Tafseer-e-Saadi - Al-Muminoon : 84
قُلْ لِّمَنِ الْاَرْضُ وَ مَنْ فِیْهَاۤ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
قُلْ : فرما دیں لِّمَنِ : کسی کے لیے الْاَرْضُ : زمین وَمَنْ : اور جو فِيْهَآ : اس میں اِنْ : اگر كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ : تم جانتے ہو
کہو کہ اگر تم جانتے ہو تو بتاؤ کہ زمین اور جو کچھ اس میں ہے سب کس کا مال ہے ؟
آیت نمبر 84 یعنی زندگی بعدالموت اور آخرت کی تکذیب کرنے والوں سے ‘ جو اللہ تعالیٰ کے ہم سر اور شریک ٹھہراتے ہیں ‘ توحید ربوبیت کو جس کا وہ اقرار اور اثبات کرتے ہیں ‘ توحید الوہیت اور توحید عبادت پر دیل بناتے ہوئے ‘ اسی طرح بڑی بڑی مخلوقات کی تخلیق کے اثبات کو ‘ مرنے کے بعد زندگی کے اعادہ پر ‘ جو کہ اس سے آسان تر ہے ‘ برہان ٹھہراتے ہوئے ‘ کہیے ! (لمن الارض ومن فیھا) یعنی زمین ‘ اور زمین کی تمام مخلوقات ‘ حیوانات ‘ نباتات ‘ جمادات ‘ سمندروں ‘ دریاؤں اور پہاڑوں کو کس نے پیدا کیا ‘ ان کا مالک کون ہے اور کون ان کی تدبیر کرتا ہے ؟ اگر آپ ان سے اس بارے میں سوال کریں تو وہ یہیں جواب دیں گے ” صرف اللہ “ ! جب وہ اس حقیقت کا اقرار کرلیں تو آپ ان سے کہیے ! (افلا تذکرون) یعنی کیا تم اس چیز کی طرف رجوع نہیں کرتے جس کی یاد دہانی تمہیں اللہ تعالیٰ نے کروائی ہے جس کا تمہیں علم ہے جو تمہاری فطرت میں راسخ ہے البتہ اعراض بسا اوقات اسے ذہن سے غائب کردیتا ہے۔۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر تم جروتھوڑے سے غورو فکر کے ذریعے سے ‘ اپنی اس یاددہانی کی طرف رجوع کرو تو تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ اس تمام کاہنات کا مالک ہی اکیلا معبود ہے اور وہ ہستی جو مملوک ہے ‘ اس کی الوہیت سب سے بڑا باطل ہے۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ اس سے بھی بڑی دلیل کی طرف منتقل ہوتا ہے ‘ چناچہ فرمایا : (قل من رب السموت السبع) ” کہہ دیجیے سات آسمانوں کا رب کون ہے ؟ “ اور ان کے اندر ستاروں ‘ سیاروں ‘ کو اکب اور ثوابت کا رب کون ہے ؟ (و رب العرش العظیم) ” اور عرش عظیم کا رب کون ہے “ جو تمام مخلوقات سے زیادہ بلند ‘ سب سے وسیع اور سب سے بڑا ہے ؟ وہ کون ہے جس نے اس پورے نظام کی تخلیق کی پھر اس کی تدبیر کی اور وہ مختلف تدابیر کے ذریعے سے ان میں صرف کرتا ہے ؟ (سیقولون للہ) یعنی وہ اس حقیقت کا اقرار کریں گے کہ ان سب کا رب اللہ تعالیٰ ہی ہے جب وہ اس کا اقرار کرلیں تو ان سے کہیے ! (افلاتتقون) ” کیا پس تم ( عاجز اور بےبس مخلوق کی عبادت سے) بچتے کیوں نہیں ؟ ” اس کے برعکس تم رب عظیم کی عبادت سے ‘ جو کامل قدرت اور عظیم قوت کا مالک ہے ‘ دور بھاگتے ہو۔ اس آیت کریمہ میں خطاب کا ایسا الوب ہے جو لطف و کرم پر مبنی ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کے ارشاد (افلا تذکرون) اور (افلا تتقون) میں نظر آتا ہے ‘ نیز اس میں وعظ و نصیحت کا ایسا پیرا یہ ہے جو انتہائی دلکش ہے۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ ان کے اس امر کے اقرار کی طرف منتقل ہوتا ہے جو ان سب سے زیادہ عمومیت کا حامل ہے ‘ چناچہ فرمایا : ( قل من بیدہ ملکوت کل شیء) یعنی عالم علوی اور عالم سفلی میں جو کچھ ہمیں نظر آتا ہے اور جو کچھ ہمیں نظر نہیں آتا ان سب کی بادشاہی کس کے ہاتھ میں ہے ؟ (الملکوت) اقتداد اور بادشاہی کے لیے مبالغے کا صیغہ ہے۔ (وھو یجیر) ” وہ شر سے پناہ دیتا ہے “ اپنے بندوں کو ان کی تکلیفوں کو دور کرتا ہے اور ان چیزوں سے ان کو محفوظ کرتا ہے جو انہیں ضرر پہنچاتی ہیں (ولا یجار غلیہ) کسی کی قدرت میں نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں کسی کو پناہ دے سکے اور نہ کوئی اس شر اور تکلیف کو دور کرسکتا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مقدر کردیا ہو بلکہ اس کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے کسی کو سفارش کرنے کی بھی مجال نہیں۔ (سیقولون للہ) یعنی وہ اس حقیقت کا اقرار کریں گے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا مالک ہے ‘ وہی پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابلے میں کوئی کسی کو پناہ نہیں دے سکتا۔ (قل) جب وہ اس حقیقت کا اقرار کریں تو الزامی طور پر ان سے کہہ دیجیے ! ( فانی تسحرون) ” پھر تم کہاں سے جادو کردیے جاتے ہو ؟ “ یعنی پھر تمہاری عقل کہاں ماری جاتی ہے کہ تم ان ہستیوں کی عبادت کرنے لگے جن کے بارے میں تم خود جانتے ہو کہ وہ کسی چیز کی مالک نہیں اقتدار میں ان کا کوئی حصہ نہیں اور وہ ہر لحاظ سے عاجز اور بےبس ہیں اور تم نے مالک عظیم ‘ قادر مطلق اور تمام امور کی تدبیر کرنے والے کے لیے اخلاص کو ترک کردیا۔ اس لیے وہ عقل جس نے اس غیر معقول کام کی طرف تمہاری راہ نمائی کی ہے ‘ سحر زدہ ہونے کے سوا کچھ نہیں۔ بلاشبہ شیطان نے ان کی عقل پر جادو کردیا ہے اس نے ان کے راہ نمائی کی ہے ‘ سحر زدہ ہونے کے سوا کچھ نہیں۔ بلاشبہ شیطان نے ان کی عقل پر جادو کردیا ہے اس نے ان کے سامنے شرک کو مزین کر کے خوبصورت بنا کر دکھایا ‘ حقائق کو بدل ڈالا اور یوں ان کی عقلوں پر جادو کردیا جس طرح جادو گر لوگوں کی آنکھوں پر جادو کردیتے ہیں۔
Top