہے ۔ کبھی وہ پوری طرح مطمئن اور ہشاش وبشاش ہوجاتا ہے ۔ کبھی اسے آگے کے شعلہ ہائے جو الہ نظر آتے ہیں ۔ اور کبھی اسے جنت کی باد نسیم محسوس ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن میں زندہ رہنے والا مومن اس دن سے پوری طرح واقف ہوتا ہے اور جو لوگ ان مناظر کے بارے میں آیات کو غور سے پڑھتے ہیں ‘ وہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ اس دنیا کے مقابلے میں درحقیقت میدان حشر میں زندہ رہ رہے ہیں ۔ وہ قرآن کی دنیا میں اس طرح گم ہوجاتے ہیں جس طرح کوئی انسان ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوجاتا ہے ۔ ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں چلا جاتا ہے اور یہ انتقال محسوس طور پر ہوتا ہے۔ غرض اس کے احساس و شعور میں عالم آخرت آنے والا مستقبل نہیں ہوتا بلکہ ایک ایسا حال ہوتا ہے جس کا وہ مشاہدہ کر رہا ہوتا ہے ۔ یہاں جن مناظر کو پیش کیا گیا ہے وہ طویل ترین مناظر میں سے ہیں اور ان میں زندگی بھرپور نظر آتی ہے ۔ یہ مسلسل مناظر ہیں اور ان لوگوں کے ڈائیلاگ بھی موجود ہیں اور زندہ اور بھرپور مکالمات کو حیرت انگیز الفاظ میں منتقل کیا گیا ہے ۔ اس طرح مکمل طور پر جس طرح آنکھوں سے دیکھ کر کوئی کسی منظر کو محفوظ کرلیتا ہے ۔ جیسا کہ ہم نے اس سے قبل کہا یہ مناظر قصہ آدم پر تبصرے کے بعد آئے ہیں جبکہ آدم جنت سے نکال دیئے گئے تھے ۔ انکے ساتھ بیوی کا اخراج بھی ہوگیا تھا اور یہ اخراج شیطان کی وسوسہ اندازی کے نتیجے میں عمل میں آیا تھا ۔ اس کے بعد بنی آدم کو یہ تنبیہ بھی کردی گئی تھی کہ شیطان کے فتنوں سے بچو وہ تمہیں اس طرح نقصان نہ پہنچا دے جس طرح تمہارے باپ کو اپنی دیسہ کاریوں سے جنت سے نکلوایا ۔ اس تنبیہ کے ساتھ کہ اگر انہوں نے آنے والے رسولوں کو چھوڑ کر شیطان کا اتباع اختیار کیا تو وہ جہنم کی سزا کے مستحق ہوں گے ۔ ان باتوں کے بعد قیامت کے دن اللہ کے سامنے حضوری کے شاہد پیش کئے گئے ۔ یہ شاہد اس طرح پیش کئے گئے کہ گویا یہ قصہ آدم کے متصلا پیش آ رہے ہیں ۔ اچانک رسولوں کی بعثت اور ان کے مقاصد سامنے آجاتے ہیں ‘ اچانک ان لوگوں کا منظر سامنے آجاتا ہے جو شیطان کے پیروکار ہیں ‘ اچانک وہ لوگ سامنے آجاتے ہیں جو شیطان کے مخالف ہیں اور جنت کے وارث ہیں ۔ وہ عالم بالا سے یہ پکار سنتے ہیں ” کہ یہ ہے وہ جنت جس کے تم وارث ہو ‘ اس لئے کہ تمہارے عمل اچھے تھے ۔ “ آیت ” ان تلکم الجنۃ التی “ ۔ یوں نظر آتا ہے کہ مسافر گھروں کو واپس آرہے ہیں ‘ مہاجر اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں اور اب انہوں نے اس دارالنعیم میں ہمیشہ رہنا ہے ۔ اس قصے اور اس تبصرے کے اندر جو ہم آہنگی ہے وہ یہ ہے کہ پہلے قصہ آتا ہے اور اس کے مناظر عالم بالا میں پیش کئے جاتے ہیں ۔ اس کے بعد اس پر تبصرہ اور شاید قیامت آئے اس ہم آہنگی میں جو خوبصورتی ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ یہ کہانی عالم بالا میں فرشتوں کے سامنے شروع ہوتی ہے ۔ اس وقت آدم وحوا کی تخلیق کی تقریب سعید تھی ۔ آدم اور حوا کو جنت میں رکھا گیا تھا ‘ اور شیطان کی وسوسہ اندازی سے جنت سے ان کے اخراج کے واقعات پیش آئے اخراج اس لئے ہوا کہ انہوں نے مکمل اطاعت اور بندگی نہ کی اور عالم بالا ہی میں یہ مناظر آغاز و انجام یکجا ہوجاتے ہیں اور انکے درمیان انسانی زندگی کے طویل مناظر پیوست ہیں۔ گویا ایک ہی اسٹیج پر یہ تمام مناظر آغاز ‘ درمیان اور انجام پیش ہوگئے ۔ نہایت ہی ہم آہنگی اور مناسب انداز وپیرائے ہیں۔ اب ہم میدان حشر میں آگئے ہی اور اس میں اللہ کے سامنے ان لوگوں کو پیش کیا گیا ہے جو اللہ پر بہتان باندھتے ہیں۔ ان لوگوں کا افتراء اور بہتان یہ ہے کہ انہوں نے آباؤ اجداد سے کچھ رسومات اور ضابطے ورثے میں پائے ہیں اور کچھ ضابطے اور قوانین خود انہوں نے اپنی جانب سے وضع کئے ہوئے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ من جانب اللہ ہیں۔ ان لوگوں کی بھی پیشی ہے جن لوگوں نے اللہ کے بھیجے ہوئے رسولوں کو جھٹلایا حالانکہ وہ یقینی شریعت کر آئے تھے ۔ اس کے مقابلے میں انہوں نے ظن وتخمین سے کام لے کر علم ویقین کو رد کردیا ‘ یہ لوگ دنیا میں عیش و عشرت کرتے رہے اور زمانہ ابتلاء خوب مستی سے گزارا اور رسولوں نے انکے سامنے جو پیغام پیش کیا وہ بھی ان تک پہنچا جسے قبول کرنا انکی قسمت میں نہ تھا ۔
Top