Tadabbur-e-Quran - Al-Muminoon : 84
قُلْ لِّمَنِ الْاَرْضُ وَ مَنْ فِیْهَاۤ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
قُلْ : فرما دیں لِّمَنِ : کسی کے لیے الْاَرْضُ : زمین وَمَنْ : اور جو فِيْهَآ : اس میں اِنْ : اگر كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ : تم جانتے ہو
ان سے پوچھو، یہ زمین اور جو اس میں ہیں کس کے ہیں، اگر تم جانتے ہو
آیت 85-84 منکرین کا تضاد فکر اب یہ ان منکرین کے تضاد فکر کو نمایاں کیا جا رہا ہے کہ ایک طرف تو یہ آسمان و زمین کا خاق ومالک اور مختار کل خدا ہی کو مانتے ہیں دوسری طرف یہ ایسی باتیں بھی مانتے ہیں جو اس کے بالکل ضد ہیں یا ان باتوں کا انکار کرتے ہیں جو ان کے اس مسلمہ کے لازمی نتیجہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ مشرکین عرب کے متعلق ہم یہ بات اس کے محل میں واضح کرچکے ہیں کہ وہ آسمان و زمین کا خالق ومالک اور مصرف حقیقی تو صرف خدا ہی کو مانتے تھے لیکن اس کے ساتھ وہ شرک کی ان اقسام میں بھی مبتلا تھے جن کی وضاحت اس کتاب میں جگہ جگہ ہوچکی ہے۔ رہی قاکمت تو اس کو اول تو وہ ایک نہایت مستبعد چیز سمجھتے تھے اور اگر ایک مفروضہ کے درجہ میں مانتے تھے تو ان کا خیال تھا کہ ان کے سفارشی خدا کی گرفت سے ان کو بچا لیں گے۔ غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ یہ اسی قسم کا تضاد فکر ہے جس میں بالعموم آج کل کے مسلمان مبتلا ہں۔ یہ خدا کا اقرار بھی کرتے ہیں اور اس اقرار کے جو لازمی نتائج ہیں ان کا انکار بھی کرتے ہیں۔ ایمان کے مدعی بھی ہیں اور ساتھ ہی نہایت دھڑے سے وہ باتیں بھی مانتے اور کرتے ہیں جو ایمان کے بالکل منافی ہیں۔ یہ آنحضرت ﷺ کو ہدایت ہے کہ ذرا ان مدعیان علم سے پوچھو کہ یہ آسمان و زمین اور جو کچھ ان میں ہے کہ کس کا اور کس کے قبضہ و تصرف میں ہے۔ ان کنتم تعلمون کے ال فاظ میں ان کے تضاد فکر پر ایک قسم کی تعریض ہے اس لئے جو علم متضاد افکار کا مجموعہ ہو وہ علم نہیں بلکہ جہل اور شدید قسم کا جہل ہے فرمایا کہ تمہارے اس سوال کا جاب تو بہرحال وہ یہی دیں گے کہ یہ ساری چیزیں اللہ ہی کی اور اللہ ہی کے قبضہ و تصرف میں ہیں۔ پھر ان سے کہو کہ افلا تذکرون اپنے اسی مسلمہ کی روشنی میں تم آخر اپنے افکار و عتمائد کا جائزہ کیوں نہیں لے تق ! اس کے بعد تم توحید کا کس طرح انکار کرتے ہو ؟ یہ شرکاء و شفعاء تم نے کہاں سے گھڑ لئے ؟ قیامت تمہیں کیوں ایک عجیب چیز معلوم ہوتی ہے اور رسول کی دعوت سے تم اس طرح کیوں بدکتے ہو !
Top