Tafseer-e-Haqqani - Maryam : 14
وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَیْهِ وَ لَمْ یَكُنْ جَبَّارًا عَصِیًّا
وَّبَرًّۢا : اور اچھا سلوک کرنیوالا بِوَالِدَيْهِ : اپنے ماں باپ سے وَلَمْ يَكُنْ : اور نہ تھا وہ جَبَّارًا : گردن کش عَصِيًّا : نافرمان
اور اپنے ماں باپ کے ساتھ بہت نیکی کرنے والے تھے اور وہ سرکش نافرمان نہ تھے۔
ترکیب : فاجاء یقال جاء واجاء لغتان بمعنی واحد ای الجاہا واضطرھا المخاض مصدر وھو وجع الولادۃ عندالجمھور بفتح المیم وقری بکسر ھامن تحتھا بفتح المیم وکسرھا والضمیر المونث اجعۃ ای مریم وقیل ای افتحلۃ ان لاتحزنی تفسیر للنداء سر یا السرے النھر الصغیر والجدول لان الماء یسری فیہ والجمیع سریان والسری الرئیس والجمع سراۃ وھزالھزالتحریک یقال ھزہ فانھنر تساقط اصلہ تتساقط مجزوم بانہ جواب امر۔ ترین اصلہ ترائین مثل تسمعین فریاعجیبا نادر۔ 12 تفسیر : یہ حضرت یحییٰ ( علیہ السلام) کے چند اوصاف حمیدہ بیان فرمائے تاکہ وعدہ الٰہی کہ اس سے پہلے کوئی اس کا ہم نام یا مثل نہیں پیدا ہوا ‘ صادق آئے اور وہ اوصاف یہ ہیں جو ان کو لڑکپن ہی میں دیے گئے تھے۔ باحکمت تھے ‘ نہایت مہربان ‘ رقیق القلب تھے۔ ظاہر و باطن میں پاک اور بابرکت تھے ‘ نہایت پرہیزگار خدا ترس تھے، ماں باپ کے فرمانبردار تھے، جباروسرکش نہ تھے۔ ان خوبیوں کی وجہ سے خدا تعالیٰ حضرت یحییٰ ( علیہ السلام) کی نسبت فرماتا ہے وسلام علیہ کہ ہمارا سلام یا سلامتی اور رحمت ہو ان پر پیدا ہونے اور مرنے اور مر کے جینے کے دن یعنی سخت اوقات میں۔ یہ ایک محاورہ جیسا ہماری زبان میں کہتے ہیں مرحبا ہے اس کے پیدا ہونے پر یا مبارک ہے اس کا پیدا ہونا۔ ان حضرت یحییٰ ( علیہ السلام) کو اس وقت کے ہیرودس نے ایک عورت کے کہنے سے ناحق قتل کیا۔ ان کا سرقلم ہو کر طشت میں لگا کر بادشاہ مذکور کے سامنے لایا گیا۔ یہ وہ زمانہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بھی وعظ و نصیحت کرتے پھرتے تھے۔ دوسرا تذکرہ حضرت مریم کا ہے۔ اس قصہ کی ابتداء یہاں نہیں بیان کی بلکہ ان آیات میں ہے اذقالت امرۃ عمران رب انی نذرت لک مافی بطنی محررا بنی اسرائیل میں سے ایک شخص عمران نامی تھا (یہ عمران موسیٰ (علیہ السلام) کے والد نہیں بلکہ اور شخص تھے) اس کی بیوی حنہ بڑی نیک بیوی تھی جو حضرت زکریا (علیہ السلام) کی سالی تھی اس نے خدا تعالیٰ سے نذرمانی تھی کہ الٰہی یہ جو مجھے حمل رہا ہے اس سے لڑکا پیدا ہوگا تو میں تیری نذر کروں گی۔ یہود میں ایسی نذروں کا قدیم دستور تھا چناچہ حضرت دائود (علیہ السلام) کے عہد سے ذرا پیشتر سموئیل (علیہ السلام) کو بھی ان کی ماں نے خدا کے لیے نذر مانا تھا اور اسی لیے عبادت خانہ میں چڑھا گئیں لیکن عمران کی بیوی نے لڑکی جنی یعنی مریم جس پر ان کو افسوس ہوا کہ لڑکا ہوتا تو بیت المقدس کی خدمت کرتا کیونکہ جن کو خدا کے لیے نذر مانا کرتے تھے ان کو بیت المقدس میں لا کر چھوڑ جاتے تھے وہیں ان کی پرورش ہوتی تھی اور وہ عمر بھر وہیں خدمت کیا کرتے تھے لڑکی کیا کرے گی لیکن حضرت مریم [ کو بھی ان کی ماں بیت المقدس میں چھوڑ گئیں۔ ان کے خالو زکریا (علیہ السلام) جو بیت المقدس کے امام تھے ان کی پرورش کے لیے مقرر ہوئے۔ زکریا (علیہ السلام) نے مریم کے لیے بیت المقدس کے مکانات میں سے ایک جدامکان تجویز کردیا اور یہی ان کے پاس کھانا پانی پہنچایا کرتے تھے۔ چناچہ ایک بار جو یہ ان کے پاس گئے تو ان کے پاس بےموسم کے پھل دیکھے۔ تعجب سے پوچھا کہ یہ کہاں سے آئے۔ مریم نے کہا اللہ نے بھیجے ہے۔ اس سے زکریا کو اور بھی امید ہوئی اور خدا تعالیٰ سے لڑکے کا سوال کیا جس پر حضرت یحییٰ ( علیہ السلام) پیدا ہوئے جن کا قصہ گزرا۔
Top