Mualim-ul-Irfan - Al-Muminoon : 84
قُلْ لِّمَنِ الْاَرْضُ وَ مَنْ فِیْهَاۤ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
قُلْ : فرما دیں لِّمَنِ : کسی کے لیے الْاَرْضُ : زمین وَمَنْ : اور جو فِيْهَآ : اس میں اِنْ : اگر كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ : تم جانتے ہو
آپ کہہ دیجئے ، کس کے لئے ہے زمین اور جو کچھ اس کے اندر ہے ، اگر تم کچھ جانتے ہو
ربط آیات : اس سورة مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے انبیاء (علیہم السلام) اور ان کے مشن کا ذکر کیا کہ انہوں نے کس طرح خدا کا پیغام تک پہنچایا اور ایمان و توحید کی دعوت دی۔ اللہ نے ساتھ ساتھ توحید کے مختلف دلائل بھی بیان فرمائے۔ چونکہ وہ لوگ قیامت کا بھی انکار کرتے تھے ، اس لئے اللہ نے توحید اور قیامت کے اکٹھے دلائل بھی دیے۔ گزشتہ آیات میں بعض ایسے دلائل کا ذکر تھا جو انسانی مشاہدے میں ہر وقت آتے رہتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر انسان کا فرض ہوجاتا ہے کہ وہ اللہ کی نعمتوں کی قدر کرے ، توحید اور قیامت کا انکار نہ کرے۔ اللہ نے مشرکین کے اس نظریہ کو بھی بیان کیا کہ وہ کہتے تھے کہ جب ہم مرکر مٹی میں رل مل جائیں گے اور ہماری ہڈیاں بوسیدہ ہوجائیں گی ، تو بھلا پھر ہم کیسے دوبارہ جی اٹھیں گے کہتے تھے کہ یہ تو پرانے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں جو ہم آبائواجداد سے ستنے چلے آرہے ہیں مگر ہم انہیں تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں۔ زمین ومافیا کی ملکیت : اب آج کے درس میں دلائل توحید ہی کے ضمن میں ارشاد ہوتا ہے قل لمن الارض ومن فیھا اے پیغمبر ! آپ ان کفار ومشرکین سے کہہ دیجئے کہ زمین اور اس میں موجود ہر چیز کس کی ملکیت ہے۔ اس زمین پر مخلوق خدا آباد ہے۔ اسی میں پیدا ہوتے ہیں ، کاروبار کرتے ہیں ، چلتے پھرتے ہیں۔ اس پر مکانات بناتے ہیں۔ اس میں کھیتی باڑی کرکے اپنے لئے روزی کا سامان مہیا کرتے ہیں مگر یہ تو بتلائو کہ اتنا بڑا کرہ ارض آخر کس کی ملکیت ہے۔ مطلب یہ کہ اس کو پیدا کس نے کیا ہے اور اس کا پورا کنٹرول کس کے ہاتھ میں ہے۔ فرمایا بتائو ان کنتم تعلمون اگر تم جانتے ہو تو اس سوال کا جواب دو ۔ پھر اللہ نے خود ہی جواب میں فرمایا سیقولون للہ کہ ان لوگوں کا جواب یہی ہوگا کہ زمین اور مافیہا کی ملکیت اللہ تعالیٰ ہی کی ہے وہی اس کا خالق اور وہی اس کا متصرف ہے قل فرمایا ، ان لوگوں کا جواب اس کے سوا کچھ نہیں تو پھر ان سے دریافت کریں افلا تذکرون پھر تم نصیحت کیوں نہیں پکڑتے ؟ اللہ تعالیٰ کی توحید کا انکار کیوں کرتیہو۔ اور وقوع قیامت پر ایمان لانے سے کیوں ہچکچاتے ہو ؟ آسمانوں اور عرش کی ملکیت : آگے دلائل توحید کے سلسلے میں دوسرا سوال کیا جارہا ہے۔ قل من رب السموت السبع بھلا بتائو تو ساتوں آسمانوں کا پروردگار کون ہے ورب العرش العظیم اور عرش عظیم کا مالک کون ہے ؟ اس کے جواب میں بھی کفار ومشرکین یہی کہیں گے ۔ سیقولون للہ کہ یہ چیزیں بھی الہ ہی کی ہیں۔ وہی ان کا خالق ، مالک اور متصرف ہے۔ فرمایا ، اگر یہ بات ہے قل افلا تتقون تو پھر تم ڈرتے کیوں نہیں ؟ جب تم ہر چیز کا مالک خدا تعالیٰ کو مانتے ہو تو پھر اس کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہوئے تمہیں خوف کیوں نہیں آتا ؟ یہ تو بڑی گستاخی کی بات ہے۔ یہاں پر یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ آسمانوں کو تو ہر کافر ، مشرک اور ملحد بھی مانتا تھا اور انہوں نے اقرار کیا کہ ان کا مالک اللہ ہی ہے مگر یہ لوگ عرش الٰہی سے تو واقف نہیں تھے ، پھر انہوں نے کے متعلق کیسے تسلیم کرلیا کہ یہ بھی اللہ ہی کی ملکیت ہے مفسرین کرام فرماتے ہیں آسمانی کتب کا علم رکھنے والے یہودونصاریٰ تو عرش عظیم سے بھی واقف تھے کیونکہ اس کا ذکر ان کی اپنی کتابوں میں موجود تھا۔ اور ان سے سن کر مشرک بھی مانتے تھے کہ ساتوں آسمانوں کے اوپر عرش الٰہی بھی ہے۔ اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اس کا مالک بھی اللہ ہی ہے۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ عرش عظیم سے مراد وہ عرش نہیں جس پر خدا تعالیٰ مستوی ہے بلکہ اس مقام پر اس سے مراد سلطنت عظمیٰ (Great Kingdom گریٹ کنگڈم) ہے۔ وہ لوگ چھوٹی چھوٹی ریاستوں اور علاقائی ملوک و سلاطین کا تصور تو رکھتے تھے۔ مگر پوری کائنات یعنی سب سے بڑی سلطنت کا مالک کون ہے ؟ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس کا جواب بھی انہیں یہی دینا پڑتا ہے کہ سب سے بڑی سلطنت کا مالک و متصرف بھی اللہ ہی ہے۔ ہرچیز پر تصرف : پھر تیسرا سوال یہ اٹھایا قل من بیدہ ملکوت کل شیء اے پیغمبر ! آپ ان سے یہ بھی پوچھیں کہ ہر چیز کا تصرف اور اختیار کس کے ہاتھ میں ہے ؟ ملکوت ، ملک کا مبالغہ ہے تسبیح میں بھی ہم پڑھتے ہیں سبحن ذی الملک والملکوت اور وہ کون ہے وھو یجیر ولا یجارعلیہ جو پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابلے میں کوئی پناہ نہیں دے سکتا۔ مطلب یہ ہے کہ جس کو چاہے اپنی پناہ اور حفاظت میں لے لے ، کوئی دوسری ذات اس معاملہ میں دخل نہیں دے سکتی۔ اور اگر وہ کسی کو سزا دینا چاہے تو کوئی ذات ایسی نہیں جو اسے اپنی پناہ میں لے کر اس کو سزا سے بچالے۔ فرمایا ، اس سوال کا جواب دو ان کنتم تعلمون اگر تم جانتے ہو۔ فرمایا کافر اور مشرک بھی اس کا جواب یہی دیں گے سیقولون للہ یہ تو اللہ ہی کی صفات ہیں۔ وہ جسے چھوڑنا چاہے اسے کوئی پکڑ نہیں سکتا ، اور جسے پکڑنا چاہے اسے کوئی چھڑا نہیں سکتا۔ فرمایا ، اگر یہ بات ہے قل فانی تسحرون تو اے پیغمبر ! آپ ان سے کہہ دیں کہ تم پر کہاں جادو کیا جارہا ہے ؟ ان حقائق کا علم ہونے کے باوجود تم توحید اور معاد کا انکار کس بنا پر کر رہے ہو ؟ فرمایا حقیقت یہ ہے بل اتینھم بالحق بلکہ ہم ان کے پاس سچی بات لے آئے ہیں یعنی ہمارا پیغمبران کے پاس خدا کی سچی کتاب اور صحیح پروگرام لے کر آیا ہے۔ توحید ومعاد بالکل برحق ہیں مگر ونھم لکذبون جھوٹے یہی ہیں جو باطل خیالات کی پیروی کرکے اللہ کے سچے نبی کی مخالفت کر رہے ہیں۔ اسے ساحر ، کاہن اور شاعر کا لقب دیتے ہیں اور یہ اپنے اس دعویٰ میں سراسر جھوٹے ہیں یہ لوگ محض سنی سنائی باتوں پر غلط عقیدے بنا کر بیٹھ گئے ہیں۔ یہ نہ تو خدا تعالیٰ کی قدرت کو سمجھتے ہیں اور نہ اس کی حکمت کو بلکہ بلاوجہ حق کی مخالفت کر رہے ہیں۔ توحید پر دلیل : اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے زاویہ نگاہ سے توحید پر دلیل قائم کی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے ما اتخذ اللہ من ولد خدا تعالیٰ نے کسی کو اپنا بیٹا نہیں بنایا اور نہ ہی اس کا کوئی حقیقی بیٹا ہے یہ تو مخلوق کی صفات ہیں اور اللہ تعالیٰ ان سے مبرا ہے ، وہ بےنیاز ہے وہ تو مخلوق سے دراء الوراء ہے۔ لیس کمثلہ شیء (الشوریٰ 11) وہ بےمثل اور مثال ہے۔ یہ تو عیسائیوں کا باطل عقیدہ ہے کہ اللہ نے مسیح (علیہ السلام) کو بیٹا بنا لیا ہے اور وہ سفارش کرکے لوگوں کو اللہ کے قہر سے بچا لیں گے اور لوگوں کی مرادیں پوری کرتے ہیں۔ فرمایا وما کان معہ من الہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود نہیں ہے جو قادر مطلق ، علیم کل ، ازلی اور ابدی ہو۔ اگر بالفرض ، کوئی دوسرا الٰہ ہوتا۔ اذا لذھب کل الہ بما خلق ، تو ہرالٰہ اپنی اپنی پیدا کردہ چیزوں کو لے کر الگ ہوتا جاتا اور وہ اپنی جدا جدا سلطنتیں قائم کرلیتے۔ اگر بہت سے معبود ہوتے تو ظاہر ہے کہ ان میں سے ہر ایک دوسرے پر تسلط جمانے کی کوشش کرتا اور اپنی سلطنت کو وسیع تر کرنے کی کوشش کرتا۔ سورة الانبیاء میں گزر چکا ہے لوکان………… …لفسدتا (آیت 22) اگر ارض وسما میں خدا تعالیٰ کے سوا کوئی اور الٰہ بھی ہوتا تو کائنات کا نظام درہم برہم ہوجاتا۔ یہ تو عام محاورہ ہے کہ ایک گودڑی میں دس فقیر تو سما سکتے ہیں مگر ایک سلطنت میں دو بادشاہ اکٹھے نہیں ہوسکتے۔ ان میں سے ہر کوئی دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کریگا اور اس طرح فتنہ و فساد کا بازار گرم ہوجائے گا۔ اور اگر ان دو میں سے ایک بااختیار اور دوسرا کمزور ہے تو پھر بھی الٰہ ایک ہی ہوگا ، کمزور تو الٰہ بننے کا اہل نہیں ہوگا۔ بہرکیف معلوم ہوا کہ اللہ کے سوا کوئی دوسرا معبون نہیں۔ آگے ایک اور نکتہ بھی بیان فرمایا ہے کہ اگر اللہ کے علاوہ کوئی دسورا معبود بھی ہوتا ولعلا بعضھم علی بعض تو ایک الٰہ دوسرے پر غالب آنے کی کوشش کرتا۔ ایک معبود دوسرے پر چڑھائی کردیتا۔ جیسا کہ دنیا کے عام سلاطین کا دستور ہے۔ فرمایا اس طریقے سے بھی امن مفقود ہوجاتا ہے اور کائنات شروفساد کا میدان بن جاتی فرمایا سبحن اللہ عما یصفون ، اللہ کی ذات پاک ہے ان چیزوں سے جن کو وہ اس کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کا نہ کوئی حقیقی بیٹا ہے اور نہ منہ بولا ، اور نہ ہی خدا نے کسی کو اپنے اختیارات تفویض کردیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہرچیز میں بےمثل اور بےمثال ہے۔ نہ اس کی ذات میں کوئی شریک ہے ، نہ صفات میں ، نہ تصرف میں ، نہ تدبیر میں ، نہ خلق میں اور نہ ربوبیت میں۔ وہ وحدہ لاشریک ہے اور مشرکوں کی بیان کردہ کمزوریوں سے پاک ہے۔ خدا کی صفت علیم : ارشاد ہوتا ہے علم الغیب والشھادۃ وہ غائب اور حاضر سب کو جاننے والا ہے۔ دراصل اللہ تعالیٰ کی ذات سے تو کوئی چیز غائب نہیں۔ اس کا اپنا فرمان ہے وما یعزب……………فی السماء (یونس 61) تیرے پروردگار کی نگاہوں سے تو ایک ذرہ بھی غائب نہیں۔ تو یہاں پر غائب سے مراد وہ چیزیں ہیں جو مخلوق کی نگاہ سے اوجھل ہیں ، مثلاً جنات ، فرشتے ، سعادت ، شقاوت وغیرہ۔ غرضیکہ اللہ تعالیٰ ہر ظاہر اور باطن چیز کو جانتا ہے۔ وہ علیم کل ہے اور اس کی ذات سے کوئی چیز مخفی نہیں ۔ تو یہاں پر غائب سے مراد وہ چیزیں ہیں جو مخلوق کی نگاہ سے اوجھل ہیں ، مثلاً جنات ، فرشتے ، سعادت ، شقاوت وغیرہ۔ غرضیکہ اللہ تعالیٰ ہر ظاہر اور باطن چیزکو جانتا ہے۔ وہ علیم کل ہے اور اس کی ذات سے کوئی چیز مخفی نہیں وہ عالم محسوسات اور عالم غیر محسوسات سب کو جاننے والا ہے۔ فرمایا فتعلی عما یشرکون پس خدا تعالیٰ کی ذات بلندو برتر ہے ، ان چیزوں سے جن کو یہ خدا کا شریک بناتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کی صفات غیر محدود ہیں۔ جب کہ انسان کا علم اور سمجھ محدود ہے اور انسان ہر طرح سے محتاج ہے جب حقیقت یہ ہے تو پھر مخلوق کو خدا کی کسی صفت میں یا اس کی عبادت میں شریک کرنا سب سے بڑا ظلم ہے۔ انسان کو شرک سے ہر حالت میں بچنا چاہیے کہ مشرک کی نجات نہیں۔
Top