Tafseer-e-Haqqani - Al-Hajj : 8
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ فِی اللّٰهِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّ لَا هُدًى وَّ لَا كِتٰبٍ مُّنِیْرٍۙ
وَ : اور مِنَ النَّاسِ : لوگوں میں سے مَنْ : جو يُّجَادِلُ : جھگڑتا ہے فِي اللّٰهِ : اللہ (کے بارے) میں بِغَيْرِ عِلْمٍ : بغیر کسی علم وَّ : اور لَا هُدًى : بغیر کسی دلیل وَّلَا : اور بغیر کسی كِتٰبٍ : کتاب مُّنِيْرٍ : روشن
اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں کہ جو اللہ کے معاملہ 1 ؎ میں حق سے منہ موڑ کر بغیر علم و ہدایت اور بغیر کتاب روشن کے
تفسیر : قیامت کے دلائل بیان کر کے پھر انہیں بےہودہ لوگوں کے جاہلانہ حجت و مجادلہ کا ذکر فرماتا ہے۔ قال و من الناس من یجادل فی اللہ بغیر علم ولاھدی ولا کتاب منیر۔ بعض کہتے ہیں پہلی آیت ومن الناس الخ نضربن حارث کے حق میں اور یہ ابوجہل کے حق میں نازل ہوئی۔ بعض کہتے ہیں دونوں جگہ نضر مراد ہے محض ذم کے مبالغہ کے لیے اس کا اعادہ کیا۔ انسان کسی مقصد پر جو حجت قائم کرتا ہے یا کوئی عقیدہ دل میں جماتا ہے۔ تو یا علم بالبد یہیات یا استدلال و نظر سے یا وحی والہام سے پھر جس کو یہ تینوں باتیں کسی بات کی طرف ہدایت نہ کریں اور وہ اس پر جھگڑے تو سخت نادان ہے بغیر علم میں بدیہیات ولا ھدی میں نظریات اور ولا کتاب منیر میں الہامِ حق کی طرف اشارہ ہے کہ اس کے پاس ان میں سے کوئی بھی نہیں۔ پھر اس کا یہ فعل محض تکبر اور لوگوں کے گمراہ کرنے کے لیے ہے۔ ثانی عطفہ لیضل عین سبیل اللہ ثنی العطف کبر وخیلا سے عبارت ہے۔ اب اس کی سزا بیان فرماتا ہے اس کے کبروغرور کے بدلہ لہ فی الدنیا خزی کہ خدا تعالیٰ اس کو دنیا میں بھی خوار و ذلیل کرے گا چناچہ نضربن حارث اور ابوجہل کس ذلت کے ساتھ بدر کی لڑائی میں مارے گئے اور کتوں کی طرح سے ان کی لاشیں کھنچوا کے ایک گڑھے میں ڈال دی گئیں اور اسی طرح سب سرکشوں کا بھی حال ہوا ہے اور ہوگا۔ اور اس جاہلانہ مجادلہ کی سزا میں ونذیقہ یوم القیامۃ عذاب الحریق قیامت کے روز عذاب جہنم کا بھی مزہ چکھائیں گے اور یہ اسی کے عمل کا بدلہ ہے اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ انبیاء (علیہم السلام) قیامت کے حالات بیان فرما کر انسان کو دارآخرت کی بھلائی کے لیے اپنی طرف بلایا کرتے ہیں پھر اس شخض کی سخت حماقت ہے کہ اس رستہ کو دنیا کے فوائد حاصل کرنے کے لیے اختیار کرے۔ دنیا کے نفع و نقصان تو انسان کے ساتھ ہر حال میں رہتے ہیں چناچہ حضرت کے عہد میں بھی بعض بیوقوف اس لیے اسلام میں آئے تھے اس لیے ان کی برائی بیان فرماتا ہے فقال و من الناس من 1 ؎ یعنی بغیر علم و دانش اور بغیر کسی کتابی سند کے خدا کی باتوں کی جاہلانہ تکذیب کیا کرتے ہیں۔ 12 منہ یعبد اللہ علی حرف 1 ؎ بخاری (رح) نے ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ مدینہ میں ایسے بھی لوگ آتے اور اسلام لاتے تھے کہ اگر اس کے لڑکا پیدا ہوا اور اس کے مواشی کے بچے ہوئے تو کہتا تھا کہ یہ دین اچھا ہے اور جو ایسا نہ ہوتا تو کہتا کہ یہ دین برا ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی حرف کے معنی طرف یعنی شک و تردد کے ہیں دنیا میں تو اس پر قضاء و قدر سے مصیبت آنی ہی تھی ادھر خدا سے بھی پھرگئے دنیا 2 ؎ بھی گئی دین بھی ذلک ھو الخسران المبین یہ بڑا ٹوٹا ہے اب خدا کے ڈر سے پھر کر اور معبودوں کی طرف رجوع ہوا ہے یہاں کیا رکھا ہے بجز نقصان کے ان کی عبادت و نذرو نیاز میں مال ضائع کرنا وقت کھونا ‘ و بال بت پرستی سر پر لینا اور بھی خسارہ اور ضرر ہے ان معبودوں کو قدرت ہی کیا ہے جو کسی کو نفع یا نقصان دے سکیں ایسا ہی بدنصیب یہ مانگنے والا ہے جو ان کا رفیق بنا ہے اور ایسے ہی وہ لغو معبود باطل ہیں۔ جن کے پوجنے میں نفع کی جگہ ضرر ہی ضرر ہے۔ 2 ؎ یہ کیا حمق ہے کہ اگر اس کو دنیا کا فائدہ حاصل ہوا تو اس راہ پر قائم رہے کچھ آزمائش ہوگئی ‘ کوئی تکلیف پہنچی تو پھرگئے بتوں سے مانگنے لگے۔ 12 منہ
Top