Ruh-ul-Quran - Ar-Ra'd : 8
وَ فِی الْاَرْضِ اٰیٰتٌ لِّلْمُوْقِنِیْنَۙ
وَفِي الْاَرْضِ : اور زمین میں اٰيٰتٌ : نشانیاں لِّلْمُوْقِنِيْنَ : یقین کرنے والوں کیلئے
(اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو (شکم میں) اٹھائے ہوئے ہوتی ہے کوئی مادہ اور وہ جانتا ہے جو کم کرتے ہیں رحم اور جو زیادہ کرتے ہیں اور ہر چیز اس کے نزدیک ایک اندازہ سے ہے۔
اَللّٰہُ یَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ کُلُّ اُنْثٰی وَمَا تَغِیْضُ الْاَرْحَامُ وَمَا تَزْدَادُ ط وَکُلُّ شَیْ ئٍ عِنْدَہٗ بِمِقْدَارٍ ۔ (سورۃ الرعد : 8) (اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو (شکم میں) اٹھائے ہوئے ہوتی ہے کوئی مادہ اور وہ جانتا ہے جو کم کرتے ہیں رحم اور جو زیادہ کرتے ہیں اور ہر چیز اس کے نزدیک ایک اندازہ سے ہے۔ ) اللہ تعالیٰ کی صفت علم کا اظہار نوعِ انسانی میں تمام بگڑے ہوئے لوگوں کی عموماً اور مشرکینِ عرب کی خصوصاً عقیدہ کی خرابیوں کا سبب بنیادی طور پر یہ تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا علم بہت حد تک گم کرچکے تھے۔ جن صفات کو تسلیم کرتے تھے ان میں بھی مخلوق کی نارسائیوں اور کوتاہیوں کی آمیزش پائی جاتی تھی۔ اللہ تعالیٰ کا پیغمبر ان کی ہدایت کے لیے جن باتوں کی انھیں دعوت دیتا تھا وہ اپنے عقل و فکر کے پیمانوں کے مناسب نہ پا کر انھیں ماننے سے انکار کردیتے تھے اور اپنے سوالوں میں ایسا رویہ اختیار کرتے تھے جس سے صاف معلوم ہوتا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کے بارے میں نہایت ناتمام بلکہ غلط تصور رکھتے ہیں۔ یوں تو اللہ تعالیٰ کی ہر صفت کا غلط تصور انسان کی گمراہی کا سبب بنتا ہے لیکن اس کی صفت علم سے متعلق انسان اگر گمراہی کا شکار ہوجائے تو وہ زندگی کی بیشتر راہوں میں الجھ کر رہ جاتا ہے۔ چناچہ اسی حقیقت کے باعث پیش نظر آیت کریمہ اور اس کے بعد کی آیات میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کے حوالے سے بعض حقائق کا اظہار فرمایا ہے۔ سب سے پہلے انسان کی اپنی حیثیت کو زیر بحث لا کر اسے آئینہ دکھایا گیا ہے تاکہ اسے اندازہ ہوسکے کہ میں اپنی ذاتی حیثیت میں کس قدر متضاد واقع ہوا ہوں کہ نہایت پستی سے مجھے اٹھایا گیا ہے، گندے پانی کے ایک قطرے سے میری نشو و نما کا آغاز ہوا ہے اور پھر حیرت انگیز طریقوں سے میں ماں کے پیٹ میں مختلف شکلیں اختیار کرتا رہا ہوں۔ اور پھر ماں کے پیٹ اور دنیا میں آمد کا سبب بجائے خود انتہائی کربناک اور حیرت انگیز ہے۔ اپنی پختہ عمر کو پہنچ کر آج جبکہ میں عقل و شعور کی معراج کو چھو رہا ہوں تو مجھے کچھ احساس ہی نہیں کہ میری تخلیق اور نشو و نما کا کس پستی سے آغاز ہوا اور آج کن بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ اب میں قدم قدم پر اللہ تعالیٰ کے علم اور اس کی قدرت کو چیلنج کررہا ہوں۔ چناچہ اسی بنیادی کمزوری کو واضح کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ اپنے علم کی وسعتوں کی ایک جھلک دکھا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ تو وہ ہے جو ہر حاملہ وجود، چاہے وہ انسان ہو یا حیوان، کے حمل کی ایک ایک تبدیلی سے آگاہ ہے۔ مادہ منویہ سے آغاز ہونے والا یہ سفر جس طرح عہد بعہد تغیرات سے گزرا ہے اور یہ تغیرات صرف جسم تک محدود نہیں بلکہ قسمت کا بنائو و بگاڑسعادت و شقاوت کی تقسیم، رزق کی تنگی اور وسعت، عمر کی کمی بیشی، ہر چیز پر محیط ہے، پھر دنیا میں انسان کے آنے کے بعد اس کا گردوپیش مزید حیرت میں ڈالنے والا ہے۔ اس زمین پر جو کچھ پیدا کیا گیا ہے اس آیت کریمہ میں فرمایا گیا ہے کہ ایک مقدار سے پیدا کیا گیا ہے۔ انسان کو سب سے زیادہ ضرورت پانی کی ہے، تو میدانی علاقوں میں پانی کے دریا بہا دیے گئے ہیں اور زمین کو سمندروں نے گھیر رکھا ہے اور پہاڑوں پر سردیوں میں برف جمتی ہے اور گرمیوں میں پگھل کر ندی نالوں کی روانی کا باعث بنتی ہے۔ اس کے بعد غذا کی ضرورت ہے، تو اللہ تعالیٰ نے زمین کو قوت روئیدگی سے مالامال کردیا ہے اور عناصرِ فطرت کو ہر اس چیز کی نگرانی اور افزائش پر لگا دیا ہے جس سے انسانوں اور حیوانوں کو غذا ملتی ہے۔ انسان بعض دفعہ اپنی فکری نارسائی کے باعث اللہ تعالیٰ کی تخلیقات کے بارے میں غلط فہمی اور گمراہی کا شکار ہوجاتا ہے اور وہ بھول جاتا ہے کہ قضا و قدر کے کارکن انسانوں سے بہتر بجٹ بنانے کی قدرت رکھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ پروردگار نے زمین پر کتنے وسائل پیدا کیے، اس لیے کھانے والوں کی تعداد کتنی ہونی چاہیے۔ انسانی علم ایسے موقع پر غلطی کا شکار ہوسکتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا علم ہر طرح کی غلطی سے پاک ہے۔
Top