Ruh-ul-Quran - Al-Muminoon : 84
قُلْ لِّمَنِ الْاَرْضُ وَ مَنْ فِیْهَاۤ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
قُلْ : فرما دیں لِّمَنِ : کسی کے لیے الْاَرْضُ : زمین وَمَنْ : اور جو فِيْهَآ : اس میں اِنْ : اگر كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ : تم جانتے ہو
اے پیغمبر (e) ان سے پوچھئے ! کہ یہ زمین اور جو کچھ اس میں ہے، کس کے ہیں ؟ اگر تم جانتے ہو
قُل لِّمَنِ الْاَرْضُ وَمَنْ فِیْھَآ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ۔ سَیَقُوْلُوْنَ لِلّٰہَ ط قُلْ اَفَلَا تَذَکَّرُوْنَ ۔ (المومنون : 84، 85) (اے پیغمبر (e) ان سے پوچھئے ! کہ یہ زمین اور جو کچھ اس میں ہے، کس کے ہیں ؟ اگر تم جانتے ہو۔ وہ کہیں گے یہ سب اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں، آپ ﷺ کہئے ! تو کیا تم اس پر غور نہیں کرتے۔ ) مشرکین کا فطری تضاد اس آیت کریمہ میں نبی کریم ﷺ سے کہا گیا ہے کہ آپ ﷺ ان سے پوچھئے کہ زمین اور اس میں جو کچھ ہے یہ کس کی ملکیت اور کس کے تصرف میں ہے اور اس زمین کو اور اس کے اندر جو کچھ ہے اسے کس نے پیدا کیا ہے ؟ اور اس کے اندر جو کچھ تصرفات ہورہے ہیں وہ کس کے اختیار میں ہیں ؟ زمین کی قوت روئیدگی جو کچھ پیدا کررہی ہے وہ کس کی اجازت سے کر رہی ہے ؟ لیل و نہار کی گردش جس پر مخلوقات کی زندگی کا مدار ہے وہ کس کے قبضے میں ہے ؟ وہ اس سب کے جواب میں یہ کہیں گے، کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں ہے۔ تو پھر اللہ تعالیٰ ان کے فکری تضاد کو نمایاں کرتے ہوئے ارشاد فرما رہا ہے کہ اگر یہ زمین اور اس میں ہونے والی ہر تبدیلی اور اس میں نظر آنے والے تصرفات اور اس کی بقاء اور اس کے اندر پلنے والی مخلوقات کو ملنے والی ضروریات، یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے تو پھر تم وقوع قیامت سے کس طرح انکار کرتے ہو۔ کیونکہ جو ذات زمین کو پیدا کرسکتی اور اس میں ہونے والے تصرفات پر حکمرانی کرسکتی ہے اور جہاں کا ہر لمحہ اس کے اختیار اور تصرف کا محتاج ہے اور جس کی تمام مخلوقات اسی کے احسانات سے گراں بار ہیں اور جہاں زندگی اور موت کا عمل اسی کی قدرت سے ہورہا ہے تو عجیب بات ہے کہ اس کے لیے زمین کو تباہ کردینا اور پھر ازسرنو وجود دے دینا اور اس زمین پر بسنے والے انسانوں کو ہلاک کردینا اور پھر انھیں ازسرنو زندہ کرکے اللہ تعالیٰ کی عدالت میں پیشی کے لیے مجبور کرنا آخر اس کے اختیارات سے کیوں مستبعد ہے۔ جو عظیم ذات پہلی دفعہ زمین اور اہل زمین کو پیدا کرسکتی ہے وہ دوبارہ کیوں نہیں کرسکتی۔ تمہارے اس فکری تضاد کا تمہارے پاس کیا جواب ہے کہ تم زمین اور اس پر بسنے والی ہر مخلوق کو اللہ تعالیٰ کی ملکیت جانتے ہو اور اس پر قیامت کے نام سے اللہ تعالیٰ کے تصرف سے انکار بھی کرتے ہو۔ تم انسانوں کو اللہ تعالیٰ کی مخلوق بھی سمجھتے ہو اور اس کی مخلوق کو اس کے سامنے جوابدہی سے بےنیاز بھی گردانتے ہو۔ آخر یہ کیسی منطق ہے۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت، اس کی حکمت اور اس کی مشیت میں یقینا کوئی تضاد نہیں، البتہ تمہاری فکر میں تضاد ہے کہ ایک بات کو تسلیم کرتے ہو، لیکن اس کے تقاضوں اور اس کے نتائج سے انحراف کرتے ہو۔ اسی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ کیا تم اپنی اس روش پر غور نہیں کرو گے۔
Top