Tafseer-e-Haqqani - Al-Muminoon : 84
قُلْ لِّمَنِ الْاَرْضُ وَ مَنْ فِیْهَاۤ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
قُلْ : فرما دیں لِّمَنِ : کسی کے لیے الْاَرْضُ : زمین وَمَنْ : اور جو فِيْهَآ : اس میں اِنْ : اگر كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ : تم جانتے ہو
(اے نبی ! ) ان سے یہ تو پوچھو کہ یہ زمین اور جو کچھ اس میں ہے کس کا ہے ؟ اگر تم جانتے ہو
ترکیب : :۔ للہ قراۃ جمہور میں لام سے ہے اور یہ متن الارض کا جواب ہے اور اخیر دونوں سوالوں کے جواب میں اللہ واقع ہے اور للہ بھی۔ بغیر لام میں لفظ کی رعایت ہے اور لام میں معنی کی لان المعنی فی قولہ رب السموات من السموات، ملکوت میں ت مبالغہ کے لیے بمعنی ملک اذا جواب ہے شرط محذوف کا تقدیرہ لوکان معہ آلھۃ۔ تفسیر : :۔ مسئلہ حشر اور رسالت کو تمام کر کے پھر مسئلہ توحید شروع ہوتا ہے اور مشرکین کے مسلمات سے ہی ان پر الزام قائم کیا جاتا ہے فقال قل لمن الارض اے نبی ! ان سے پوچھو کہ زمین اور اس کے رہنے والے کس کے ہیں وہ یہی کہیں گے کہ اللہ کے۔ کس لیے کہ وہ اللہ کے قائل تھے تب کہو کہ تم پھر کیوں نہیں سمجھتے کہ جس کے قبضہ قدرت میں یہ سب ہیں اور وہ ان کا خالق ہے تو اور معبودوں کا کیا استحقاق عبادت ہے بلکہ وہ بھی مخلوق اور مملوک ہیں۔ پھر فرماتا ہے قل من رب السموات الخ کہ ان سے یہ بھی پوچھو کہ ساتوں آسمانوں اور عرش عظیم کا کون مالک ہے ؟ اس کے جواب میں بھی یہی کہیں گے کہ اللہ۔ تب ان سے کہہ دو کہ پھر کیوں نہیں ڈرتے ؟ اس کے سواء اور کون ہے کہ جس کو اس کے ساتھ حاجت روا سمجھ کر پوجتے ہو تم کو ڈرنا چاہیے۔ ان جملوں میں اثبات حشر بھی ہے کیونکہ وہ جو ان سب کا مالک ہے وہ مر کر زندہ کرنے پر بھی قادر ہے۔ مسائل قرانیہ کا باہم ایسا ارتباط ہے کہ ایک مسئلہ کے دلائل سے دوسرا بھی ثابت ہوجاتا ہے یہ کافی اعجاز ہے پھر فرماتا ہے کہ آسمان و زمین سے یہی تعمیم کر کے یہ سوال کرو کہ ہر ایک چیز پر کس کا قبضہ ہے اور وہ کون ہے کہ جس کو چاہتا ہے پناہ دے سکتا ہے اور اس کے مجرم کو کوئی پناہ نہیں دے سکتا اگر تم کو یہ بات معلوم ہے تو بتلاؤ (یقال اجرت فلانا علی فلان اذا اغثنہ منہ ومنعتہ) اس کے جواب میں بھی وہ اللہ ہی کہیں گے۔ پھر کہو کہ تم پر کسی نے کیا سحر کردیا کیا افسوں پڑھ کر تم کو احمق بنا دیا ہے کہ اس بات کو جان کر بھی اللہ کے سوا اس کی مخلوق کو پوجتے ہو۔ جو دیدہ دانستہ احمق بن جائے تو محاورہ میں کہا کرتے ہیں کہ کسی نے اس کو منتر پڑھ کر دیوانہ بنا دیا نہ یہ مطلب کہ دراصل اس پر کسی نے سحر کردیا ہے۔ عرب کے مشرک ہندوئوں کا ساعقیدہ رکھتے تھے جس طرح ہندو یہی کہہ دیتے ہیں کہ ایشر (خدا) جو چاہتا ہے کرتا ہے کوئی اس کے برخلاف نہیں کرسکتا مگر با ایں ہمہ سینکڑوں معبود بھی بنا رکھے ہیں کہیں دیوی پجتی ہے ‘ کوئی ہنومان کو مانتا ہے ‘ کوئی مہادیوکالنگ پوجتا ہے ‘ کوئی بشن کی مورت پر جل چڑھاتا ہے اور پھر ہر ملک میں ہر ایک قوم کا جدا ہی معبود ہے آگ ‘ پانی ‘ حجر ‘ شجر ‘ آفتاب ‘ ستارے کوئی چیز بھی نہیں چھوڑی کہ جس کو نہ پوجتے ہوں۔ یہی حاجت روا جان کر ان کو پکارنا ‘ ان کی نذر نیاز کرنا ان کی پرستش ہے اور یہ بھی کہتے ہیں کہ ان میں بھی ایشر کی مایا ہے ‘ یہ بھی بڑی قدرت رکھتے ہیں۔ یہی حال عرب کے مشرکوں کا تھا۔ افسوس ہندوستان کے جاہل مسلمانوں میں بھی ہنود کی صحبت کا اثر آگیا۔ یہ بھی اپنے بزرگوں کے ساتھ اس کے قریب قریب برتاؤ کرنے لگے یہ اس کو توسل کہتے ہیں اور غیر قومیں جو اپنے بزرگوں سے ایسے ہی معاملات کریں تو اس کو شرک قرار دیتے ہیں فعل ایک ہی ہے پھر فرماتا ہے بل اتینا ھم بالحق الخ کہ ہم نے ان کو حق دین دے دیا ہر بات سچی کھول دی پر یہ جھوٹے منصوبے باندھتے ہیں۔ مشرکین عرب میں سے بعض فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں بھی کہتے ہیں عرب میں عیسائی بھی حضرت مسیح ( علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا کہتے تھے ان کے رد میں فرماتا ہے ما اتخذ اللہ من ولد الخ کہ اللہ نے کسی کو بیٹا نہیں بنایا اور نہ اس کے ساتھ اور کوئی خدائی میں شریک ہے اگر ایسا ہوتا تو ہر خالق اپنی مخلوق پر قبضہ کرتا اور ایک کا دوسرے سے خلاف ہو کر لامحالہ ایک دوسرے پر غالب ہوتا اور اس جھگڑے میں انتظام عالم بگڑ جاتا اللہ پاک ہے ان کی ان باتوں سے وہ چھپی اور کھلی ہر بات جانتا ہے اور کسی کو یہ بات حاصل نہیں۔
Top