Tafseer-e-Haqqani - Aal-i-Imraan : 38
هُنَالِكَ دَعَا زَكَرِیَّا رَبَّهٗ١ۚ قَالَ رَبِّ هَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْكَ ذُرِّیَّةً طَیِّبَةً١ۚ اِنَّكَ سَمِیْعُ الدُّعَآءِ
ھُنَالِكَ : وہیں دَعَا : دعا کی زَكَرِيَّا : زکریا رَبَّهٗ : اپنا رب قَالَ : اس نے کہا رَبِّ : اے میرے رب ھَبْ لِيْ : عطا کر مجھے مِنْ : سے لَّدُنْكَ : اپنے پاس ذُرِّيَّةً : اولاد طَيِّبَةً : پاک اِنَّكَ : بیشک تو سَمِيْعُ : سننے والا الدُّعَآءِ : دعا
اس وقت تو زکریا نے (بھی) اپنے رب سے دعا کی کہ اے میرے رب مجھ کو بھی اپنی جناب سے اولاد عطا کر۔ بیشک تو دعا کا سننے والا ہے۔
ترکیب : ھنا دراصل ظرف مکان کے لئے ہے مگر یہاں ظرف زمان مراد ہے۔ لک سے اس میں بعد ہوگیا۔ یہ دعا سے متعلق ہے من لدنک ھب لی متعلق ہے۔ پس من ابتداء غایۃ ہبہ کے لئے ہے نادت فعل الملئکۃ فاعل بہ ضمیر مفعول ذی الحال وھو قائم جملہ حال یصلی ضمیر قائم سے حال ہے۔ ان اللّٰہ جملہ بیان ندا ہے مصدقا اور سیدا اور حصورا اور نبیاً یحییٰ سے حال ہے لی خبر یکون کو غلام اسم وانی بمعنی کیف اٰیتک مبتداء ان لاتکلم الخ جملہ خبر۔ عشی مفرد ہے بعض کہتے ہیں عشیہ کی جمع اور ابکار بروزن افعال مصدر ہے اے وقت لابکار۔ بنی اسرائیل میں دستور تھا کہ وہ اپنے لڑکے کو خدا کی نذر مانا کرتے تھے جب اس کا دودھ بڑھ جاتا تو اس کو ہیکل یعنی اس مسجد میں کہ جس کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے شہر یروشلم میں بنایا تھا۔ جس کو اہل اسلام بیت المقدس کہتے ہیں ٗ کاہن یعنی امام کے پاس لا کر چھوڑ جاتے تھے اور وہ وہاں مسجد کی خدمت کیا کرتا تھا جیسا کہ سموئیل کو نذر مانا تھا۔ عمران جب مرگئے تو ان کی بیوی حنہ حمل سے تھیں۔ اس نے خلوص نیت سے بدستور بنی اسرائیل یہ نذر مانی کہ الٰہی جو کچھ میرے پیٹ میں ہے ‘ میں نے سب کاموں سے محرر 1 ؎ یعنی آزاد کرکے تیرے لئے نذر مانا ہے۔ سو جب جنی تو لڑکی پیدا ہوئی اور لڑکی ہیکل کی خدمت کی صلاحیت نہیں رکھتی تھی۔ یہ سمجھ کر نہایت حسرت سے جناب باری میں عرض کی کہ الٰہی میں نے لڑکی جنی اور لڑکی لڑکے کے برابر نہیں ہوتی۔ مطلب یہ کہ یہ تیری نذر کے قابل چیز پیدا نہیں ہوئی ٗ کیا کروں ؟ چونکہ وہاں تو خلوص اور محبت پر نظر ہے وہاں لڑکی اور لڑکے کی کچھ پروا نہیں۔ اس لئے خدا تعالیٰ نے بطور جملہ معترضہ کے یہ فرما دیا کہ اللہ ہی خوب جانتا ہے جو کچھ اس نے جنا یعنی وہ لڑکی لڑکوں سے بہتر ہے اور اسی لئے ایک جگہ کانت من القانتین فرمایا ہے اور اس تقدیر پر اگر ولیس الذکر کالانثی کے خدا کی طرف کا جملہ ہو کر یہ معنی قرار دیے جاویں کہ اس لڑکی کے برابر کوئی لڑکا نہیں تو ممکن ہے حنہ نے اس کا نام مریم رکھا اور جب اس کا دودھ بڑھ چکا تو بدستور بنی اسرائیل اس کو ہیکل میں کاہنوں کے پاس بھیج دیا۔ ان میں حضرت زکریا (علیہ السلام) بھی تھے جو رشتہ میں مریم کے خالو ہوتے تھے۔ مریم کی خالہ الیساع جس کو الیسبات بھی کہتے ہیں ٗ زکریا کی بیوی تھی۔ کاہنوں میں باہم گفتگو ہوئی کہ اس لڑکی کی کون پرورش کرے ؟ زکریا (علیہ السلام) نے فرمایا میں مستحق ہوں۔ اس کی خالہ اس کے حال کی خوب نگراں رہے گی اوروں نے نہ مانا۔ اس پر قلم ڈالنے یعنی چٹھی لکھ کر ڈالنے کی قرعہ کے طور پر نوبت پہنچی اور قرعہ میں بھی زکریا کا نام نکلا۔ تب زکریا کے مریم سپرد ہوگئیں اور انہوں نے ان کے لئے جداگانہ جگہ ہیکل کے متعلق تجویز کردی۔ مریم کو خدا نے نذر میں خوش ہو کر قبول کرلیا تھا اور خدا غیب سے اس کے خورش کے سامان مہیا کرتا تھا۔ اس عرصہ میں مریم جواں ہوگئیں۔ خدا کی قدرت حضرت زکریا (علیہ السلام) کے ہاں اس بڑھاپے تک کوئی اولاد نہ تھی۔ ہرچند دعا کرتے تھے رب لاتذرنی فردا وانت خیر الوارثین ان ایام میں کئی بار مریم کے پاس جب ان کے حجرے میں گئے تو بےموسم کے پھل اور میوے دھرے پائے جس سے متعجب ہو کر پوچھا کہ یہ تیرے پاس کہاں سے آئے ؟ مریم نے کہا خدا کے یہاں سے وہ جس کو چاہتا ہے بغیر حساب روزی دیتا ہے۔
Top